نیم فوجی دستوں میں بے چینی خطرناک ہے

از:حفیظ نعمانی
ملک کی فوج کے جو انوں اور نیم فوجی دستوں کے جوانوں میں بے چینی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دماغی تناؤ کی وجہ سے خود کشی کرنا یا اپنے ساتھیوں یا افسروں کو ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہو کر گولی مار دینا جیسے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ کسی دشمن ملک سے جنگ ہورہی ہو تو فوج کے جوان یا افسر اپنی کامیابی سے زیادہ کچھ نہیں سوچتے۔ لیکن جب حالات پر امن ہوں تو روٹی کو بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ برابر سِکی ہوئی ہے یا ایک طرف سے کچی اور ایک سے جلی تو نہیں ہے؟ اور دال سبزی کو بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس میں دال کے دانے کتنے ہیں اور پانی کتنا؟
اب جب دنیا نے اور ملک نے ترقی کرلی ہے تو ہر کسی کی جیب میں موبائل ہے جو دوسرے شہروں یا دوسرے ملکوں یا دور دراز کے علاقوں میں غور کررہے ہیں ان کے علم میں گھروں کی ہر اچھی اور بری بات آکر ان کا دماغ خراب کرتی ہے۔ یہ بات ہر ایک جگہ دیکھی جاسکتی ہے جہاں کھانا کسی ٹھیکہ دار کے ہاتھ میں ہے یا بے ایمان افسروں کے۔ ہم نے نو مہینے جیل میں رہ کر دیکھا ہے کہ وہاں کے لیے حکومت کا حکم ہوتا ہے جو چیز دی جائے وہ معیاری ہو۔ لیکن خریدنے والے ہر چیز کا وہ بل بنواتے ہیں جو سب سے اچھی ہو اور منگواتے وہ ہیں جو سب سے زیادہ خراب ہو یا اگر جو چیز منگوائی ہے وہ بڑھیا اور گھٹیا نہیں ہوتی تو پھر اس کی مقدار کم لی جاتی ہے۔ مگر بل زیادہ کا بنوایا جاتا ہے۔
جیل میں جو کھانا بناتے ہیں وہ جیل کے قیدی ہی ہوتے ہیں اور جو تقسیم کرتے ہیں وہ بھی قیدی ہی ہوتے ہیں۔ آپ اگر چاہیں تو بیڑی کے ایک بنڈل کے ذریعہ ہر بات معلوم کرسکتے ہیں کہ کتنا تیل آتا ہے، اس میں کتنا دال میں ڈالا جاتا ہے اور کتنا افسروں کے گھر چلا جاتا ہے۔ یا دوسری چیزیں آٹا، فنائل، بلب، دالیں اور جیل کی بغیا کی سبزیاں جو اچھی ہوتی ہیں وہ افسروں کے گھر جاتی ہیں۔حکومت نے تعلیم عام کرنے کے لیے دن کا کھانا اسکول میں بچوں کو دینا شروع کیا ہے۔ وہ کون ٹھیکہ دار ہے جو بچوں کے کھانے میں وہ سب کھلاتا ہو جس کے وہ پیسے لیتا ہے؟ اگر ٹھیکہ دار ایمان دار ہوں تو وہ ٹھیکہ ہی کیوں لیں؟ وہ صرف نفع کمانے کے لیے کاروبار کرتے ہیں اور کاروبار وہ چاہے سرکاری راشن کی دوکان کا ہو یا پکی ہوئی چیز سپلائی کرنے کا، اگر اس میں مرضی کے مطابق نفع نہیں تو کوئی ایسا کاروبار کرے گا ہی کیوں؟
ملک کے وزیر دفاع اور وزیرداخلہ کو اتنی فرصت کہا ں ہے کہ وہ جا کر دیکھیں کہ فوج کے افسران اور جوان کیا کھارہے ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں؟ گاندھی جی کی سوانح میں اس کا ذکر ہے کہ انھوں نے پنڈت نہرو اور دوسرے وزیروں سے کہا تھا کہ حکومت کرنے سے پہلے حضرت عمر فاروقؓ کا اندازِ حکومت ضرور پڑھنا۔ آج نریندر مودی کیا پڑھیں گے جب نواز شریف کو توفیق نہیں ہوتی کہ وہ پڑھ کر دیکھیں اگرپڑھتے تو انہیں ملتا کہ وہ اکثر راتوں کو اندھیری گلیوں میں گھوم کر دیکھتے تھے کہ ملت کا کیا حال ہے؟
ایک دن مکان سے ایک لڑکی کے زور زور سے شعر پڑھنے کی آواز آرہی تھی۔ قریب جا کر سنا تو وہ پڑھ رہی تھی جس کا ترجمہ یہ ہے:
(۱) رات لمبی ہوگئی ہے اور اس کے تمام کنارے کالے پڑ گئے ہیں اور میری نیند غائب ہے، اس لیے کہ کوئی محبوب ایسا نہیں ہے جس سے میں کھیل سکوں۔
(۲) اگر ایسے خدا کا جس کی مانند کوئی شئے نہیں ڈر نہ ہوتا تو اس پلنگ کے چاروں کنارے (پائے) ہل رہے ہوتے۔
صبح کو حضرت عمرؓ نے اسے طلب کیا اور معلوم کیا کہ تیرا کیا حال ہے، اس نے جواب دیا کہ شوہر کئی مہینے سے باہر (جہاز میں) ہے اور میرے دل میں اس سے ملنے کا شوق ہے۔ حضرت عمرؓ نے دریافت کیا کہ کیا تو برائی کا ارادہ کررہی ہے؟ اس نے جواب دیا، اللہ کی پناہ میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ حضرت عمرؓ نے نصیحت کی کہ اپنے نفس پر قابو رکھو میں تیرے شوہر کے بلانے کا حکم بھیج رہا ہوں۔ اس کے بعد حضرت عمرؓنے اپنی صاحبزادی حضرت حفصہؓ سے فرمایا کہ میں ایک سوال کررہا ہوں جس نے مجھے پریشان کردیا ہے۔ تم ہی میری پریشانی دور کرسکتی ہو۔ یہ بتاؤ کہ عورت کتنی مدت تو شوہر سے الگ رہ سکتی ہے؟ یہ اتنا نازک سوال تھا کہ بیٹی باپ کو کیسے جواب دیتی؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں ایک حاکم کی حیثیت سے معلوم کررہا ہوں۔ حضرت حفصہؓ نے سرجھکا کر جواب دیا چار یا چھ مہینے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے قانون بنادیا کہ کوئی شادی شدہ مجاہد چھ مہینے سے زیادہ باہر نہیں رہے گا اسے چھٹی پر واپس کیا جائے گا۔
دونوں باتیں بہت اہم ہیں۔ وزیر دفاع اور داخلہ دونوں کو اچانک معائنہ کرکے یہ دیکھنا چاہیے کہ جوانوں میں بے چینی تو نہیں ہے؟اور ہر فوجی کے گھر کے حالات بھی تحصیلدار کے ذریعہ معلوم کرانا چاہئیں کہ اس کے بیوی بچے یا اس کے بوڑھے ماں باپ پریشان تو نہیں ہیں؟یہ بات کتنی رسوائی کی ہے کہ تیج بہادر جس نے جلی روٹی اور پانی جیسی دال کی شکایت کی ہے۔ اس کی بیوی کہہ رہی ہے کہ اس کے شوہر سے کہا جارہا ہے کہ اپنی شکایت واپس لو اور معافی مانگو۔
یہ بات وزیر داخلہ کے سوچنے کی ہے کہ جو نیم فوجی کمپنیاں ان کے ماتحت ہیں ان کے اندر یہ احساس پیدا ہوجائے کہ ہم سوتیلی اولاد ہیں تو وہی ہوتا ہے جو ایک بڑے لیڈر ملائم سنگھ کے گھر میں ہورہا ہے کہ پارٹی بھی خطرہ میں ہے اور گھر کا سکون بھی۔ ایک جوان کیوں وزیر اعظم کو لکھ رہا ہے کہ ہم لوگ کام تو وہ سب کرتے ہیں جو فوج کرتی ہے لیکن حیثیت ہماری ان سے آدھی ہے، آخر یہ کیوں ہے؟ اور یہ نا انصافی نہیں تو کیا ہے؟ اس کا ایک خراب اثر یہ ہے پڑ گیا کہ بی ایس ایف اور سی آر پی ایف میں لنگڑے لولے ملیں گے۔ ہر صحت مند جوان فوج میں جانا چاہے گا جبکہ سب سے زیادہ ان کی ڈیوٹی لگتی ہے۔