ندائے ملت کی خصوصی اشاعت(مسلم یونیورسٹی نمبر)۔۔۔از: حفیظ نعمانی

Bhatkallys

Published in - Other

12:03PM Wed 3 May, 2017
یہ وہ نمبر ہے جس کی 15ہزار کاپیاں چھپی تھیں جن میں سے صرف 1550ہم اپنی مرضی سے باہر بھیج سکے باقی 13450حکومت نے ضبط کرلیں یہ بات ۲۹؍ اپریل کی ہے کہ میرے بھانجے میاں اویس سنبھلی کا فون آیا کہ مسلم یونیورسٹی نمبر جو آپ کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے وہ کب سے نہیں دیکھا؟ میں نے بتایا کہ ۳۱؍ جولائی 1965کی رات کو اسے آخری بار ۴؍ بجے دیکھا تھا اس کے کے بعد ۹ مہینے جیل میں گذر گئے پھر الٰہ آباد ہائی کورٹ میں اس کی واپسی کی کے چکر میں بار بار الہ آباد ہائی کورٹ جانا ہوا۔ اور وہاں ناکامی کے بعد سپریم کورٹ جانے کی بات تھی۔ لیکن حالات بدل گئے تھے اور اخبار مقروض ہوگیا تھا، اس لیے صبر کرلیا گیا۔ اویس میاں دوپہر میں تین بجے آئے اور ا نھوں نے مجلد اخبار میری طرف بڑھایا۔ میں معمول کے مطابق لیٹا ہوا تھا۔ میں نے یہ کہہ کر کہ یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے میں لیٹے لیٹے لے لوں۔ میں اٹھا اور اسے ہاتھوں میں لے لیا۔ آج میری دنیا میں بھی کوئی نہیں ہے جو یہ سمجھتا ہو کہ میرے لیے یہ اخبار کیا ہے؟صرف ایک بڑے بھائی ہیں جو لندن میں ہیں اور اس زمانہ میں ان کی صحت اچھی نہیں تھی وہ صرف موجود رہتے تھے۔ مشوروں میں شریک تھے لیکن انھوں نے میرا وہ جنون دیکھا تھا کہ میں تن تنہا مرکزی اور صوبائی دونوں حکومتوں سے لڑ رہا تھااور وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ میری سلامتی کی دعا کرتے تھے۔ مسلم یونیورسٹی نمبر جب اویس کے ہاتھ سے اپنے ہاتھ میں لیا تو ایسا محسوس ہوا جیسے اس میں سے آواز آرہی ہے کہ میں آپ کا وہی ذہنی اور قلمی بیٹا ہوں جسے ۳۱ جولائی 1965کی رات کو سوچیتا کرپلانی کی حکومت کے دس سے زیادہ افسر اور 300سے زیادہ سپاہی آپ کی گود سے چھین کرلے گئے تھے۔ اور ایک اندھیری کوٹھری میں لے جا کر بند کردیا تھا۔ اویس میاں کے سا منے بس اس طرح الٹ پلٹ کر دیکھا کہ یقین کرلوں کہ وہی ہے۔ اس کے بعد اس کے ہر صفحہ سے کچھ نہ کچھ پڑھا اور سب یاد آگیا کہ یہ مضمون یا نظم کب آئی تھی اور کیسے کیسے ۱۵ دن اور ۱۵؍ راتوں میں جاگ کر ا پنے پریس ٍؐ دونوں ا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یونائٹیڈ پریس اور شاہی پریس میں بھی ایک ہفتہ رات دن چھپوانا پڑا تھا کیوں کہ ہر گھنٹہ میں مانگ بڑھ رہی تھی۔ ؂ عام دنوں میں ندائے ملت ۵؍ ہزار چھپ رہا تھا نمبر کی کاپیاں تیار ہوئیں تو سب کے مشورہ سے ۶ ہزار چھاپنا شروع کیا۔ عقلمندی یہ کہ پلیٹیں محفوظ رکھیں۔ مشکل سے ۱۸ پلیٹیں چھپی ہوں گی کہ فیصلہ کرنا پڑا کہ ۸ ہزار چھاپا جائے۔اور صرف دو دن کے بعد تعداد ۱۰ ہزار ہوگئی۔ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ ہندوستان کی ملت اسلامیہ کے دلوں میں شعلے بڑھک رہے ہیں۔ وہ مسلمان جنھوں نے صرف مسلم یونیورسٹی کا نام سنا تھا وہ اس کے لیے جان دینے پر تیار تھے اور صرف اگر یہ خاص نمبر ضبط نہ ہوتا تو شاید 25ہزار بھی چھاپنے کے بعد بھی یہی ہوتا کہ اپنے پاس ایک کاپی بھی نہ رہتی۔ حکومت کی طرف سے سی آئی ڈی اور پولیس کے تمام افسر تیار تھے کہ 1965اخبار کو دفتر سے نکلتے وقت گرفتار کرلیں گے۔ اشاعت کی تاریخ یکم اگست 1965رکھی تھی لیکن ۳۱؍ جولائی کو ہی دو ہزار کاپی تیار تھیں۔ میں نے اپنے بچوں اور بیوی کو و الد ماجد کے گھر بھیج دیا تھا اور دختری خانہ زنانہ مکان میں بلا لیا تھا۔ عمارت میں نیچے پریس ندائے ملت کا دفتر اور اوپر دفتری خانہ اس طرح کہیں جانا تھا کہ وہ دیکھ بھی لیں تو سمجھ نہ پائیں۔یہ خصوصی نمبر مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز کنونشن کے موقع پر چھاپا گیا تھا جو ایک ہفتہ کے بعد لکھنؤ میں ہونے والا تھا۔ سب سے اہم معرکہ یہ تھا کہ کنونشن کے تمام بڑے لیڈروں تک یہ اخبار کیسے پہنچے؟ کیوں کہ ع پر کترنے کو لگی تھیں قینچیاں دیوار پر میری عمر اس وقت 35سال تھی اور دل میں یہ جذبہ تھا کہ دونوں حکومتوں سے مقابلہ صرف مجھے کرنا ہے۔ اخبار میں پرنٹر و پبلشر حفیظ نعمانی چھپتا تھا ۔ میں نے اس کے لیے اپنی اہلیہ کو خطرہ میں ڈالا اور وہ جب بچوں کو لے کر ان کے سامان کے ساتھ جانے لگیں تو میں نے چھوٹے بیٹے میاں ہارون کو اور ایک بکس کو روک لیا۔ کہا کہ یہ کل لے جانا۔ یا منگوا لینا اور ۲۹؍ جولائی کو انہیں بلایا اور پھر ایک بکس میں ہارون کے کپڑے، ان کا بستر اور ۵۰ کاپیاں خاص نمبر کی رکھ کر انہیں رکشے پر بھیج دیا اور سمجھا دیا کہ کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے؟ اللہ میری اس بہار اور وفادار بیوی کو جنت میں اس کا انعام دے کہ وہ سب کچھ کے بعد بھی تیار ہوگئیں اور بکس اور ہارون کو لے کر روانہ ہوگئیں۔ یہ تفصیل جب عام ہوئی تو قاضی عدیل صاحب بھی والد اور بھائی کے ساتھ جیل میں ملاقات کے لیے آئے تو قاضی صاحب نے فرمایا کہ حفیظ میاں خدا آپ کی ہمت کو سلامت رکھے آپ نے بہت خطرناک کھیل کھیلا تھا اور اگر وہ بکس پکڑا جاتا تو آپ گرفتار ہوتے یا نہ ہوتے آپ کی اہلیہ آپ سے پہلے جیل بھیج دی جاتیں۔ میں یہ بات ایک وکیل کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں کہ یہ نہ ہوتا تو لوگ اس نمبر کو دیکھ نہیں پاتے لیکن اگر ہوجاتا اور بکس پکڑا جاتا تو آپ کا گھر برباد ہوجاتا۔ (تحریر بے عدیل صفحہ ۱۱۹) آج میری عمر 85کے قریب ہے۔ آج بھی جب اس کا غلط انجام سوچتا ہوں تو جھرجھری آجاتی ہے۔ اگر اس عمر میں ایسا کوئی معرکہ پیش آجاتا تو میں بیوی اور بیٹی تو کیا م لازمہ کو بھی یہ خطرناک ذمہ داری نہ سونپتا۔ میری اہلیہ اور چپراسی عزیز م رحوم نے ع وہ کام کیا تھا کہ جو رستم سے نہ ہوتا ۲۹؍ جولائی کو ۵۰ کاپی دفتر سے باہر نکال دیں اور ڈاکٹر اشتیاق صاحب وہ بنڈل ملیح آباد میں کہیں رکھ آئے، اور یہ وہی اخبار تھے جو کنونشن میں ڈاکٹر سید محمود، بدرالدین طیب جی، ندور الدین بیرسٹر، قاضی عدیل عباسی، ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی اور ہر اہم لیڈر کے ہاتھ میں تھے اور سی آئی ڈی اور دوسری سرکاری ایجنسیوں کے افسر اپنا منہ جوتے سے پیٹ رہے تھے کہ یہ کہاں سے آگئے؟ اور ہم نے ۳۱؍ جولائی کی شام کو چار باغ ریلوے اسٹیشن کے آر ایم ایس کے ذریعہ 1500اخبار ملک کے گوشہ گوشہ میں بھیج دئے۔ میرا خیال ہے کہ افسروں نے یہ پروگرام بنایا ہوگا کہ اعلان کے مطابق یکم اگست کو اخبار پوسٹ ہوگا اس وقت ہیں سے اسے ا ٹھا لیا جائے گا۔ کیوں کہ ہر ہفتہ امین آباد پوسٹ آفس سے ہی جاتا تھا۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ RMSسے بھی پوسٹ کیا جاسکتا ہے۔ واللہ ا علم لال بہادر ش استری اور کریم بھ ائی چھاگلا کا دباؤ اور ایس بی گپتا اور وزیر اعلیٰ سوچیتا کرپلانی کی پریشانی نے افسروں کو پا گل کردیا تھا۔ وہ غلطی پر غلطی کررہے تھے۔ آر ایم ایس میں رکھوانے کے لیے ا نہیں پی ایم جی اور ریلوے کے سب سے بڑے ا فسر سے اجازت لینا تھی جسے لے کر وہ نو بجے پہنچے اور یہ دیکھ کر کہ وہاں ا یک بھی بنڈل نہیں ہے۔ غصہ میں بھرے ہوئے میرے مکان پر ٹوٹ پڑے اور رات بھر میرے گھر اخبار کیے دفتر اور ڈاکٹر آصف قدوائی ایڈیٹر اخبار کے گھر جتنا غصہ نکال سکتے تھ ے نکالا اور صبح ۴؍ بجے میرے ساتھ بابو حلیم مینیجر اور حکیم وارثی سرکولیشن منیجر کو بھی قیضر باغ کو توالی لے گئے اور یکم اگست اتوار کی شام کو جیل بھیج دیا جہاں نو مہینے رہ کر واپسی ۔ جیل سے واپس آنے کے بعد میں نے قسطوں میں روداد قفس لکھنا شروع کی تو چند قسطوں کے بعد بھی ہر شہر سے یہ مطالبہ شروع ہوا کہ برہان پور کھنڈوہ مالے گاؤں ممبئی نظام آباد اور حیدرآباد کہیں ایک اور کہیں دو دن گزار کر واپس آیا۔ یہ وہ مقام تھے جہاں کی ایجنسیاں بہت بڑی تھیں اور ہر جگہ جیسی محبت ملی ہے وہ ان تکلیفوں سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں جو میں نے اٹھائی۔ اویس میاں کے ہاتھ سے لینے کے بعد میں نے ا سے دل بھر کر دیکھا دوسرے دن چھوٹے بیٹے ہارون میاں کو دیا کہ لو دیکھو یہ ہے وہ اخبار جس نے تمہارے باپ کو زمین سے آسمان پر پہنچایا۔ کافی دیر دیکھنے کے بعد معلوم کیا کہ ا ب کیا سوچ رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہزاروں کی مانگ میں صرف 500اخبار ملک میں جاسکے اور اس خبر کے بعد کہ ان کا رکھنا غیر قانونی ہے جسے اس نے یا دبا لیا یا جلا دیا۔اور اس کی کہانیاں رہ گئیں۔ اب یہ تو چھپنا جوئے شیر لانا ہے سوچتا ہوں کہ ان مضامین کو کتابی شکل میں چھپوادیا جائے۔ ہارون میاں مسکرائے اور کہا کہ اب آپ کا پریس ایسا ہے کہ اس اخبار سے بالکل ایسا نہیں اس سے اچھا جتنا کہیے چھاپ دیا جائے۔ اللہ کی شان ہے کہ یہ ہارون وہ ہیں کہ جب ان کی انہیں گود میں لے کر حکومتوں کی مرضی کے خلاف ۵۰ اخبار بکس میں لیے ہوئے جارہی تھیں تو اللہ نہ کرے یہ بھی ہوسکتا تھا کہ باپ پہلے ماں اور وہ خود جیل بھیج دئے جاتے۔ اور جب وہ ہر جمعہ کے دن اپنی امی اور گھر والوں کے ساتھ ملنے کے لیے جیل آتے تھے تو جیل کے قیدیوں اور افسروں کا کھلونا بن جاتے تھے۔ اب وہی ہارون ہیں جو یہ برداشت نہیں کرتے کہ ان کے باپ کی علالت اور علاج کے معاملہ ان کے تینوں بڑے بھائی فیصلہ کریں۔ وہ فیصلہ خود کرتے ہیں اور شریک تینوں بھائی کو کرتے ہیں۔ پہلا ہارٹ اٹیک 1990میں ہوا۔ اس وقت پیس میکر لگا دیا گیا اور ڈاکٹروں نے حکم دیا کہ ٹینشن کا سب سے زیادہ پرہیز اس کے بعد اب تک تین پیس میکر لگے۔ ٹانگ کی ہڈی کے تین آپریشن ہوئے۔ لاکھوں روپے ڈاکٹروں کی فیس لاکھوں روپے کے پیس میکر اور دوائیں ہزاروں روپے کا پرہیز اور پھیل ہزاروں روپے ہر قسم کے آرام پر قربان۔ اور اب اس خیال سے کہ میں اخبار میرے باپ کی زندگی کی کتاب کا سب سے سنہرا ورق ہے یہ بتائے بغیر کہ خرچ کتنا ہوگا فوراً یہ فیصلہ کہ آپ کہیں تو اپنے پریس میں من و عن بلکہ اس سے اچھا چھاپ دیں اور جتنا کہیں اتنا چھاپ دیں۔ یہ گفتگو ۳۰ ؍ اپریل صبح ۱۱ بجے کی ہے۔ اب اپنے قارئین پر اور احباب پر یہ فیصلہ چھوڑرہا ہوں کہ خصوصی نمبر کے تمام مضامین کتابی شکل میں چھاپے جائیں یا ضبط ہوئے وقت اخبار جیسا تھا بالکل ویسا ہی چھاپا جائے؟ اور کتاب کے مقابلہ میں اس کی قیمت بھی کم ہوگی۔خاص نمبر میں یہ اخبار ۳۰235۲۰۔۴ سائز کے ۷۲ صفحات کا ہے جو اس وقت تین ہفتوں کے اخبار پر مشتمل ہے۔ اور لکھنؤ کے ماہر کاتبوں نے اس کی کتابت کیش تھی۔ ملک کا قانون یہ ہے کہ اگر کوئی کتاب یا رسالہ حکومت ضبط کرلی تی ہے تو 30برس کے بعد وہ پابندی ختم ہوجاتی ہے۔ اب اگر کسی کے پاس اس زمانہ کا اخبار محفوظ ہو اور بالکل اچھی حالت میں ہو تو وہ مجھے فون سے ا طلاع کردیں میرے پاس جو یہ پرچہ آیا ہے اس کا ٹائٹل جس پر یونیورسٹی کی مسجد کا فوٹو ہے اور پہلو م یں جو باریک عبارت لکھی ہے وہ صاف نہیں ہے۔ اخبار کے ۲ صفحات میں بزرگوں کے پیغام ہیں جن میں (۱) ڈاکٹر ذاکر حسین نائب صدر جمہوریہ (۲) ڈاکٹر سید محمود صدر مسلم مجلس مشاورت (۳) بد ر الدین طیب جی ، مولانا عبدالماجد دریابادی، مرزا افضل بیگ اور مضامین حضرت جاوید فیضی، حکیم عبدالقوی دریابادی، بدر الدین طیب جی شیو پرشاد سینا رٹائرڈ، جج ہائی کورٹ، قاضی محمد عدیل عباسی، یونس قنوجی، مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی، گوپال متل، اختر بستوی، محمد اسحاق خاں ایڈوکیٹ، سلیمان اودھی، انوار علی خاں سوز، ریاض الدین احمد، شہزاد انصاری، عبیدالرحمن ایڈوکیٹ، مولانا ابوالحسن علی ندوی، واصف عثمانی، پروفیر شید احمد صدیقی،تیج بہادر سنہا، ایڈویکٹ، عثمان غنی، حیات اللہ انصاری، ڈاکٹر ستیہ وادی، غلام احمد فرقت کاکوروی، تخلص بھوپال کے ہیں۔