مولانا فیاض محی الدین لطیفی ۔ ایک قدیم مشفق کی یاد میں۔۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری


یہ مضمون 42 سال قبل مولوی فیاض محی الدین مرحوم کے رحلت کے فورا بعد جنوری ۱۹۷۷ء میں لکھا گیا تھا، معمولی تبدیلی اور آخری پیرے گراف کے اضافے کے ساتھ از سر نو پیش کیا جارہا ہے۔ واضح رہے شہر مدراس کا نیا نام چنئی ہے۔
یہ ۱۹۶۹ھ کا موسم گرما تھا،اسکولوں اور کالجوں میںتعطیلات زمانہ تھا،بھٹکل کے تکیہ محلے میں واقع تھائیکاپا صاحب کے مزار کے سامنے واقع ایک مکان سے دو نو وارد افراد نکلتے ہوئے نظر آنے لگے،یہ دونوں میرے لیے اجنبی تھے،میں ان دونوں کے نام اور احوال سے ناواقف تھا۔ان میں سے ایک ادھیڑ عمرکے اور دوسراسجیلا خوبصورت نوجوان جس کے چہرے مہرے سے شرافت ٹپکتی ہوئی اور لباس اور چال چل سے نفاست و نزاکت۔
پھریہ دونوںپر صرف نمازوں کے اوقات میں خاص طور پر مغرب اور عشاء کے وقت نظر پڑنے لگی، کچھ اس طرح کہ ان میں سے ادھیڑ عمر کے بزرگ کے قدم پہلے گھرسے نکلتے، پھر ان کے نقش قدم پر اس نوجوان کے قدم پیچھے پیچھے،ابھی تک’’نقشِ قدم پر چلنا۔ ‘‘۔۔ ایک محاورے اور نصیحت کے طور پر اپنے اساتذہ سے سنتا آیا تھا،لیکن انہیں دیکھ کر اس محاورے کی زندہ مثال نظروں کے سامنے آگئی اور دل نے جان لیا کہ ہو نہ ہویہ ادھیڑ عمر کے بزرگ اس سجیلے نوجوان کے پدر بزرگوار ہیں ۔اور یہ خیال درست ثابت ہوا۔
اس نوجوان کے اپنے والد کے پیچھے پیچھے چلنا ،ادب و احترام کا خیال رکھنا ،اپنے والد کے سامنے آواز پست رکھنا یہ سب دل کوبہت بھاگیا۔اور اس نوجوان کے عادات و اطوار میں میری دلچسپی بڑھ گئی۔اس سے ملاقات کی امنگیں دل ہی دل میں انگڑائیاں لینے لگیںاور میں مدرسے سے گھر لوٹنے کے بعد اس سے ملنے کی تدبیر سوچنے لگا۔اور تھوڑے ہی انتظار کے بعد وہ گھڑی آگئی اور ایک رو ز نماز مغرب کو جاتے ہوئے ان کا سامنا ہوگیا۔میں نے سلام کیا ،انھوں نے جواب دیااور ہم دونوں کومتعارف ہونے میں دیر نہیں لگی،تب معلوم ہوا کہ یہ مولوی فیاض محی الدین ہیں۔دامدا فقیہ خاندان کے چشم و چراغ، دارلعلوم لطیفیہ ویلور کے بے حد محنتی،بے مثال اور ہونہار طالب علم ،اعلیٰ نمبرات پر کامیابی حاصل کرکے وہاں سے دستارِ عالمیت باندھ چکے ہیں اور اب علم کی پیاس انہیں ’’الکلیۃ العربیۃ الجمالیۃ‘‘مدراس لے آئی ہے، اور وہاں علمی سوتوں سے سیراب ہوکر دستار فضیلت سر پر سجائی ہے ،ان کی صلاحیتوں اور علم کے شوق کو دیکھ کر جمالیہ کے پرنسپل مولانا سید عبدالوہاب بخاری(ایم اے۔ ایل ۔ٹی)نے انہیں وہیں مدرس متعین کردیا ہے ، اس وقت وہ دل جمعی اور محنت سے وہاں کے طریقے کے مطابق عربی زبان ہی میں علوم اسلامیہ کے بحر زخار سے ملکی و غیر ملکی طلبہ کو سیراب کررہے تھے اور ماشاء اللہ اس وقت تک مدراس یونیورسٹی سے افضل العلماء اور منشی فاضل کے امتحانات میں امتیازی نمبرات سے کامیاب بھی ہوچکے تھے۔
اب تک جنہیں میںاجنبی سمجھ رہا تھا ،وہ تومیرے لیے جانی پہچانی شخصیت نکلی، کیونکہ ان کے نام سے میں بخوبی واقف تھا،ان کے زمانۂ طالب علمی میں لکھے گئے عربی و اردو مقالات اور مضامین دارالعلوم لطیفیہ سے جاری سالانہ مجلے ۔۔اللطیف میں دیکھتا آرہاتھا،دل میں ملاقات اور دید کی امنگ تھی۔وہ اب خوش قسمتی سے پوری ہورہی تھی،یہ ملاقات تو تعارف کا ایک بہانہ تھی۔اب تو آئے دن میری ان کی ملاقاتیں ہونے لگیں،ان کے اخلاق اور علم سے میں مرعوب ہوتا گیا اور ملاقاتوں کا شوق بڑھتا ہی گیااور یہ تشنگی کبھی بجھ نہ پائی۔
میں اس زمانے میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل میںدرجہ چہارم عربی کا طالب علم تھا،جب فیاض صاحب کو میری تعلیم کے بارے میں معلوم ہوا تو لگے مجھے عربی ہی میں بات چیت پر ابھارنے ۔اور مجھ سے عربی ہی میں مکالمہ کرنے ۔یہ میری زندگی میں عربی میں بات چیت کا پہلا موقع تھا،انھوں نے نہ صرف مجھے ہی اس پر نہیں ابھارا بلکہ جامعہ کے اساتذہ کو بھی عربی ہی میں تعلیم دلانے پر اکسایا۔عربی میڈیم میں تعلیم کے فوائد بتلائے اور اس کا یہ اثر ہوا کہ ان دنوں ہمارے ایک استاد نے ’’ہدایۃ النحو‘‘ کے اسباق چند دنوں تک عربی ہی میں پڑھانے کی کوشش کی۔اس زمانے میں فیاض صاحب نے خلیفہ جامع مسجد میں بر جستہ عربی خطبہ زبان میں خطبہ جمعہ دیا تھا، اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا، کیونکہ یہاں پر ابن نباتہ کے خطبات کتاب میں دیکھ کر پڑھنے کی روایت چلی آرہی تھی، برجستہ اس عربی خطبہ کا خاص وعوام پر بڑا دیر پا اثر پڑا ، اور معیاری خطبات جمعہ کی ایک مثال قصبے میں قائم ہوئی۔
فیاض صاحب کی ان ہی باتوں کا اثر تھاکہ جامعہ اسلامیہ میں تعلیم کے اختتام پر ہماری جماعت کے تین ساتھیوں کے حصے میں الکلیۃ العربیۃ الجمالیۃ مدراس میں تعلیم حاصل کرنا لکھا گیا اور ہم مدراس آگئے۔ اس وقت آپ مدراس کے موقر تعلیمی ادارے ٹریپلیکن مسلم ہائی اسکول میں تدریسی خدمات سے وابستہ ہوگئے تھے، اور پرسواکم میں جامع مسجد کامپلکس کے ایک کمرے میں مقیم تھے، پرسواکم کوئی پیرمبور سے زیادہ دور نہیں تھا، لہذا فرصت اور تعطیل کے دنوں میں آپ سے ملاقات کے لئے جی چراتا، اب وہ صرف اسکول ماسٹر نہیں تھے بلکہ وہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں قرآنی تعلیمات اور زبان عربی زبان کے فروغ لئے قائم ادارہ معھد الدراسات العربیۃ(عربی اسٹڈی سرکل )کے بانی، محرک اور روح رواں تھے ۔ مختلف مقامات پر اس کی شاخیں پھیلانے کے لئے وہ کوشاں تھے۔ لہذا ان کے فارغ اوقات اسی میں صرف ہورہے تھے ۔پرسواکم میں ان کا کمرہ کیا تھا؟ کوئی چھوٹا موٹاادارہ معلوم ہوتاتھا ۔ ہر طرف کتابوں اور عربی رسائل سے پٹا ہوا ۔ عالم عرب کے جتنے جدیدعربی رسائل اور اخبارت مجھے یہاںملے تھے ، اس سے پہلے کہیں اور نظر نہیں آئے تھے ۔اور جتنی عربی صحافت میں ان کی دلچسپی دیکھی تھی کسی او ر میں نہیں دیکھی تھی ، یہی وجہ تھی کہ ان کو عربی ادب پر اچھا خاصہ عبور حاصل ہو گیاتھا ۔ فصیح عربی میں بول چال تو بڑی روانی سے کرتے تھے ۔
یہاں ان کی جد وجہد کی داستانیں اپنے اساتذہ اور خود ان سے سننے میں آئیں ، اور میرا دل رشک سے بھر گیا ۔ یہ واقعہ تو کبھی بھولے سے بھلایا نہ جائے گا کہ جب وہ لطیفیہ سے فارغ ہوکر جمالیہ میں داخل ہو گئے تھے تو عربی زبان سے تو واقف تھے، لیکن عربی بولنا انہیں نہیں آتا تھا ۔ اور جمالیہ میں عربی میںبات چیت کے بغیر کام نہیں چل سکتا تھا ۔ کیونکہ یہاں پر طلبہ زیادہ تر ملیشیا، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، سری لنکا وغیرہ مشرق بعید کے ممالک سے آتے تھے، اسی طرح جو دار السلام عمر آباد وغیرہ کے جو طلبہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ کی کوشش میں ہوتے تو وہ بھی فراغت کے بعد عربی زبان بولنے کی مشق کے لئے یہاں ضرور آتے، کیونکہ یہاں عربی بول چال اور عربی خطابت داخل نصاب تھے ۔ تو انہوں نے عر بی بول چا ل اور تقریر پر مہارت حاصل کرنے کیلئے یہ طریقہ اپنایا کہ عربی جملے اور عبارتیں رٹا کرتے اور جب سب آرام کی نیند میں پڑے ہوتے تو آدھی رات کو اٹھتے ، جمالیہ کے صحن میں آم کا ایک درخت تھا ، جس کے پاس جاتے اور اس سے عربی میں مخاطب ہوتے اور خود ہی اس کا جواب دیتے ۔ اسی طرح انہوں نے نہ صرف عربی ادب ہی میں نہیں بلکہ دوسرے علوم وفنون تفسیر و حدیث فقہ وغیرہ کے حصول کیلئے بھی کڑی محنت کی ، اور سارے درجے میں اول نمبرات پر کامیاب ہوتے رہے ۔ میرے مدراس کے قیام کے زمانہ میں اپنے مشوروں اور علم سے مجھے نوازتے اور یہ زریں موقعہ مجھے جمالیہ سے فارغ ہونے تک نصیب رہا ۔
یہی وہ زمانہ تھا جب انہوںنے صحافت بھی شروع کی تھی ، انہیں عربی کے ساتھ اردو پر بھی مہارت حاصل تھی، لہذا ہم جیسوں کو یہ امید ہو چلی تھی کہ وہ ایک درخشندہ ستارہ بن کر صحا فت کے آسمان پر چمکیں گے ۔ اس زمانہ میں ان کے لکھے ہوئے کالم مدراس کے مشہور اردو اخبارات مسلمان اوراتحاد وغیرہ میں شائع ہو ا کرتے تھے ، اور کافی مقبول تھے۔
۱۹۷۶ء میں حکیم الاسلام مولانا قاری طیب صاحب بھٹکل تشریف لائے ، تو جامعہ اسلامیہ میں آپ سے اچانک ملاقات ہوگئی ۔ اس وقت اسکولوں میں چھٹی نہ ہونے کی وجہ سے بھٹکل میں ان کی موجودگی پر تعجب ہوا ۔ معلوم ہوا کہ وہ مریض ہیں ۔ویسے بھی وہ دھان پان آدمی تھے ، بیماری نے مزیر لاغر کردیا تھا، اور پھر کافی دنوں تک ملاقات نہ ہوسکی ۔ کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ بھٹکل میں مقیم ہیں اور صاحبِ فراش ہیں ۔ میں عیادت کیلئے گیا ۔ کمزوری بڑھی ہوئی تھی ۔انہیں دق کی بیماری لاحق ہوگئی تھی ، اور تیسرے اسٹیج پرتھی، کمرے سے نکلنے سے حکیم صاحب نے روک دیا تھا ۔ لیکن مطالعہ اب بھی جاری تھا ۔ عربی اور انگریزی رسائل و اخبارات بستر پر کرکھے ہوئے تھے پھر نئے نئے اخبارت و رسائل کی تلاش تھی ۔مستقل کے تعمیری پروگرام بن رہے تھے ۔ اور پھر صحت کچھ ٹھیک نظر آنے لگی، اور ہم جیسوں کی بہت سی اُمیدیں روشن ہوگئیں۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ یہ بجھتے چراغ کی آخری لو تھی، کیونکہ ان اُمیدوں اور تمناؤں کامحل دھڑام سے زمین پر آرہا ۔ جب کہ ۶ !جنوری ۱۹۷۷ء کی شام آگئی ۔ حسبِ معمول میں عصر بعد ان سے ملنے گیا ۔ آج طبیعت کچھ زیادہ خراب تھی ان کے آرام کی غرض سے جلد ہی اٹھ آیا ۔لیکن کسے معلوم تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہوگی ۔ اس کے بعد اس زندگی میں دوبارہ ملنا نصیب نہیں ہوگا ۔ ملک الموت کس کو بتا کر آتے ہیں؟ ۔ وہ تو بن بلائے مہمان ہوتے ہیں ۔ یہاں حکم ہوا اور وہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے آپہنچے۔
وہ رات سوگوار تھی ، جو گہری کالی چادر اوڑھے ہوئے تھی ۔ دس بج رہے تھے فیاض صاحب کو قے آگئی ۔ اور ابھی اس سے فرصت پاکر بستر پر گرے ہی تھے کہ روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی اورجس تابناک سورج کے طلوع ہونے کا انتظار تھاوہ دوسرے روز منوں مٹی کے نیچے دب چکاتھا ۔ اس روز جامعہ کی ڈیوٹی سے فارغ ہوکرمیں بندر روڈ پر واقع الکٹرک آفس میں بل بھر نے گیاہوا تھا، تو نور مسجد
کے خادم جفری صاحب منہ ہی منہ میں بڑ بڑا رہے تھے، آج بہت دیر ہوگئی ،ایک جنازاہ ہوگیا ، دریافت کیا کہ کس کا؟ کہنے لگے کہ مولوی فیاض محی الدین رات گئے اللہ کو پیارے ہوگئے، اور ظہر سے پہلے ان کی تدفین ہوگئی ،میں ابھی ابھی وہاں سے آرہا ہوں ،اور میں ہکابکا رہ گیا، میری زبان گنگ ہوگئی انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولوی فیاض کی جدائی پر آج بیالیس سال گزرچکے ہیں ، وفات کے وقت ان کی عمر تیس سال کے لگ بھگ رہی ہوگی، عنفوان شباب کے دن تھے ، شادی کے بعد کوئی دو تین سال زندہ رہے، اس مدت میں انہیںکوئی اولاد نصیب نہیں ہوئی ، ان کی بیوہ ابھی بقید حیات ہیں ، چالیس سال کی مدت کچھ کم نہیں ہوتی، اب انہیں یاد کرنے والے ، ان سے ملنے والے بھی تلاش کرنے سے نہیں ملتے ، کبھی خیال آتا ہے کہ کیا فیاض مرحوم کا فیض ان کے ساتھ ختم ہوگیا ، کیا ان کے جلائے ہوئے چراغو ں کی لو بجھ گئی، تو پھر خیال آتا ہے کہ نہیں، اور دور ایک ٹمٹاٹا ہوا چراغ نظر آتا ہے۔
اس ناچیز کو مدراس میں دوران تعلیم عربی مجلات پڑھنے کا ذوق فیاض مرحوم سے ملا تھا، ۱۹۷۴ ء میں فراغت کے بعد ایک مختصر سی مدت ممبئی میں گزارنے کا موقعہ ملا، میرے تایا محی الدین منیری مرحوم کی خواہش تھی کہ یہاں رہ کر میں اپنی عربی اچھی کرنے کی کوشش کروں، وہ ممبئی کے حلقوں میں کافی اثر رکھتے تھے، اس زمانے میں چرچ گیٹ اسٹیشن کے قریب کویتی سفارت خانے کے ماتحت ایک الملحق الثقافی ہوا کرتا تھا ، جس میں شام گئے ، ممبئی میں مقیم مختلف ممالک کے عرب حضرات جن میں پڑھے لکھوں کی تعداد زیادہ ہوتی عصر کے بعد حاضر ہوتے، یہاں تمام عرب ممالک سے عرب اخبارات ، مجلات وغیرہ آتے تھے ، منیری صاحب نے ذمہ اران سے مل کر یہاں کے دارالمطالعہ میں روزانہ آنے کی اجازت لے لی، یہاں فیاض مرحوم سے ملنے جلنے کے طفیل عربی مجلات کے پتے محفوظ کرنے کی عادت پڑ گئی، اور جب ۱۹۷۶ء میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں طلبہ میں عربی زبان اور تحریر و خطابت کا ذوق پیدا کرنے کے لئے اللجنۃ العربیۃ کا قیام عمل میں آیا، بحیثیت مدرس اسے قائم کرنے والی ٹیم میں یہ ناچیز بھی شامل تھا، اس وقت محفوظ کئے گئے یہ پتے کام آئے ، اور جب میں ۱۹۷۹ء کے اواسط میں تدریس سے سبکدوش ہورہا تھا تو جامعہ میں مصر، سعودیہ ، کویت ، امارات، قطر، عمان ، عراق وغیرہ سے بیس کے قریب جو پرچے پابندی سے آرہے تھے ان میں تین روزنامے، چار ہفت روزے شامل تھے، اسی طرح عربی چہارم سے اوپر ی درجے کے بہت سارے باذوق طلبہ کے نام پر کویت کا الوعی الاسلامی ، اور بغداد سے التربیۃ الاسلامیہ ماہانہ پہنچتا تھا، اور ابھی چند سال قبل تک انٹرنٹ پر عربی مجلات کی اشاعت تک کم و بیش یہ سلسلہ جاری و ساری تھا، اس توسط سے بعد میں جن افراد تک یہ ذوق منتقل ہوا ہے ، یہ مرحوم کے فیوضات میں شمار ہوگا۔
فیاض صاحب کو ہم سے جدا ہوئے ایک طویل مدت گزرچکی ہے، لیکن ان کا معصوم چہرہ اب بھی ذہن میں تازہ ہے، جوانی میں جدا ہونے والے اس مشفق رفیق کی یاد آتی ہے تو دعا کے لئے ہاتھ بلند ہوتے ہیں ، اپنی مختصر زندگی میں بھی وہ دوسروں کے لئے ایک نمونہ چھوڑ گئے، اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین۔