مدارس کے نصاب میں تبدیلی نہیں اضافہ کی ضرورت!۔۔۔از:نقی احمد ندوی

Bhatkallys

Published in - Other

03:00PM Sun 7 Nov, 2021
مدراس کے نصاب میں تبدیلی کی آوازیں ہمیشہ اٹھتی رہی ہیں، اس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں اور بہت ساری کانفرنسیں اور ورکشاپ منعقد ہوتے رہے ہیں، مگر میرے خیال میں تبدیلی سے زیادہ کچھ اضافہ کی ضرورت ہے، اگر تین نقاط پر عمل کیا جائے تو ہمیں اپنے نصاب میں بغیر کوئی تبدیلی کئے بہت مفید نتائج حاصل ہوسکتے ہیں، مدارس کے ذمہ داران اگر ان تینوں امور پر تھوڑی سی پیش قدمی کریں تو صرف چند سالوں میں اس کے خوشگوار اثرات نظر آنے شروع ہوجائیں گے۔ پہلی بات یہ کہ مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء کی اسی فیصد تعداد کسی نہ کسی معاش سے جڑنے کے لئے کسی کالج،یونیورسٹی یاانسٹی ٹیوٹ کا رخ کرتی ہے، صرف بیس فیصد ہی علوم دینیہ یا مدارس میں اپنا کیرئرتلاش کرتے ہیں باقی سماج کے کسی نہ کسی شعبہ میں چلے جاتے ہیں۔  یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے نظرپوشی نہیں کی جاسکتی، بلکہ اس زمینی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں اسی فیصد فارغین مدارس کے مستقبل کی فکر کرنی ہوگی، بیس فیصد کا تو انتظام ہوچکا ہے کہ وہ دینی علوم سے جڑجاتے ہیں، بقیہ اسی فیصد کی اگر ہم فکر کرنے لگیں تو حالات میں بنیادی تبدیلی آسکتی ہے۔ ایک اور حقیقت کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر اہل مدارس چاہیں بھی کہ فارغین مدارس یونیورسٹیز اور کالجز کا رخ نہ کریں، بلکہ وہ کسی نہ کسی طرح دینی علوم کی خدمت سے وابستہ رہیں تو ایسا ناممکن ہے، کیونکہ آپ فارغین مدارس پر کنٹرول نہیں رکھتے کہ وہ دینی علوم سے ہی وابستہ رہیں، انکی معاشی ضروریات انھیں جہاں لے جاتی ہیں وہاں انکا جانا مجبوری ہے اور اس کو روکا نہیں جاسکتا۔  اب ان دونوں حقائق کو ایمانداری کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے انکے مسائل کو حل کرنے اور اس کے لئے ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،چنانچہ  اس مقصد کے حصول کے لئے نصاب میں کسی تبدیلی کی نہیں بلکہ اضافے کی ضرورت ہے، آپ اپنا نصاب وہی رکھیں جو آپ چاہتے ہیں، آپ اپنے دینی اور شرعی نصاب تعلیم میں کوئی تبدیلی نہ کریں اس کے بجائے آپ کچھ اضافے کرلیں۔ یہ معمولی اضافہ بہت سے مسائل کے حل ہونے میں مدد ومعاون ثابت ہوسکتا ہے۔ جہاں تک کچھ اضافہ کی بات ہے تو بڑے بڑے مدارس جیسے ندوہ، دیوبند، سہانپور، عمرآباد، سلفیہ اور دیگر مسلکوں کے بڑے بڑے  مدارس کو اپنے یہاں آرٹ کے مضامین جیسے شوشولوجی، سائکولوجی، ہسٹری، پولیٹیکل سائینس اور انگریزی کے باقاعدہ ڈپارٹمنٹ کھولنے کی ضرورت ہے، ان مضامین کے شعبہ جات کھولنے سے فارغین مدارس کو نہ صرف یہ کہ آسانی ہوگی کہ وہ اپنی اعلی تعلیم سرکاری اداروں میں حاصل کرسکیں گے، بلکہ دینی علوم کے حامل افراد حکومتی اداروں میں پہونچ سکیں گے جو وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے۔  مزید برآں فارغین مدارس کے معاش کا مسئلہ بھی حل ہونے لگے گا۔ ذرا سوچیے کہ اگر فارغین مدارس حکومت کے اداروں میں پہونچیں گے تو قوم وملت کے ساتھ ملک کی کتنی بڑی خدمت ہوگی۔ جامعہ مدینہ، جامعہ ازہر اور جامعہ اسلامیہ ملیشیا کے فارغین مدارس مولوی مولانا بھی بنتے ہیں اور ان میں بیشتر سرکاری اداروں میں بھی نوکریاں حاصل کرتے ہیں، اگر ہم ان مضامین کو اپنے مدارس میں شامل کرلیں تو ہمارے فارغین مدارس کے لئے بھی سرکاری اداروں اور سرکاری محکموں میں جانا ممکن ہوسکے گا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ بڑے بڑے مدارس نہ صرف مدرسہ اور جامعہ بنے  رہیں گے بلکہ انکی حیثیت ایک حقیقی یونیورسٹی کی ہوجائیگی۔ ہم کیوں یہ تصور رکھتے ہیں کہ دیوبند اور ندوہ ایک مدرسہ ہے، وہ مدرسہ نہیں بلکہ اسلامی علوم کی یونیورسٹی ہے، اور اس کو حقیقی یونورسٹی کا جامہ پہنانے کے لیے صرف چند مزید مضامین کے اضافے کی ضرورت ہے، تاریخ، جغرافیہ، علم سیاسیات، معاشیات، نفسیات وغیرہ بھی شرعی علوم کے ساتھ ساتھ بخوبی پڑھائے جاسکتے ہیں، جس طرح طلباء افتاء، ادب عربی، حدیث اور تفسیر وغیرہ میں اختصاص کرتے ہیں باقی طلباء کے اختصاص کرنے کے لیے ان مضامین کا اضافہ کرلیا جائے تو اسی فیصد کا انتظام ہوسکتا ہے۔ دوسرا کام یہ کرنے کی ضرور ت ہے کہ اہل مدارس سنٹرل  اور صوبائی تمام یونورسٹییز سے اپنے  سرٹیفکٹ کو تسلیم کروانے کا عمل شروع کریں۔  ان کے پاس وفد بھیج کر یا جو بھی طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ان کو اختیار کرکے انھیں اپنے مدرسہ کے سرٹیفیکٹ کو تسلیم کرنے پر راضی کریں۔ اب تک جن مدارس کے سرٹیفکٹ کو اگر بعض یونورسٹیز نے تسلیم بھی کیا ہے تو اس میں مدارس کے ذمہ داران کا کوئی رول نہیں رہا ہے، مگر اب وقت آگیا ہے کہ وہ خود آگے بڑھ کر اس کی کوشش کریں کیونکہ ہمیں اسی فیصد طلباء کے مستقبل کی فکر کرنی ہے۔  لہذا مدارس کے ذمہ داران کو اپنے اپنے مدرسہ کے سرٹیفکٹ کو تسلیم کروانے کے لئے جو کچھ اقدامات کرنا پڑے یہ انکی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس پر عملی اقدامات کریں۔ بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ ندوہ، دیوبند جیسے بڑے مدارس کو  ہاروارڈ  اور آکسفورڈ کے ساتھ ساتھ دنیا کی Top 100 Universities   میں اپنا وفد بھیجنا چاہیے اور ان سے اپنے سرٹیفکٹ کو تسلیم کروانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ذرا سوچئے کہ دیوبند اور ندوہ، عمرآباد اور بریلی کے مدارس کے فارغین ہاروارڈ اور آکسفورڈ میں اسلامیات اور عربی زبان پر ریسرچ کریں اور وہاں کے جامعات میں اسلام اور علوم دینیہ کی نشرواشاعت کا کام انجام دیں تو دین اور قوم وملت کی کتنی بڑی خدمت ہوگی  اور کیسا انقلاب آئیگا۔ تیسرا کام یہ کرنے کی ضرور ت ہے کہ جتنے بھی بڑے مدارس ہیں وہ اپنے یہاں کاونسلنگ سنٹرس کھولیں، فراغت کے بعد طلباء کو چھ ماہ اپنے یہاں رکھیں اور کاونسلنگ سنٹر کے ذریعہ ان کی رہنمائی کی جاے کہ وہ کہاں کہاں کس کس ممالک میں کون کون سی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں، ان کے لئے مزید تعلیم کے کون کون سے کورسسز موجود ہیں، یہی نہیں بلکہ صرف معلومات کی فراہمی تک اسے محدود نہ کیا جائے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ انکے فارم کے بھرنے کا بھی انتظام مدرسہ ہی کرے،  انکے انٹرینس اکزام کی تیاری بھی مدرسہ ہی کروائے، اور فراغت کے بعد چھ ماہ کم سے کم ان طلباء کو اپنے مدرسہ میں رکھ کر ان کے مستقبل کی تعلیم کی پوری رہنمائی فراہم کی جائے بلکہ تاکہ وہ اپنے منزل تک اسانی کے ساتھ پہونچ سکیں۔ اگر ہم ان تینوں جہت میں پیش قدمی کرتے ہیں، تو میرے خیال میں اہل مدارس کو اپنے نصاب میں نہ تو تبدیلی کی ضرورت ہوگی، اور نہ ہی ان کے فارغین کے سامنے وہ مشکلات پیدا ہونگی جنکا وہ سامنا کئی دہائیوں سے کرتے آرہے ہیں۔ اول یہ کہ آرٹ کے سبجکٹ کے شعبے کھولے جائیں، دوسرا یہ کہ اسٹیٹ، سنٹرل اور باہر کے ممالک کی یونیورسٹیز سے الحاق کی تمامتر کوششیں کی جایں، تیسرا یہ کہ کاونسلنگ سنٹر قائم کیا جائے۔ اگر ان تینوں نقاط پر عمل کیا گیا تو صرف چند سالوں میں بہت بڑی تبدیلی نظر آنی شروع ہوجایں گی اور جو مدرسہ اس سلسلہ میں ضروری پیش رفت کریگا وہ دوسرے مدارس کے لئے ایک مشعل راہ ثابت ہوگا۔   (مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ)