پرسنل لاء صرف مسلمانوں کا مسئلہ تھوڑی ہے؟ ! (دوسری قسط) ۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

06:27AM Thu 11 May, 2017
اس مضمون کی سابقہ قسط میں اس طرف اشارہ کیا گیا تھاکہ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں جدا جدانام اور شناخت کے ساتھ بسنے والے تقریباً 6,743 طبقات اور قبائل سے جڑے کروڑوں آدی واسی یکساں سول کوڈکے نفاذ کے مخالف ہیں۔ان کا یہ استدلال ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے " خانہ بدوش قبائلی برادریوں "کی تہذیبی وراثت اور شناخت داؤ پر لگ جائے گی۔اسی طرح ملک کی آبادی کے ایک بہت بڑے حصے سے تعلق رکھنے والے دیگر پسماندہ طبقات Other Backward Class(او بی سی) کا بھی یہی نظریہ یہی ہے کہ اس سے ملک میں انتشار پھیلے گا ۔ بدھسٹ اور دلت بھی اس کے خلاف ہیں: بات خانہ بدوش قبائلیوں پراور او بی سی پر ہی ختم نہیں ہوتی، بلکہ مختلف پرسنل لاء ختم کرکے یکساں سول کوڈرائج کرنے کی حکومت کی کوشش کے خلاف بدھسٹ اور دلت بھی کھڑے ہوگئے ہیں۔بدھسٹ انٹرنیشنل سینٹر کے نیشنل انچارج پروفیسر بابا ہاستے Prof. Baba Hasteکاخیال ہے کہ یونیفارم سول کوڈ کی شکل میں بدھسٹوں پر بڑا بھاری خطرہ منڈلارہا ہے۔اگرفی الواقع یہ اقدام ہوتا ہے تو پھر ملک کے تانے بانے کو ہی بکھیرنے والی بات ہوجائے گی۔ جبکہ بدھسٹ راہب پروفیسر بھانتے سامیاک رکھشت (Prof. Bhante Samyak Rakshit)کہتے ہیں کہ یکساں سول کوڈ کو لاگو کرنا صرف مسلم دھرم کے لئے خطرے کی بات نہیں ہے بلکہ یہ ملک کے تمام باشندوں کے لئے خطرہ ہے۔ کیونکہ اس سے ملک میں موجود تمام مذہبی طبقات کا تشخص داؤ پر لگ جائے گا۔پروفیسر بھانتے کا کہنا ہے کہ درحقیقت یکساں سول کوڈ کی شکل میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی جانب سے ملک کے تمام باشندوں پر' منو سمرتی' پر مبنی برہمن واد کا کاسٹ سسٹم یعنی 'ورن آشرم' لادنے کی سازش کی جارہی ہے۔ یہ دستور ی رہنما اصولوں کے منافی ہے: شیڈول کاسٹ، شیڈول ٹرائبس، او بی سی،لنگایت،اور بدھسٹوں کے گروپوں اور تنظیموں نے جہاں ایک طرف حکومت کے منشاء اور سوچ پر سوال اٹھایا ہے ، وہیں پر انہوں نے یونیفارم سول کوڈ ملک میں لاگو کرنے کے لئے سپریم کورٹ کی ازخود Suo Motuمداخلت اور دلچسپی سے بھی اختلاف کیا ہے۔کیونکہ یہ بالواسطہ طور پراقلیتوں، مذہبی گروپوں ،پسماندہ طبقات اور پسماندہ قبائل کے بنیادی دستوری حقوق چھین لینے کے مترادف ہے ۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی پہل کرناگویا صرف شہریوں کے بنیادی حقوق اوردستور کے رہنما اصولوں directive principles کے بیچ ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ' بنیادی حقوق' کوہی' بنیادی حقوق' سے متصادم کرنا ہے۔ ان گروپوں کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ بھی یونیفارم سول کوڈ کے خلاف دائر کردہ رٹ پٹیشن کے ذریعے ازخود ایک پارٹی بن گئے ہیں ، اس لئے دستورہند کی طرف سے دئے گئے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے ان کی طر ف سے ہر ممکنہ کوشش کی جائے گی ۔اس کے علاوہ عوامی سطح پر بھی اس ضمن میں بیداری لانے اور سازگار ماحول بنانے کی جد وجہد کی جائے گی۔

مل رہی ہے مجھے کچھ موسمِ گُل کی آہٹ یعنی کلیوں کے چٹکنے کی صدا آتی ہے

مختلف عائلی قوانین میں تضادات: جیساکہ مضمون کی سابقہ قسط میں کہا گیا کہ ہمارے ملک کے اندر شادی، طلاق، وراثت، گود لیناadoption ،جائیداد کی تقسیم، نان نفقہ وغیرہ کے سلسلے میں سرکاری طور پر جاری اوررائج مختلف عائلی قوانین کے علاوہ اسپیشل میریج ایکٹ کا ملک کے قبائلیوں پر اطلاق نہیں ہوتاہے ۔ ان کے اپنے قبائلی رسم و رواج اور ثقافتی روایات کو ہی وہ لوگ قانون مانتے ہیں۔لہٰذاان قبائلی باشندوں کے پاس ملکی قوانین کی نہ کوئی دستوری اہمیت ہوتی ہے اور نہ اعتبار۔ شمالی ہند کے بعض قبائلی علاقوں میں ملکی عائلی قوانین کو چھوڑیئے ، انڈین پینل کوڈ اورکریمنل پروسیجر کوڈ بھی لاگو نہیں کیے جاتے ۔اس کے باوجود اس طرح کے رویہ کے خلاف نہ میڈیا میں کوئی واویلا مچایا جاتاہے نہ عوامی جلسوں میں۔نہ اسمبلیوں میں آواز گونجتی ہے اور نہ پارلیمان میں۔بس مسلمان او ر ان کے پرسنل لاء کو نشانے پر رکھتے ہوئے آسمان سر پہ اٹھایا جاتا ہے۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ جن قوموں پر ان دستوری قوانین کا اطلاق ہونا چاہیے ، وہاں بھی علاقوں، ذاتوں، طبقات اور صوبوں کی بنیاد پر اختلافات اور تضادات پائے جاتے ہیں، بعض معاملات میں خصوصی استثناء کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔جبکہ پورے ملک میں سرکاری طور پر بھی اور فسطائی مشینری کی طرف سے بھی ہدف صرف مسلم پرسنل لا ء بورڈ کو ہی بنایا جاتا ہے ۔ خامیاں اور کوتاہیاں صرف اور صرف مسلم پرسنل لا ء کی ہی گنائی جاتی ہیں۔ بالخصوص کثرت ازواجpolygamyاور مردوں کو حاصل تین طلاق کے حق جیسے مسائل کو اس طرح اچھالا جارہا ہے،جیسے اس سے زیادہ برا اور گھناؤناکوئی قانون اس دھرتی پر موجود ہی نہیں ہے۔

کریہہ چہروں کو دعویٰ کہ ماہتاب ہیں ہم سیاہیوں کو بھی ہے ناز روشنی کی طرح

کثرت ازواج یا پولی گیمی: یونیفارم سول کوڈ لانے کے لئے چونکہ مسلم پرسنل لاء یا شریعت اسلامی پر ایک بڑا حملہ کثرت ازواج polygamyکی رعایت کو لے کر کیا جاتا ہے۔ اور اس کے مقابلے میں ہندوؤں پر جو کثرت ازواج کی پابندی ہے اس کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمانوں کو دی گئی اس رعایت سے غیر مسلموں اور خاص کر ہندوؤں کے ساتھ بڑی ناانصافی ہورہی ہے۔ اس رعایت کی وجہ سے مسلمانوں کی آبادی تیز رفتاری سے بڑھنے اور غیر مسلم اکثریتی آبادی آگے چل کر اقلیت میں بدل جانے کا خدشہ ظاہر کرنے کی مہم پوری شد و مد سے چلائی جاتی ہے۔ مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں صرف مسلمانوں کو ہی کثرت ازواج کی سہولت حاصل نہیں ہے ، بلکہpolygamy/bigamy polygyny/کی یہ سہولت یا روایت تو ہندوؤں، بدھسٹ، اورعیسائی دھرم کے ماننے والوں کے علاوہ دیگر غیر مسلم فرقوں کے لئے بھی کسی نہ کسی حد تک آج بھی موجود ہے۔ غیر مسلم اور کثرت ازواج: حالات کا اگر جائزہ لیں تویہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کثرت ازواج پر پابندی کا قانون موجود رہنے کے باوجود آج بھی کھلے عام ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا سلسلہ مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں میں پایاجاتاہے۔چونکہ باقاعدہ دوسری شادی رچانا ہندوؤں کے لئے قانوناً جرم ہوتا ہے اس لئے عام طور پر وہ لوگ بیوی کے بجائے رکھیلوں اور داشتاؤں سے اپنی ضرورت پوری کرلیتے ہیں، یا پھر خفیہ شادیاں رچا لیتے ہیں ۔ کچھ نامورغیر مسلم شخصیات نے مسلم پرسنل لا ء کی رعایت کا ناجائز فائدہ اٹھاکر صرف دوسری شادی کرنے کے لئے اپنا مذہب تبدیل کرکے مسلمان بن جانے کا ناٹک بھی بارہا رچایا ہے۔گوا کے ہندوؤں پر بھی یہ پابندی لاگو نہیں ہوتی ہے اور وہ گوا کے قانون کے مطابق ایک سے زیادہ شادیاں رچاسکتے ہیں۔اسی طرح نہ خانہ بدوش قبائلی اس قانون کومانتے ہیں اور نہ ہی دیگر قبائیلیوں پر اس کا اطلاق کیا جاتا ہے ۔ ہندواورکثرت ازواج پر پابندی: ہندو ؤں کے یہاں اور خاص طور پر راجہ مہاراجاؤں میں ایک سے زیادہ بیویا ں رکھنا تو عام بات تھی۔ خود ہندوؤں کے پیشوا رام کے والد دشرتھ کی قانونی طور پر کؤشلیا Kausalya، کئی کئےKaikeyiاور سُمتراSumitraنامی تین بیویاں موجودتھیں، اور ان کی مختلف دھارمک کہانیوں کے حوالے سے راجہ دشرتھ کی بیویوں کی تعداد350سے 60,000تک ہونے کی بات سامنے آتی ہے۔ہندوؤں میں کثرت ازواج کے اس سلسلہ پر قانونی پابندی اس وقت لگی جب اسپیشل میریج ایکٹ 1954بنا جس کے تحت تمام ہندوستانیوں کے لئے کثرت ازواج غیر قانونی قرار دیا گیاعلاوہ ازیں ہندوؤں کے لئے کثرت ازواج کو غیر قانونی قرار دینے والا The Hindu Marriage Act1955اور پھر اس ایک سال بعدیعنی 1956میں ہندو کوڈ بل The Hindu Code Bill منظور کیا گیاجس میں ہندوؤں کے عائلی معاملات سے متعلق چارمختلف قوانین Hindu Marriage Act,،Succession Act,، Minority and Guardianship ActاورAdoptions and Maintenance Actشامل ہیں اور اس کوڈ بل کا اطلاق صرف ہندوؤں پر ہوتا ہے۔ لیکن تضاد دیکھئے کہ یہ جو اسپیشل میریج ایکٹ1954 کا دائرۂ عمل تھاکہ اس کا اطلاق ہرہندوستانی پر ہونا ہے ،چاہے وہ کسی بھی مذہب یا فرقے سے کیوں نہ تعلق رکھتاہو، اس کا اطلاق ریاست گوا میں نہیں ہوتااور جموں وکشمیر پر بھی نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ناگا قبائلیوںNaga tribes، گونڈGond، بائیگاBaiga، توڈاToda ، لوشائیLushai ، جویوآنگJuang اور کوندھKondh قبائل میں بھیpolygyny یعنی ایک سے زیادہ بیویاں رکھناعام بات ہے اور وہاں بھی یہ پابندی والا قانون لاگو نہیں ہوتا ہے۔تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ بعض قبائلیوں میں ایک سے زیادہ بیویاں ہی نہیں بلکہ ایک خاتون کابیک وقت ایک سے زیادہ شوہر رکھنا polyandri بھی عام ہے۔ اور اسے غیر اخلاقی یا شرمناک کہنے والا کوئی نہیں ہے۔ ریاست گوا جہاں یکساں سول کوڈ لاگو ہے!: ہندوستان میں ملک گیر پیمانے پریونیفارم سول کوڈUCCلاگو کرنے کی مہم چلانے والے جو چیمپئن ہیں وہ ریاست گوا کو یونیفارم سول کوڈ والی ہندوستان کی پہلی اور واحد ریاست قرار دیتے ہیں۔کیونکہ وہاں پر شہریوں کے لئے عائلی قوانین کے طور The Goa Family Lawرائج ہے ۔ جو کہ دراصل پرتگالی دورحکومت میں وضع کیے گئے Portuguese Civil Codeپر مبنی قوانین کا مجموعہ ہے۔جسے ہندوستان کے ساتھ گوا کے الحاق کے بعد بھی جاری رکھا گیا ہے۔ریاست گوا میں رائج اس فیملی لاء کا تجزیہ کریں تو اسے' یونیفارم سول کوڈ 'کا ماڈل قرار دینے کی کوشش مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے ۔ کیونکہ اسی قانون کے تحت اسی ریاست میں مختلف فرقوں اور گروہوں کے لئے امتیازی قوانین اور رعایتیں بھی فراہم کی گئی ہیں۔ جیسے اس ماڈل' یونیفارم سول کوڈ 'میں اسلامی شریعت میں گنجائش رہتے ہوئے بھی یک مسلمان کو ایک سے زائد شادی کرنے کی اجازت حاصل نہیں ہے۔جبکہ ہندو کوڈبل اور اسپیشل میریج ایکٹ میں اجازت نہ رہنے کے باوجودگوا کے اس قانون میں ہندو ؤں کے لئے چند شرائط کے ساتھ پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادیbigamyکی اجازت دی گئی ہے، جس میں ایک شرط یہ ہے کہ اگر شادی کے بعد25سال تک بیوی' بچے 'کو جنم نہ دے اور30سال کے عرصے تک' بیٹے 'کو جنم نہ دے توگوا کا ہندو شوہر دوسری شادی کرسکتا ہے۔

گوا فیملی لاء اور اس کے تضادات: سوال یہ ہے کہ کیا ریاست گوا ہندوستان کا حصہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہندوستانی دستوری قانون کے مطابق ممنوع ہونے کے باوجود گوا میں ہندوؤں کے لئے یہ رعایت رکھی گئی ہے ؟ اور پھر'مرد بچہ' جنم نہ ہونے کی سزاکے طور پر مرد کو دوسری شادی کی قانونی اجازت دینا 'خواتین کے حقوق' کے زاویے سے کہاں تک انصاف پر مبنی ہے؟ گوا کے اس عائلی قانون کے مطابق جوشادی رجسٹریشن کے ذریعے سول میریج کے طور پرانجام دی جائے گی وہ قانونی شادی مانی جائے گی ۔جبکہ رومن کیتھولک چرچ کو سول رجسٹرار سے اجازت لے کرعیسائیوں کی شادی اپنے طور پرچرچ میں انجام دینے کی چھوٹ دی گئی ہے، اور چرچ میں انجام دی دگئی ایسی شادیوں پر گوا کے سول قانون کے تحت موجود طلاق کے قوانین کا اطلاق بھی نہیں ہوگا ۔اس قانون کی دفعہ 25تحت سکھوں اور بدھسٹوں کو ہندو قرار دیا گیا ہے ، جس کی مخالفت یہ دونوں فرقے کررہے ہیں، مگر اسی قانون کے تحت سکھوں کو ان کی مذہبی رسم کے مطابق اپنے پاس خنجر'کِرپان'رکھنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔اسی طرح ہندوؤں کے لئے طلاق دینے کی اجازت صرف بیوی کی طرف سے بے وفائی کی صور ت میں دی گئی ہے، جبکہ مرد کے لئے بے وفائی کی ایسی کوئی سزا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کو گود لینے اور ناجائز اولاد کے مسائل میں بھی اس قانون میں بہت سے تضادات اور ناہمواریاں موجود ہیں۔

(یونیفارم سول کوڈکی پہلی کوشش ۔۔۔۔کس نے مخالفت کی !۔۔۔۔۔۔ اگلی قسط ملاحظہ فرمائیں)