عبد القادر دامدا ابو ۔ ایک بے ضرر انسان ایک مخلص خادم دین... تحریر : عبد المتین منیری ۔ بھٹکل


WA:00971555636151
آج مورخہ 27 جون کی شام عبد القادر دامدا ابو ،اللہ کو پیارے ہوگئے ، انہوں نے عمرعزیز کے 85 سال اس دنیائے فانی میں گزارے ۔ بعد عشاء جنازہ اٹھا ، اور اپنی آخری آرام گاہ کی طرف روانہ ہوا۔ سخت بارش کے باوجود جامع مسجد نماز جنازہ پڑھنے والوں سے بھری ہوئی تھی ۔ جو اللہ کے بندوں میں آپ کی مقبولیت کی علامت تھی۔ مولانا محمد اقبال ملاصآحب کی زبانی جب نماز جنازہ کی پہلی تکبیر بلند ہوئی ، تو دل پر عجیب کیفیت طاری ہوئی ، آج سے چوالیس سال قبل کے جامعہ آباد کے مناظر سامنے گھومنے لگے ، مولانا شہباز اصلاحی کا دور اہتمام تھا،آج کے بزرگ مولانا اقبال ملا، مولانا محمد صادق اکرمی ،حافظ کبیر الدین ، ماسٹر سعید عالم وغیرہ پر مشتمل نوجوانوں کی ایک ٹیم تھی جو یک جان ہوکر اس ویرانے کو آباد کرنے اور اسے ترقی کے مراحل تک لے جانے کے لئے دل و جان سے لگی ہوئی تھی،عبد القادر صاحب جامعہ آباد کے اولین مینیجر تھے ، ہوسٹل ، باورچی خانے وغیرہ کے نظم و نسق کی ذمہ داریاں ان کے ساتھ مربوط تھیں ۔طباخ حسن شبر النگر تھے جو اسی ماہ رمضان المبارک می اللہ کو پیارے ہوئے ، وہ بھی جامعہ کو گل و گلزار بنانے کی فکر میں مگن تھے ۔ہوسٹل کا ایک کمرہ آفس تھا ، جس میں رات کو بستر بھی بچھائے جاتے تھے ، یہاں ایک ٹاٹا کمپنی کا بنا ہوا بجلی سے چلنے والا ایک بڑا ریڈیو تھا ، زیادہ تر احباب یہاں رات گئے خبریں ، اور پھر دس بجے اذاعۃ القرآن الکریم سے حجازی لے میں قاری ذکی داغستانی مرحوم کی تلاوت سن کر اپنے بستروں پرمیں چھپ جاتے ،
دلوں میں کتنی محبت اور یگانگت تھی ، کتنا انس تھا آپس میں ، ۔ اس دور میں آپ کوئی چار سال اس ذمہ داری سے وابستہ رہے ۔
آپ کے والد ابوبکر دامدا ابو اپنی خوش الحانی کی وجہ سے بھٹکل میں کافی محبوب تھے ، یہ وصف ان کے دونوں فرزندان محمد اقبال اور عبد القادر میں بہ اتم پایا جاتا تھا ، اول الذکر بھٹکل کے پہلے باضابطہ قاری تھے ، تین سال قبل بارگاہ یزدی سے آپ کا بلا وا آیا ۔
مرحوم اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جن پر مولانا محمود خیال کی تعلیم وتربیت کا بڑا اثر تھا ، انہیں اصلاح معاشرہ کی فکر ہمیشہ دامنگیر رہتی تھی ، خیال صاحب کے زیر سرپرستی قائم شدہ اخوان الصفا کے ایک متحرک رکن تھے ، اور ان نوجوانوں میں سے تھے جو قربانی وغیر ہ کی رسومات ایک خاص مذہبی طبقہ سے مخصوص رکھنے کے مخالف تھے ، عید الاضحی وغیرہ کے موقعہ پر اس سلسلے میں بہت متحرک رہتے تھے ۔ سنہ 1970 ء کے اواخر میں بھٹکل میں مرکز تحفیظ القرآن قائم کرنے والوں میں آپ بھی شریک تھے ۔
اللہ تعالی نے وجاہت سے نوازا تھا ، خوبصورت چہرہ اس پر مشت بھر ڈاڑھی ناظرین کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتی تھی ۔ آپ کی آواز کی بڑی دھوم تھی ، آپ بھٹکل کے ان لوگوں میں تھے جن کی آواز میں تقریب شادی کے موقعہ پر پڑھے جانے والے گیت اور مناجاتیں ایک سماں باندھ دیتے تھے ، انہیں سننے کے لئے لوگوں کے پاؤں اپنی جگہ ٹہر جاتے تھے ۔
آپ کی جماعت المسلمین سے پختہ واپستگی رہی ، معاشرے میں اس کی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے کوشاں رہے ، اور ایک موقعہ پر مختصر وقفہ کے لئے محی الدین کوچو باپاکولا صاحب کے باہر ملک جانے پر جماعت کے کارگزار سکریٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں ۔ وہ بھٹکل میں تبلیغی جماعت کی دعوت سے وابستہ ابتدائی لوگوں میں تھے ۔وہ جامعہ اسلامیہ کی مجلس شوری کے بھی رکن رہے ۔ اور جامعہ کے لئے تعاون حاصل کرنے کے لئے زندگی کا بڑا وقت دیا تھا ، اس مقصد سے دبی اور خلیجی ممالک کی بھی خاک چھانتے رہے تھے۔
جامعہ سے وابستگی سے قبل وہ بنگلور اور وجے واڑہ میں ملازمت اور تجارت سے بھی وابستہ رہے تھے ۔ جامعہ چھوڑنے کے بعد آپ نے الخوبر بھٹکل اسٹور میں کوئی بیس سال ملازمت کی ، پھر انہیں وطن کی سوندھی مٹی اپنی طرف کھینچ لائی ، اور انہوں نے خود کو یہاں پر جامعہ اور دینی خدمت کے لئے وقف کیا ۔ مولانا عبد الباری ندوی مرحوم کے زیر اہتمام جب تک دم میں دم رہا جامعہ میں نگرانی کی ذمہ داری سنبھالتے رہے ، لہذا ان کی یہ بات مذاق نہیں حقیقت تھی کہ "میں عالم نہیں تو کیا ہوا ، میرے زیر نگرانی بھٹکل کے بڑے بڑے عالم رہے ہیں "
مولانا عبد الباری مرحوم سے انہیں بے پناہ محبت تھی ، اپنے بچے کی طرح انہیں چاہتے تھے ، جامعہ میں آپ کے زیر اہتمام خدمت انجام دیتے ، جامع مسجد میں آپ کے پیچھے نمازیں ادا کرتے ، رمضان میں اعتکاف آپ کے ساتھ کرتے ، مولانا کی جامع مسجد میں تقرری میں آپ کی بھی دلچسپیاں شامل تھیں ۔ لہذا جوانی میں آپ کی رحلت سے آپ بجھ کر رہ گئے ، پیرانہ سالی کی کمزوریاں بڑھتی گئیں جو انہیں ہمیشہ کے لئے ہم سے جد ا کرگئیں ۔
آخری دنوں میں آپ نے نائطی زبان میں چند ایک نظمیں بھی لکھی تھیں ، جن میں سے سے
ساوس چیزو اللہ طرفین مقرر ۔ اور بانگ بللے پلا بہت مقبول ہوئی تھیں ، انہیں سننے والوں کی پلکوں پر آنسو کے چند قطرے رک جاتے تھے ۔ ہماری خواہش تھی نائطی زبان و تلفظ کی حفاظت کے لئے نائطی زبان کے چند کلاسیکل قصیدے ، ایکا گے سیانو ، کیلے بیان ، وغیرہ آپ کی زبانی ریکارڈ کرکے محفوظ کریں ، اس سلسلے میں ایک کوشش بھی کی تھی ، خیال تھا کہ چونکہ ان قصیدوں کو وہ بچپن سے پڑھتے آرہے تھے تو انہیں وہ آسانی سے پڑھ لیں گے ۔ لیکن سلسلہ ٹوٹنے اور زبان بہت ہی قدیم ہونے کی وجہ سے وہ اس سلسلے کو مکمل نہ کرسکے ۔ اس وقت بھٹکل میں نائطی زبان کو زندہ رکھنے کی بہت کوشش ہوئی رہی ہے ۔ ہماری ناقص رائے میں اس کے لئے سب سے پہلے ان قدیم کلاسیکل نظموں کی ریکارڈنگ پرانے لوگوں کی زبانی درست تلفظ کے ساتھ محفوظ کرنی چاہئے ، تاکہ زبان کا تلفظ باقی رہے اور پرانے الفاظ بھی کانوں میں رس گھولتے رہیں ۔
عبد القادر صاحب ہم سے بہت دور چلے گئے ہیں ، ان کی یاد دلوں میں زندہ رہےگی ، ان کا ہنس مکھ چہرہ ، یاد آتا رہے گا۔ ان کا ہلکا پھلکا مذاق دلوں کو گدگدا تا رہے گا، ہر کوئی اس دنیا سے جانے کے لئے آیا ہے ، مرحوم نے عمر طبعی گذاری ، ان کی ذات بے ضرر تھی ، اللہ کی ذات سے امید ہے کہ ان کا حساب آسان رہے گا ، اللہ ان کے درجات بلند کرے ۔ آمین
2018-06-28