مسلمانوں کو بچانے والے اور مروانے والے کیا برابر ہوسکتے ہیں؟

Bhatkallys

Published in - Other

12:40PM Tue 17 Jan, 2017
از:حفیظ نعمانی دیش نیتا مہاتما گاندھی کی پہچان صرف چرخہ نہیں ہے۔وہ کھدر کی دھوتی بھی ہے جس میں اتنا کپڑا بھی نہیں ہوتا تھا جتنا مودی جی کی ایک پگڑی میں ہوتا ہے اور ایک پہچان یہ بھی ہے کہ انھوں نے زیادہ تو برت اس لیے رکھے کہ ملک کی اقلیت مسلمانوں کو نہ مارا جائے اور نہ ستایا جائے۔ ان کی پرارتھنا سبھا میں رگھوپتی راگھو راجا رام ہی نہیں قرآن پاک کی آیات اور انجیل کی تعلیم کا بھی کچھ حصہ سنایا جاتا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور مودی جی کی پہچان یہ ہے کہ وہ پروین تگڑیاں کے ساتھ ایک زمانے میں گجرات میں ہندتو کی ترقی کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ نریندر مودی اس وقت 64سال کے تھے اور توگڑیا 58سال کے۔ دونوں ساتھ ساتھ آر ایس ایس کی شاکھاؤں میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ دونوں ایک موٹر سائیکل پر دیکھے جاتے تھے جسے پروین توگڑیاں چلاتے تھے اور مودی پیچھے بیٹھے ہوتے تھے اور پورے گجرات میں گھوم گھوم کر سنگھ کے نظریات کا پرچار کرتے تھے۔ بی جے پی نے مودی کو 1984میں لے لیا تھا۔ اس وقت کیشو بھائی پٹیل وزیر اعلیٰ تھے۔ 1995سے 2001تک مودی کو بی جے پی نے جلا وطن کردیا تھا اور وہ اپنا زیادہ وقت وشو ہندو پریشد کے دفتر میں گذارتے تھے،کیوں کہ بی جے پی کے دفتر میں ان کی پذیرائی نہیں تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایڈوانی جی نے پروین توگڑیا سے کہا تھا کہ وہ مودی کو لے کر آئے۔ ایڈوانی جی کیشو بھائی سے ناراض تھے ا ور مودی کو وزیر اعلیٰ بنانا صرف اس لیے تھا کہ وہ کیشو بھائی کا مقابلہ کرنے کے قابل تھے۔ گجرات کے ۲۰۰۲ء کے فسادات کے بعد توگڑیاں ہندوؤں کوبھڑکانے میں مصروف تھا اور وشو ہندو پریشد کے کارکن ننگا ناچ ناچ رہے تھے۔ اسی زمانہ میں توگڑیاں نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ : ’’گودھرا اسٹیشن پر دہشت اس لیے پھیلائی گئی کیوں کہ یہ ملک گاندھی کی اتباع کرتا ہے ہم نے ۲۸؍ فروری ۲۰۰۲ء کو گاندھی کو بند کرکے رکھ دیا۔ مسلمانوں اپنے آپ کو درست کرلو ورنہ ہم گاندھی کو ہمیشہ کے لیے بھول جائیں گے۔ میرے بھائیوں ہمیں گاندھی کو چھوڑنا ہوگا۔ کیا تم رامائن سے واقف نہیں ہو۔ ۷؍بجکر ۴۵ منٹ پر ناسیا سگنل پر ایس -6کا جلا ہوا ڈبہ در اصل ہنومان جی کی دم تھی، جسے راون نے جلایا تھا۔‘‘ (اشارہ مسلمانوں کی طرف) گجرات کے ایک اعلیٰ افسر نے ایک اخبار کی رپورٹر کو بتایا کہ مودی صرف فساد سے بنا ہے۔ اس سے پہلے اس کو جانتا کون تھا؟ وہ ابھی اور اس سے بھی پہلے ہماچل سے آیا تھا۔ انہیں غیر اہم ریاستوں کا ذمہ دار بنایا جاتا تھا۔ ہماچل اور ہریانہ اگر یہ (فساد) نہ ہوا ہوتا وہ بین الاقوامی طور پر اتنا مشہور نہ ہوتا۔ نریندر مودی کو ایک ایسے ہندو لیڈر کی طرح دیکھا جارہا تھا جس نے گجراتی اسمیتا کو بچایا تھا۔ ایک ایجنسی ہمارے مضامین خود بھی چھاپتی ہے اور ملک میں ہی نہیں دنیا بھر کے ایسے اخباروں کو بھیجتی ہے جو ان مضامین کو چھاپتے ہیں۔ انھوں نے ایک کتاب گجرات فسادات پر ایک اخباری نمائندہ کی رپورٹ کی شکل میں چھاپی ہے۔ جس میں امت شاہ نریندر مودی اور تمام بڑے افسروں کے معاملات ہیں۔ اس میں اردو ایڈیشن کے صفحہ8 6پر درج ہے کہ : ’’پریادرش ریاستی اے ٹی ایس کا سربراہ تھااور امت شاہ نے اسے یہ راز بتایا تھا کہ عشرت جہاں کو ایک بنگلہ میں قید کرکے رکھا گیا تھا اور بے رحمی کے ساتھ قتل کیے جانے سے پہلے وہ حراست میں رکھی گئی تھی۔ اسی کتاب کے چھٹے باب کی ابتدا میں ہی لکھا ہے کہ سنجیو بھٹ اس میٹنگ میں موجود ہے جس میں مودی نے ان افسروں کو ۲۰۰۲ء کے فساد کے دوران حکم دیا تھا کہ مسلمانوں کو مارنے والے ہندوؤں کو سختی سے نہ روکا جائے۔ اس میٹنگ میں اشوک نارائن نام کا ایک افسر بھی تھا۔ اس نے بھی اس کی تصدیق کی کہ وزیر اعلیٰ مودی نے کہا تھا کہ اقلیتی طبقہ کے خلاف ہندوؤں کو اپنا غصہ نکالنے کا موقع دیا جائے۔ یہ باتیں اس وقت کی ہیں جب مودی ایک چھوٹے مگر اہم صوبہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ یہ تو وزیر اعظم بننے کے بعد اور انہیں دنیا گھومنے کے بعد معلوم ہوا کہ گاندھی جی کیا چیز تھے؟ مودی کی ۱۲ سال وزیر اعلیٰ کی مصروفیات میں نہ کہیں سابرمتی آشرم کا ذکر آتا ہے نہ جھاڑو کا اور نہ چرخے کا۔ سب سے پہلے چرخہ انہیں اس وقت یاد آیا جب چین کے صدر کو انھوں نے احمد آباد بلایا۔ اس کے سامنے خود بھی چرخہ چلایا اور چینی صدر کو بھی تحفہ میں چرخہ دیا۔ وزیر اعظم مودی نے گاندھی جینتی کے موقع پر ایک سال اپنا پروگرام بچوں سے خطاب رکھا تھا۔ اس کے بعد ا نھوں نے جھاڑو پکڑی اور اب ان کا چشمہ شوچالیہ اور صفائی کی علامت ہے اور چرخہ کو انھوں نے اپنے سے منسوب کرلیا۔ ظاہر ہے کہ ہریانہ میں ہی اتنے گنوار وزیر بنائے جاسکتے ہیں جو کرنسی نوٹ سے گاندھی جی کو ہٹانے کی بات کریں اور پھر ساکشی مہاراج کی طرح بی جے پی ذاتی بیان بتا کر اپنے کو الگ کرے۔ اگر دیکھا جائے تو اس میں قصور کھادی بورڈ کا بھی ہے کہ جب ہر سال کلینڈر اور ڈائری چھپتی ہے تو ہر سال گاندھی جی اور چرخہ کی تصویر کیو نہیں چھپتی؟ اور جب کرسی خالی ہوگی تو کوئی نہ کوئی بیٹھے گا۔ گاندھی جی کے نظریہ کا کھدر اور آج کا ریشمی سے زیادہ قیمتی کھدر کا رشتہ چرخہ سے نہیں ہے۔ اسے ملحوظ رکھا جائے۔ چرخا اہنسا کا ہتھیار ہے۔