اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے

Bhatkallys

Published in - Other

11:03AM Sun 17 Jul, 2016
۔ڈاکٹر جسیم محمد ابھی بنگلہ دیش کے ڈھاکہ شہراور ترکی کے استنبول میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے زخم خشک نہیں ہونے پائے تھے کہ گذشتہ دنوں فرانس کے نیس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملہ نے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یہ ایسے دہشت گردانہ حملے ہیں جن کی جس قدرمذمت کی جائے کم ہے کیونکہ یہ دہشت گردانہ حملے تمام انسانیت پر حملوں کے مترادف ہیں۔ دنیا کا کوئی مذہب دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا اور جو لوگ اس قسم کے حملوں میں معصوم اور بے گناہ انسانوں کی جان سے کھیلتے ہیں وہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ادھر کچھ عرصہ سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری کسی نہ کسی مسلم تنظیم پر عائد ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہ تمام مسلم تنظیمیں ہی ہیں جو اسلام کے نام پر معصوم لوگوں کی جان و مال سے کھلواڑ کر رہی ہیں جبکہ اسلام کی بنیاد ہی امن و آشتی اور صلح پر رکھی گئی ہے۔ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفےٰ احمد مجتبےٰ ﷺ نے ہمیشہ امن اور سلامتی کا درس دیا۔ دورانِ جنگ بھی اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیشہ یہی ہدایت دی کہ ضعیفوں، خواتین، بچوں اور بیمار افراد پر کسی قسم کی آنچ نہ آنے پائے تو بھلا دنیا کو دہلا دینے والے دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والے یہ دہشت گردانہ حملے کون سے اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں یہ مقامِ فکر ہے۔ گذشتہ دنوں فرانس کے نیس شہر میں ایسے وقت میں جبکہ لوگ فرانس کے قومی دن کے موقع پر منعقدہ تقریب سے آتش بازی کا پروگرام دیکھ کر واپس لوٹ رہے تھے، ایک جانور نما انسان دہشت گردنے معصوم بچوں اور بے گناہ لوگوں پر ٹرک چڑھا کر 84لوگوں کو ہلاک اور دوسو سے زائد افراد کو زخمی کردیا۔بعد میں علم ہوا کہ مذکورہ دہشت گرد مسلم تھا۔ اب عام فکر یہ بنتی جا رہی ہے کہ مسلمان دہشت گردی میں یقین رکھتے ہیں اور اسلام کے فروغ کے لئے معصوموں کی زندگیوں سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے دہشت گردانہ حملہ سے لے کر گذشتہ دنوں فرانس کے نیس شہر میں ہونے والے دہشت گردانہ حملہ تک قریب قریب سبھی کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کی گئی ہے۔ کیا یہ واقعی مسلم تنظیمیں ہیں یا کسی سوچی سمجھی سازش کے تحت اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے اسرائیل یا اس کی ہمنوا جماعتیں چند ایسی تنظیمیں قائم کرکے جن کے نام اسلامی ہوں اور چند ایسے لوگوں کو ان تنظیموں کا سربراہ بناکر جو نام سے مسلمان ظاہر ہوتے ہوں اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کر رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لمحۂ فکریہ ہے عام طور پر مسلمانوں اور خاص طور پر مسلم ممالک کے سربراہان اور دنیا بھر میں سرگرمِ عمل مسلم تنظیموں کے ذمہ داران کے لئے۔ اب محض مذمتوں اور بیانات سے کام چلنے والا نہیں ہے بلکہ عملی طور پر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے سامنے آنا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ ملتِ اسلامیہ کے لئے اس سے بڑھ کر تشویشناک امر اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ جہاں آرام فرما ہیں وہ عظیم المرتبت مسجد نبوی بھی دہشت گردوں کی ناپاک اور مذموم کارروائی سے محفوظ نہیں رہ سکی مگر ہم ہیں کہ ابھی بھی خوابِ غفلت سے بیدار ہونے میں تکلف سے کام لے رہے ہیں۔ہم یہ بھی فراموش کر چکے ہیں کہ ظلم اور نا انصافی کرنا جس قدر گناہ ہے ، ظلم اور نا انصافی کو برداشت کرنا ، اس کا تدارک نہ کرنااور ا س کے خلاف آواز بلند نہ کرنا بھی اسی درجہ گناہ ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کس گھڑی اور کس مدد کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ ہم یہ بھی بھول چکے ہیں کہ خدا بھی ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو آپ اپنی مدد کرنے کی کوشش کریں۔ غافل اور بے حس قوموں کو اللہ کے حضور سے بھی کوئی مدد نہیں ملتی۔وقت کا تقاضہ ہے کہ اب ہماری ہمدرد تنظیمیں سرگرمِ عمل ہوں۔ محض اپنے ایئر کنڈیشنڈ دفاتر سے بیانات جاری کرنے اور ٹی وی پر قوم کی ہمدردی کا مظاہرہ کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ دہشت گردی کا مسئلہ مرحوم اخلاق اور اس جیسے متعدد مسائل سے بڑ امسئلہ ہے جس کے تدارک کے لئے سڑکوں پر اترنا ہوگا، یومِ سیاہ منانا ہوگا، غرض کہ ہر آئینی طریقہ پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کرکے اسلام کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کے تدارک کی کوشش کرنی ہوگی۔ دوسری جانب عالمی سطح پر مسلم ممالک کے سربراہان اور عالمی مسلم تنظیموں کو بلا تفریقِ مسلک متحدہ طور پر تحریک چلانی ہوگی تب کہیں جاکر اسلام کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کو روکنے میں ہم کامیاب ہو سکیں گے ورنہ یاد رکھیں کہ سازش کرنے والے برق رفتاری کے ساتھ کامیابی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ دنیا میں نہ صرف مسلمان بدنام ہو رہے ہیں بلکہ اسلام کی عظمت پر بھی آنچ آرہی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو ہر اس انسان، تنظیم، جماعت اور تحریک کا ساتھ دینا چاہئے جو دہشت گردی کے خلاف سرگرمِ عمل ہو۔ کیا ہندوستانی مسلمان صرف سیاست کی حد تک مسلمان ہے؟ اور خود کو سیاسی جماعتوں کی پکڑ سے باہر نہیں نکلنے دے گا؟کیا ہندوستانی مسلمان اپنے شعور کی آنکھیں موندے رہے گا اور مسلسل تباہی کی جانب بڑھتا چلا جائے گا یا وہ وقت اور حالات کا جائزہ لے کر اپنے لئے بہتر راہیں وا کرے گا اور ہر اس طاقت کا ساتھ دے گا جو دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہو۔ یہاں ہمیں نہ تو کوئی سیاسی فکر دیکھنی ہے اور نہ ہی کسی پرانے زخم کو یاد کرنا ہے۔ہمیں اپنے دامن سے دہشت گردی کے داغ کو مٹانا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم دہشت گردی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز سے اپنی آواز ہی نہ ملائیں بلکہ اس کے کاندھے سے کاندھا ملاکر اٹھ کھڑے ہوں۔ (ڈاکٹر جسیم محمد) سکریٹری ملت بیداری مہم کمیٹی، علی گڑھ