سینٹ جانسن اسکول ۔ لال اسکول ۔۔۔ : از : فرزانہ اعجاز

Bhatkallys

Published in - Other

08:01PM Sun 20 Aug, 2017

زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جب ’اسکول دو طرح کے ہوا کرتے تھے ، ایک تو سرکاری یا غیر سرکاری اسکول یا دوسری طرح کے اسکول جو انگریزی میڈیم اسکول یا ’مشن اسکول ‘ کہلاتے تھے ۔جہاں سینیئر کیمرج اور جویئر کیمرج کے امتحان ہوا کرتے تھے ، جنکی کاپیاں پانی کے جہازوں میں لد لدا کر لندن جاتی تھیں اور مہینوں بعد وہاں سے ’ ، رزلٹ ‘ آتا تھا ،سنتے ہیں کہ کبھی کاپیاں کسی  سمندر میں ڈوب جاتی یا مرطوب ہوا کی وجہ سے کاپیوں پر لکھی تحریر مٹ جاتی تھی ،پتہ نہیں سنا تھا ۔ ایسے اسکول جنوری میں اپنا نیا تعلیمی سال شروع کرتے تھے اور دسمبر میں انکا سالانہ امتحان ہوتا تھا ، یہ بہت ’ مہنگے اسکول ‘ کہے جاتے تھے اور امیروں کی اولادیں یا راجے مہاراجوں کی اولادیں ہی وہاں پڑھ سکتی تھیں ،ان اسکولوں کا الگ الگ یونی فارم ہوتا تھا ۔ یونی فارم تو اب زیادہ تر اسکولوں کا ہوتا ہے ، لیکن ’ لال اسکول ‘ کی بات ہی اور تھی ، آج جب ہم اپنے ایک جاننے والے کو ’ مفت مشورہ ‘ دے رہے تھے کہ ’اگر بچی کو انگریزی اسکول میں پڑھانا ہے تو ’لال اسکول ‘ لے جاؤ‘۔ تو یہ سن کر بہت دکھ ہوا کہ اب ہمارا لال اسکول نہیں رہا ہے َ۔لال اسکول سے ہماری بہت سی یادیں وابستہ ہیں ، اور ہم ہی کیا ، پرانے لکھنؤ اور خاص طور سے ’ وکٹوریہ اسٹریٹ ‘ پر رہنے اور ادھر سے گزرنے والے لوگوں کو بھی لال اسکول یاد ہوگا اور یاد رہے گا ،

لکھنؤ شہر کے پرانے حصے میں بہت سے اسکول اور کالج پہلے بھی تھے ، اب بھی ہیں ،لیکن ایک بھی مشن اسکول نہیں تھا ، ’رفاہ عام کلب ‘ کے نزدیک ’ پلے وے ‘ نام کا ایک’انگریزی ‘ اسکول ضرور  تھا ۔کرسچن کالج اور بلرام پور اسپتال کے پاس ’ سینٹینیل اسکول ‘ بھی تھا ،

بچپن میں سنا کہ ’ وکٹوریہ اسٹریٹ پر ایک انگریزی اسکول کھل رہا ہے ، ایک ’ گوری ‘ صاحبہ‘ کہ جنکا نام ’ راجکماری ‘ تھا اور شکل و صورت میں ’ ملکہ وکٹوریہ ‘ سے مشابہ تھیں ، ساری پہنتی تھیں ، ایسا لگتا تھا کہ ’کسی انگریزن کو زبر دستی ساری لپیٹ دی گئ ہو ِ ‘پتہ نہیں کہ وہ ’اینگلو انڈین‘ تھیں یا اصلی انگریز تھیں ،یعنی ’بلیو بلڈ یا رائل بلڈ تھا انکا ،[ جیسا کہ اکثر انگریز جو ولایت سے انڈیا آتے تھے ، دعوی۱ کرتے تھے ] جو بھی تھیں کچھ امیر گھروں کی لڑکیوں کو انگریزی زبان پڑھانے اور انگریزی آداب سکھانے جا یا کرتی تھیں ِاسی سلسلے میں ہم نے انکو ’ کاکوری ہاؤس ‘ میں بھی دیکھا تھا  ، بہر حال ، راجکماری صاحبہ کی سربراہی میں ، کچھ  اچھے مسلمان گھرانوں کی  اعلا تعلیم یافتہ لڑکیوں اور دو اینگلو انڈین لڑکیوں نے پرانے لکھنؤ کے حصے وکٹوریہ اسٹریٹ ‘ پر ایک بہترین انگریزی میڈیم اسکول کھولنے کا بیڑا اٹھایا ہے ، ایک ایسا انگریزی میڈیم سستا اسکول کہ جس میں لوگ اپنے بچوں کو با آسانی پڑھا سکیں اور اچھی تعلیم دلا سکیں ، پرانے شہر کے معززین اورامرأ کی ایک کمیٹی بنائ گئ تھی جو اسکول کی ’ مینیجینگ کمیٹی ‘ تھی ، شہر کے اس حصے مین اسکول کھولنے کا فائدہ ملیح آباد ، کاکوری سے لیکر ’گولہ گنج ، وزیر گنج تک اور امین آباد سے لیکر ٹھاکر گنج تک رہنے والے   تمام متوسط طبقے کو ہونے والا تھا جو اپنے آپ میں ایک بہت بڑا کام تھا ، ہمارے ابو اور چچا اور کئ جاننے والے کمیٹی میں شامل تھے ، کہیں سے کوئ از قسم مخالفت نہیں تھی ، کوئ احمق ہی ہوتا جو اتنے عظیم کام کی مخالفت کرتا ،پھر ایک روز اسکو ل کھل گیا ، ’پاٹے نالے ‘ کا جو راستہ ’ سیڑھیوں ‘ کے ذریعے وکٹوریہ اسٹریٹ پر آتا ہے ، وہاں پر ایک عمارت میں  اسکول کھلا ، نام کا بڑا سابورڈ سڑک کے فٹ پاتھ پر تھا ، لکھا تھا ’ سینٹ جانس انگلش میڈیم اسکول ‘۔ اسکول کا یونی فارم تھا ، عنابی نیکر اور عنابی ٹائ اور سفید قمیض ، سفید موزے اور کالا جوتا ، لڑکیاں سفید بلاؤز اور عنابی اسکرٹ ، عنابی ٹائ اور سفید موزے کالے جوتے پہنتی تھیں ، بہت باقاعدہ انگریزی اسکول تھا ، مس راجکماری اور مس میری اور مس ماری انگریزی ہی بولتی تھیں ، سو بچے بھی کوشش کرتے تھے کہ انگریزی بولیں ،آج بھی یاد آتا ہے جب ہمارا چھوٹا سا بھیا شائق ’لال اسکول ‘ میں نیا نیا گیا تھا ، اور برسات کے زمانے میں ہمارے پرانے گھر کے چھججے پر ’گھانس ‘ اگ آئ تھی ، تو بھیا نے امی سے کہا تھا ۔۔۔۔’امی ۔۔۔ ’ہڈ کے اوپر پلانٹ نکل آۓ ہیں ‘۔۔۔۔۔ باقی ٹیچرز بھی اعلا تعلیم یافتہ تھیں اور انگریزی پر قدرت رکھتی تھیں ،ہمیں بہت خو شی ہوئ جب ہمارے چھوٹے بھائ شائق رضا انصاری اور چچیرے بھائ انوار ہاشم کا اس اسکول میں نام لکھا ، اگرچہ انگریزی اسکول کی فیس دینے کے پیسے نہ ’ ہمارے ابو کے پاس تھے نہ ہاشم چچا کے پاس ‘اسکول سے یہ تجویز آئ کہ ’اگر دونوں بچے کسی ایک کی گارجین شپ میں لکھے جایئں تو دونوں کی فیس آدھی آدھی ہو سکتی ہے ‘ ،ایسا ہی ہوا، اور اس تجویز سے بہت سے لوگوں کو آسانی ہو گئ اور انکے بچے سچ مچ کی انگریزی تعلیم حاصل کرنے لگے ، سواۓ اس کے کہ اسکول کی عمارت چھوٹی تھی ،تعلیمی معیار بہت بلند تھا ، وہی انگریزی اسکولوں والا سخت ڈسپلن بھی تھا ،

اپنے عنابی یونی فارم کی وجہ سےسینٹ جانس اسکول  عرف عام میں ’ لال اسکول ‘ کہلانے لگا ، آج بھی لال اسکول کہا جاتا ہے ، لال اسکول کے قیام میں جن ٹیچروں کا ’ لہو ‘ شامل تھا ان میں ، مس ساجدہ، مس صفیہ ، مس عائشہ اور مس انور تھیں ، بعد میں مس بدر بھی شامل ہو گیئں جو پہلے تعلیم گاہ نسواں میں پڑھاتی تھیں اور مشہور خواجگان کے خاندان کی ’ بٹیا ‘ تھیں اور سنجیدہ شاعرہ عزیز بانو داراب ’وفا ‘ کی بہن تھیں ،ساتھ ہی خواجہ عزیز الدین ’ عزیز لکھنوی ‘ کی   پوتی بھی تھیں ۔ بدر آپا کی حویلی چوک کے بازار میں پرانی سبزی منڈی کی ایک گلی میں تھی جوشہر کی  دوسری شاندار عمارتوں کی طرح ابھی فروخت ہو گئ ، بانو آپا تو خیر سخت پردہ کرتی تھیں   لیکن  مس بدراور انکی بہن اور گھر کی دوسری خواتین گھر سے نکلتے ہوۓ  اور چوک کا بازار عبور کرتے ہوۓ آدھا برقعہ‘ اوڑھ لیتی تھیں ،[چوک کی گلیوں میں رہنے والے شرفأ کے گھروں کا یہی دستور تھا ]  مس بدر ، اپنے ریٹایرمنٹ تک لال اسکول میں پڑھاتی اور بہت مقبول ٹیچر رہیں ، مس صفیہ اور مس عائشہ ، آپس میں خالہ بھانجی تھیں اور گولہ گنج میں ’بھیروں  جی کے مندر کے پاس انکا گھر تھا ، انکے پڑوسی مشہور کتھک استاد ’ لچھو مہاراج اور برجو مہاراج تھے ۔کہتے ہیں کہ انکے گھر میں مندر کا ایک دروازہ بھی کھلتا تھا ، ہم نے ’ ماموں بھانجے کی محبت ‘ کے قصے تو محض سنے تھے ، لیکن ’خالہ بھانجی کی محبت ‘ اپنی آنکھوں سے دیکھی ۔ ساتھ ساتھ رہتی تھیں ، یہ بتانا مشکل تھا کہ ’ کون خالہ ہیں کون بھانجی ؟ بہت بعد میں سمجھ میں آیا کہ صفیہ باجی بھانجی ہیں اور عایشہ باجی خالہ۔ ‘تعلیم گاہ کی پڑھی تھیں ، بہت محنت کی زندگی گزاری ، تمام عمر علم بانٹا کیں اور اپنے خاندان والوں کا سہارا بنی رہیں ، صفیہ باجی کے کئ بھای بہن تھے اور صفیہ باجی ’ ماں باپ ‘ بن کر سب کی پرورش کرتی رہیں ، لمبے عرصے تک ’اصغر علی محمد علی عطر والوں کی کوٹھی ’ حنا بلڈنگ ‘ میں لڑکیوں کو ٹیوشن پڑھاتی رہیں ، خالہ بھانجی دونوں بہت ہمت والی تھیں ، ’دھان پان سی ‘عائشہ باجی کے ساتھ ہم نے حج کی سعادت بھی حاصل کی جو اپنی سگی بڑی بہن ، ہماری محترم  استانی ہاجرہ آپا کے ساتھ حج کو گئ تھیں ۔ مس انور جو بہت لمبے عرصے تک لال اسکول کی پرنسپل رہیں ،سنجیدہ اور خاموش سی ،اپنے گھریلو مسائل کو سلجھاتی ہوئ ایک بیٹی ۔وہ بھی تعلیم گاہ سے پڑھی تھیں ، شیعہ کالج نخاس کے پاس ایک گلی’گلی شاہ چھڑا ‘جو ’ چھاچھڑے والی گلی ‘ کہلاتی ہے  میں انکا گھر تھا ،بہت سخت گیر پرنسپل تھیں ، جیسا کہ ایک اسکول کی پرنسپل کو ہونا چاہیۓ، تب ہی اسکول میں ڈسپلن رہتا ہے ، اسکول کیا ’ کسی بھی ادارے کی بہتری کے لۓ لازم ہے کہ ’اسکا سربراہ ’مضبوط کردار کا ہو ‘۔ مس ساجدہ تھیں ، جو فرنگی محل کی ’ بٹیا ‘ تھیں ، مولانا عبد الحئ فرنگی محلی کے نواسے کی بیٹی، اپنے زمانے کے اپنے خاندان کے امیر گھر کی مجبور بیٹی ۔فرنگی محل کی پہلی لڑکی جو تعلیمگاہ نسواں سے پڑھ کر  گلگلا گیٹ اسکول گئ تھیں ، بی اے پارٹ ون کیا تھا لیکن دوسرے سال امتحان کی فیس کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے امتحان نہ دے سکی تھیں ، ہم نے انہیں ہمیشہ نا مساعد حالات ’سے مردانہ وار لڑتے ‘ ہی دیکھا ، صبح اسکول میں پڑھاتیں اور دوپہر میں گھسیاری منڈی کے ایک گھر میں لڑکیوں کو پڑھانے جاتی تھیں ، آندھی آۓ یا طوفان ، ’ ہر طرح کے طوفانوں میں گھری ایک بیٹی ‘ پیدل چل کر مڈیکل کالج آتی اور بس سے گھسیاری منڈی جاتی، جوان تھیں ِ خوبصورت تھیں لیکن اپنے وجود کو بردباری کی ایک موٹی چادر میں ’ دفنا چکی تھیں ، کسی کی مجال نہ ہوتی کہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی سکے ۔ ایک سڑک حادثے میں ٹانگ ٹوٹ گئ پھر تھی ڈنڈا ٹیک کر اسکول آتی جاتی رہیں ، کیا کرتیں ِ گھر والوں کا پیٹ بھی تو بھرنا تھا اور بھرم بھی قائم رکھنا تھا ، ایماندار اتنی کہ خاندان کے متمول لوگ جو لکھنؤ کے باہر رہتے ، انکے ذریعے  ذکوۃ  بٹواتے ِسارا گھر بھوکا بیٹھا رہتا لیکن مس ساجدہ ان پیسوں میں سے مستعار بھی نہ لیتیں ، امانت میں خیانت کر کے پیٹ بھرنے سے بہتر سمجھتیں کہ خالی پیٹ سو جایئں ، ہم سمجھتے ہیں کہ جس خاندان میں ایسی بیٹیاں ہوں وہ خاندان جتنا بھی مٹ جاۓ ِ ’جگمگاتے نقش قدم ‘ چھوڑ جاتا ہے۔‘

مس میری ، اور مس ماری  اسکرٹ بلاؤز اور سینڈل یا جوتا پہنے ، مڈیکل کالج کے پاس بس سے اترتیں اور اپنی اپنی ’ چھتریاں ‘ کھول کر لگاتیں اور وکٹوریہ اسٹریٹ پر چلتی لال اسکول جاتیں ِ، وہ اکیلی لیڈیز تھیں جو وکٹوریہ اسٹریٹ پر اسکرٹ پہنے ’ کھٹ کھٹ چلتی نظر آتی تھیں ۔ برسوں یہی سلسلہ جاری رہا ، یہی راستے ، یہی استانیاں اور پرانے لکھنؤ کے ہزاروں بچے جو اس سستے انگریزی اسکول میں علم حاصل کرتے رہے ، اسکول چلتا رہا ، استانیاں بڑھتی رہیں لیکن یہ ’مس صاحبایئں ‘موجود رہیں ، تب تک جب تک انکی ہمت اور قوت ارادی مضبوط رہی ، عجیب سی بات ہے کہ دوسروں کے لاکھوں بچوں کی زندگی سنوارنے والی ان استانیوں کی شادیاں ہی نہیں ہویئں ،کاش، انکی بھی نارمل زندگیاں ہوتیں ، گھر ہوتا ، بچے ہوتے اور ان بچوں کو بھی اپنی تربیت کے سہارے وہ کامیاب انسان بنا سکتیں ۔

ایک زمانہ آیا کہ لال اسکول ’پرایویٹ طور ‘ پر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے دسویں کلاس کے امتحان کا ٹیوشن بھی کرانے لگا جیسے کبھی ’گاندھی اسکول ‘ کراتا تھا ، اس طرح سیکڑوں لڑکیوں نے ’ ہائ اسکول ‘ پاس کر لیا اور آگے پڑھائ جاری رکھی،

’لال اسکول ‘ کے ’ فارغ التحصیل‘ بڑے بڑے عہدوں پر ہیں ، ڈاکٹر ، انجینیئرز، بزنس مین اور سرکاری افسر ، مشہور شاعر اور ادبأ، آج بھی ’ اکبری گیٹ کے چوراہے کے قریب ’ شکیل صاحب کی دوکان ‘ ہے جو لال اسکول سے پڑھے ہیں اور اکثر ’ مس ساجدہ ‘ کو یاد کرتے ہیں ،

استاد ایک ایسا سایہ دار درخت ہوتا ہے کہ جس کی دی ہوئ تعلیم کی  ٹھنڈی چھاؤں میں انسان زندگی کے تپتے ہوۓ صحرا سے بھاگ کر ہر وقت بناہ لے سکتا ہے ، تعلیم سے کسی کو آراستہ کرنا ایک ’ صدقۂ جاریہ ‘ ہے ، ویسے ہی جیسے کوئ کنواں کھدوا دے یا سایہ دار درخت لگوادے ، ایک مسلسل نیکی

آج لال اسکول ختم بیشک ہو گیا لیکن اسکا پھیلایا  ہوا  تعلیم کا نور ہمیشہ موجود رہے گا ، ہمیشہ  ۔ہمیشہ

ختم شد

farzanaejaz@hotmail.com