تجربات ومشاہدت (۱۷)۔۔۔ ڈاکٹر بدر الحسن القاسمی۔ کویت

Bhatkallys

Published in - Other

03:05PM Tue 20 Jul, 2021

 تلخ وشیریں:۔ دار العلوم سے عربی کا سہ ماہی مجلہ ’’دعوة الحق‘‘ نکلتا تھا، جس کے ایڈیٹراستاد محترم مولانا وحید الزماں کیرانوی صاحبؒ تھے، دوسرا مجلہ اردوکا ماہنامہ ’’دار العلوم‘‘ تھا، جس کے ایڈیٹر نامور صاحب قلم سید ازھر شاہ قیصرؒ تھے، بچپنے میں اردو مضمون نگاری کاشوق ہوا تو ازھر شاہ قیصر صاحبؒ کو’’شاہراہ اعتدال‘‘کے عنوان سے عورتوں کے پردے سے متعلق ایک مضمون لکھ کر دے آیا، وہ بڑے اچھے ادیب اور ممتاز صحافی تھے، لیکن خود لکھنے کا سلسلہ بڑی حدتک موقوف کر چکے تھے،اداریے مولانا ظفیر الدین مفتاحی صاحبؒ لکھا کرتے تھے، شاہ صاحب صحافت کاعہد زریں دیکھ چکے تھے، چھوٹوں کو حوصلہ افزائی کے ذریعہ بڑا بنانے کا فن جانتے تھے، مجلس میں باغ وبہار رہاکرتی تھی، ان کی ذہانت مثالی تھی اور حافظہ بھی غضب کا تھا، ہزاروں افراد کے پتے اور ٹیلیفون نمبر ان کے ذہن میں محفوظ رہتے تھے اور بغیر کسی ڈائری اور نوٹ بک کی مدد کے لوگوں سے رابطے قائم رکھتے تھے، انہوں نے پہلے مضمون پر اپنا ادارتی نوٹ لکھا، جس کا حاصل کچھ اس طرح یاد پڑتا ہے: ’’مضمون نگار دارالعلوم کے طالب علم ہیں، عمر 16 سال سے زیادہ نہیں ہوگی، عربی کی متوسطات زیر درس ہیں، انہوں نے یہ مضمون لکھاہے، اگر سلسلہ جاری رکھا تو آئندہ کے بارے میں اچھی توقع قائم ہوتی ہے‘‘ ان کا مقصد میری حوصلہ افزائی تھی، نصف صدی سے پہلے کی عبارت میں نے اندازہ سے لکھدی ہے، تقدیم وتاخیر اور الفاظ مین تبدیلی ممکن ہے. ان کی حوصلہ افزائی کا اثر یہ ہواکہ میں نے دو تین مضامین اس مضمون کی دوسری قسط، پھر شیخ عبد الفتاح ابو غدہؒ کے مضمون’’قیمة الزمن‘‘( وقت کی قیمت)كی دو قسطیں لکھیں، اس وقت تک کتاب کی شکل میں غالباً شائع نہیں ہوئی تھی، جامعة الامام كے مجلہ کلیة الشریعہ سے میں نے ترجمہ کیلئے لیا تھا، اس کے علاوہ ایک مضمون ’’جن کی حقیقت‘‘ پر اور غالباً ایک شیخ محی الدین ابن عربی ؒکی عبارت سے قادیانیوں کے غلط استدلال کی تردید میں، پھر رسالہ دار العلوم میں شاید ہی کوئی مضمون لکھنے کا اتفاق ہوا ہو، البتہ ازھر شاہ قیصر صاحبؒ کے آفس یا رسالہ دار العلوم کے دفتر میں نشست وبرخاست کا سلسہ ہمیشہ برقرار رہا، جس میں کبھی مولانا محمد اسلم قاسمی صاحبؒ، قاری عبد اللہ سلیم صاحب اور عبد اللہ جاوید صاحب وغیرہ بھی آجاتے تھے اور پچھلوں کے واقعات مزاحیہ قصوں اورادبی لطیفوں سے مجلس زعفران زار رہتی تھی۔ شاہ صاحب عمر میں بڑے تھے، لیکن بے تکلفی میں اپنے چھوٹوں کے ساتھ ایسا معاملہ رکھتے کہ کسی کو محسوس ہی نہیں ہونے دیتے تھے، اردو کے منتخب اشعار اور موقع کی مناسبت سے لطیفے چٹکلے اور ادبی شہ پارے شعراء وادباء کے قصے ان کی نوک زبان پرتھے، جن کا برمحل استعمال ہی کسی ادیب کا کمال ہوتا ہے، اللہ تعالی غریق رحمت کرے، بڑی خوبیوں کے آدمی تھےاور علامہ کشمیری ؒکی یاد گار تو تھے ہی۔

’’دعوة الحق ‘‘میں میں نے صرف ایک مضمون لکھا اور اس زمانہ میں لکھاجب میں نےاپنا اختصاص بدل لیاتھا، میں فقہ، علم کلام اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے نظریاتی تصوف اور حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ كی كتابوں سے اپناتعلق جوڑ چکا تھا، تکمیل ادب کے بجائے اسی لئے میں نے دار الافتاء سے فراغت کو ترجیح دی، مضمون در اصل ایک کوشش تھی کہ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے علم کلام یا ان کے اپنے منفرد طرز استدلال کو نیا قالب کس طرح دیا جائے ؟ ’’الکون یشہد بوجود الالہ‘‘ کے عنوان سے مضمون شائع ہوا، اس کے بعدمدت گزرگئی اور میں فقہ و فتوی کی دنیا میں مگن کہ اچانک ایک دن استاذ محترم مولانا وحید الزماں کیرانوی صاحبؒ تشریف لائے، میں احاطۂ مسجد میں دارالافتاء کے قریب تھا، وہ مجھے ساتھ لےکر عیدگاہ کی طرف چلتے رہے اور گفتگو یہ فرما تے رہے کہ دار العلوم میں اجلاس صد سالہ کی تیاری شروع ہوگئی ہے، مجلس شوری نے ایک پندرہ روزہ عربی جریدہ نکالنے کا فیصلہ کیاہے اور تیاری کیلئے کہا ہے، میرے بارے میں اہتمام اور شوری کا جو موقف ہے وہ معلوم ہے، میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ رہیں، میں نے عرض کیا کہ حضرت میں توعربی لکھنے سے دلچسپی چھوڑ چکا ہوں، صبح و شام فقہ وفتوے کی کتابیں پڑھتارہتاہوں، میں آپ کے کس کام کا رہوں گا؟ فرمانے لگے کہ نہیں!آپ کام کرسکتے ہیں ، یہ ان کی حوصلہ افزائی کا انداز تھا یا ایک ماہر استاذ کا میرے مستقبل کے بارے میں اندازہ، مولاناکے اصرار پر اور یہ خیال کرکے کہ مولانا ساتھ ہوں گے تو مجھے فکر کرنے کی ضرورت ہی کیاہے؟ کام شروع ہوا، پہلا شمارہ ان کی ہدایت کے مطابق میں نے مرتب کیا اور اداریہ کی جگہ خالی چھوڑ دی، انہوں نے’’کلمةالداعی‘‘ كے عنوان سے چند سطریں لکھ کر دیں اور’’رأی الداعی‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر سکنڈ اداریہ میں نے لکھا، جریدہ کی پیشانی پر’’رئیس التحریر‘‘ اور ’’مدیر التحریر‘‘ کی حیثیت سے ہم دونوں کے نام آتے رہے، لیکن سرکاری کاغذات میں مولانا کی ہدایت کے مطابق ڈیکلریشن فارم پر بحیثیت ایڈیٹر صرف میرا نام لکھایا گیا۔

میرا کام مضامین لکھنا، مناسب خبریں منتخب کرنا ،مولانا محمد اسلام قاسمی صاحب شروع سے ساتھ رہے، خوشخط لکھنا اور فنی طور پر سیٹ کرنا ان کا کام تھا، ٹائپ کی سہولت ہمارے پاس نہیں تھی، سارا فنی کمال خطاط کا تھا اور اللہ تعالی نے یہ کمال مولانا اسلام قاسمی صاحب کو خوب دے رکھا ہے، دہلی میں ’’الکفاح‘‘ کی کتابت جیلانی فیض آبادی کرتے تھے اور دیوبند میں ’’الداعی‘‘ کی کتابت اور فنی اخراج کا کام مولانا اسلام صاحب کیا کرتے تھے، خط نسخ، رقعہ اور دوسری ساری قسموں پر ان کو مکمل عبور تھا، مجھے اپنا مضمون ان کی کتابت کے بعد ہی پڑھنے میں لطف آتا تھا، ریاض کانفرنس کیلئے اپنا مقالہ بھی ٹائپ کرائے بغیر میں نے قلم سے لکھی ہوئی تحریر میں بھیج دیا تھا اور وہ اسی طرح دیگر ابحاث کے ساتھ شائع بھی ہوا، چند ہی ماہ کے بعد مولانا سعید احمد اکبر آبادی ؒنے ماہنامہ’’برہان‘‘ کے اداریہ’’ نظرات‘‘ میں پندرہ روزہ ’’الداعی‘‘ کا بھر پور خیر مقدم کیا اور بھی بعض مریض ذہنیت کے لوگوں نے جعلی خطوط لکھے، مخالفانہ محاذ قائم کرنے کیلئے ریشہ دوانیاں کیں، لیکن مجھے مخالفت سے دوہرا فائدہ پہنچا، مجھے زبان آئی اوروں کی زبانیں بند ہوئیں:

و إذا أراد الله نشر فضيلة طويت، أتاح لها لسان حسود

و لو اشتعال الناس فيما جاورت ماكان يعرف طيب عرف العود

فلسطین کا المیہ:

پہلی عالمی کانفرنس جس میں مجھے اپنی زندگی کے آغاز میں شرکت کا موقع ملا ، وہ ریاض میں منعقد ہونے والی’’پہلی اسلامی جغرافیائی کانفرنس‘‘ تھی، جس كا انعقاد جامعة الامام محمد بن سعود الاسلامية کی طرف سے 1979ء میں عمل میں آیا تھا، ہندوستان سے میرے علاوہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر شفیع صاحب اور شمیم مدنی صاحب تھے، اس کانفرس میں میرا مقالہ: "قضیة فلسطين وأبعادها السياسية والجغرافية" كے عنوان سے تھا، جو آج بھی مسئلہ کی نوعیت کو سمجھنے کیلئے ایک مکمل اور مستند وثیقہ کی حیثیت رکھتا ہے، البتہ اس لحاظ سے مسئلہ اور المناک ہوگیا ہے کہ جو کل مل سکتا تھا، اب اس کا عشر عشیر بھی ممکن نہیں رہا، بڑی طاقتوں نےاسرائیل کا خنجر مسلمانوں کے سینے میں چبھویا اور ان کا مفاد اسی میں ہے کہ یہ ناسور ہمیشہ رستا رہے، وللہ الامر من قبل ومن بعد ۔

تقریبا چھ سال" الداعی" کی ایڈیٹری کے دوران سنجیدہ مضامین، دار العلوم کی خدمات کے مختلف پہلو، ابتکار کی روح کے ساتھ حدیث، تفسیر، فقہ کے علاوہ ردبدعت، قادیانیت، الحاد ودہریت کے خلاف الگ الگ عنوانات سے مضامین ، حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا فکری منہج، علامہ انور شاہؒ کی شخصیت کا امتیاز وغیرہ نہ جانے کتنی ہی چیزیں لکھنے کی توفیق ہوئی، جس کا ایک مختصر نمونہ الداعی کے اس شمارے میں دیکھا جاسکتا ہے جو اجلاس صد سالہ کے موقع پر شائع ہوا تھا، بعض دفعہ انتہائی جذباتی تحریریں بھی قلم سے نکلیں، جن میں حالات کا عکس ہے، پھر رخ افغانستان کے جہاد کی طرف ہو گیا اور کئی سال اعصاب پر وہی واقعات واحداث سوار رہے؛ یہاں تک کہ صبرا و شاتیلا کی خوں ریزی کے واقعات پیش آئے، خاک وخون کے کھیل کے اس تسلسل نے ایک طرح کی بے حسی پیداکردی اور اس طرح کے موضوعات پر لکھنا موقوف ہو گیا، عمر بھاء الأمیری کے الفاظ میں :۔

تبلد في الناس روح الكفاح و مالوا لكسب و عيش رتيب

(لوگوں میں محنت اور مقابلہ کی روح کمزور پڑگئی ہے اور سبھی کھانے کمانے اورروٹین کی زندگی گزارنے میں لگ گئے ہیں )

اسی زمانہ میں چند چھوٹے رسائل یا میری تحریروں کے مجموعے کسی نے دبئی پہنچادئے تو ماہنامہ ’’الاصلاح‘‘کے ایک تبصرہ نگار نے لکھاکہ: ’’اس نام کے مصنف یا مقالہ نگار کو ہم ذاتی طور پر نہیں جانتے، لیکن تحریر دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ لکھنے والا دینی جذبہ سے سرشار، ایمانی جوش سے بھرپور اور انتہائی تیز احساس کا انسان (مرھف الحس) ہے، موجودہ حالات سے متاثر ہونے کے نتیجہ میں اس طرح کی تحریریں اس کے قلم سے نکلی ہیں‘‘

پندرہویں صدی ہجری شروع ہوئی تو میں نے ایک آرٹیکل یعنی اپنے عربی جریدہ "الداعی" کااداریہ لکھا، عنوان تھا:"قرن جديد بين آلام و أحلام" اتفاق سے متحدہ عرب امارات کے اس وقت کے وزیر اوقاف احمد حسن البکر اس زمانہ میں دیوبند آئے اور اداریہ پڑھ کر بے حد متاثر ہوئے، ساتھ ہی انہوں نے حوصلہ بھی دلایا کہ حالات سے اس قدر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، آرٹیکل کا انداز کچھ اس طرح کا تھا :

’’اسلامی لہر ،اسلامی بیداری، اسلامی انقلاب کے بعد اسلامی لباس، اسلامی فیشن سے آگے بڑھ کر اب ’’اسلامی بم‘‘ کا نعرہ بھی بلند ہونے لگا ہے اور مجھے اندیشہ یہ ہے کہ یہ ’’اسلامی بم‘‘ بننے سے پہلے ہی پھٹ کر خود مسلمانوں کو ہی اپنی لپیٹ میں نہ لے لے، ضرورت ہر دن نئے نئے شعارات اختیار کرنے اورنت نئے نعرے بلند کرنے کی نہیں ہے، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے اور سنجیدہ کام کرنے کی ہے‘‘

ایک اداریہ کاعنوان تھا "المؤمن الحقيقي" اداریہ کیا تھا جو ہم پر گزر رہی تھی اس کا بے ساختہ اظہار تھا، نشانہ پر کون تھا، اس جستجو کی اب ضرورت نہیں رہی اور حقیقت میں اس طرح کی تحریریں وقتی نہیں ہوتیں، ہر ظالم اور ہر خائن اس کا نشانہ ہوتاہے، جس کسی کو اپنی مظلومیت کا احساس ہو اس کے قلم سے شعلے ہی نکل سکتے ہیں اور جس کے ہاتھوں میں دو انچ کےقلم کے علاوہ کچھ نہ ہو، اس کا سب سے بڑا ہتھیار قلم ہی ہوتا ہے، جو کبھی توپ کے دہانہ کی طرح اپنی نوک سے آگ کے گولے بھی برسانے لگتا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ عربی میں لکھی ہوئی تحریریں اس سیاق میں پڑھنے اور سمجھنے والے کہاں ہیں ؟ حقیقی مومن لوگوں کیلئے سعادت وسکینت کا پیغام ہوتا ہے، نہ کہ خوف و دہشت کی علامت اور مخلص استاذ کو اپنے شاگرد کی ترقی سے خوشی ہوتی ہے، نہ کہ اس سے حسد، وہ اسے آگے بڑھانے میں اپنی کامیابی محسوس کرتا ہے نہ کہ اسے اپنے راستہ سے ہٹانے میں، ارسطو کا یہ کہنا بجاتھا کہ:۔ "أحب الحق و أحب أفلاطون لكن الحق أحب إلي من أفلاطون" یہ صحیح نہیں ہوگا کہ ارسطو پر ناروا دباو ڈالا جائے کہ میرا مسلک صحیح ہو یا غلط تم میری تائید کرو. یہ اورا س طرح کی نہ جانے کتنی آتشیں تعبیریں قلم سے نکلیں؎ چوٹ لگی ہے دل پر تب تو آہ لبوں تک آئی ہے یوں ہی چھن سے بول اٹھنا یہ شیشے کا دستور نہیں

’’حدیث الروح‘‘ کے عنوان سے اداریوں کے ایک چھوٹے سے مجموعہ میں مکمل تصویر دیکھی جاسکتی ہے، ’’الکائن المفترس‘‘، ’’الطابور الخامس‘‘ وغیرہ عنوانات از خود قلم سے نہیں نکل سکتے تھے، ان کو سمجھنے اور لطف لینے کیلئے 1980ء سے پہلے کے حالات کا تصور کیجئے، یا اللہ تعالی صحت بحال کردے تو مولانا محمد اسلام قاسمی سے دریافت کیجئے۔ ’’فیض الخاطر‘‘ اور’’وحی القلم‘‘جیسا ادب حالات کی سنگینی ہی میں وجود میں آتا ہے، پرسکون ماحول اور عیش و راحت کے لمحات میں وجود میں نہیں آسکتا۔

نجیب محفوظ پر تنقید کا شاخسانہ:۔

یہ واقعہ بہت بعد کا ہے، میں کویت سے آکر حیدر آباد میں تعطیل کے ایام گزار رہا تھا کہ پروفیسر محسن عثمانی صاحب ملاقات کیلئے تشریف لائے اور انہوں نے ازراہ عنایت یہ فرمایا کہ میں نے ’’روایات نجیب محفوظ‘‘ پر ایک سمینار رکھاہے، جس میں مصر کے سفیر اور عربی زبان وادب سے دلچسپی رکھنے والے ملک کی کئی یونیور سیٹیوں کے پروفیسر صاحبان شرکت کرنے والے ہیں، میری خواہش ہے کہ تم بھی شریک ہو اور ایک مقالہ بھی لکھو ، میں نے معذرت کرنی چاہی کہ نہ میں ادیب، نہ ناولسٹ، شریک توہوجاؤں گا، لیکن کچھ لکھنے سے معذور سمجھئے! لیکن عثمانی صاحب کے مخلصانہ و ادیبانہ اصرار اور محبانہ دعوت پر میں نے وعدہ کر لیا اور چند صفحات کا ایک مقالہ بھی لکھ ڈالا، پروگرام شروع ہوا تو افتتاحی پروگرام میں بھی مجھے کچھ کہنے کیلئے کہا گیا، میں نے مصر کی تعریف کی اور علم وادب کی خدمت میں اس کے رول کا ذکر کیا اور عربی زبان کے بارے میں یہ شعر پڑھا:۔ لقد وجدت فيك بنت عدنان دارا ذكرتها بداوة الأعراب تو سفير صاحب کو بھی خوشی محسوس ہوئی، پھر وہ تو چلے گئے اور سمینار اپنی ترتیب کے مطابق چلتارہا، ایک نشست میں اپنا مقالہ بھی پیش کیا اور کامیابی کے ساتھ اختتام کو پہنچا، پروفیسر عثمانی صاحب اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں کی سلیقہ مندی اور خوش ذوقی کو لوگوں نے سراہا اور سفل کے وابستگان کی تعریف کی، میرے مختصر مقالہ کا عنوان تھا: "أدب نجيب محفوظ بين سقوط و ارتفاع" اس میں اس کے ادب اور خاص طور پر ناولوں کی تعریف کی گئی ہے کہ اس کے معاصروں توفیق الحکیم ، یوسف السباعی اور احسان عبد القدوس وغیرہ کی طرح اس کا شمار بڑے ناول نگاروں میں ہوتاہے اور نوبل انعام مل جانے کے بعد تو اس کی بڑائی پر عالمی سطح کی مہر لگ گئی ہے، تنقید نگاروں نے بھی اس کے بعض ناولوں کو سب پر ترجیح دی ہے اور اسے اپنے عہد کا عظیم ناول نگار مان لیا ہے، گو کہ نوبل انعام دینے میں صرف قابلیت ہی ہمیشہ پیش نظر نہیں ہوتی؛ بلکہ اصل تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ:

مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام ساقی نےکچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

* نجیب محفوظ کے ناولوں میں اخلاقی ودینی قدروں کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ * اس کے بیشتر ناول قاہرہ کی گلیوں کے نام پر ہیں، اخلاقی پستی اور طبقاتی نا ہمواریوں کا ذکر اس طرح کیا گیاہے، جس سے ایک عربی اور مسلم معاشرہ کی غلط تصویر سامنے آتی ہے * نجیب محفوظ کی ذہنی تشکیل میں مسیحی ادباء، شبلی شمیل اور موسی سلام جیسے لوگوں کا اثر رہاہے، اس لئے ان کی ذہنی ساخت لا دینی قسم کی معلوم ہوتی ہے * اس کے ناولوں میں بازاری یا سوقیانہ تعبیرات بکثرت استعمال ہوئی ہیں، جو نوجوانوں پر غلط اثر ڈالتی ہیں، اس لئے پڑھنے والوں کی نظر فنی اور ادبی خوبیوں کے ساتھ ان کی خطرناکیوں پر بھی رہنی چاہئے * نجیب محفوظ کے مشہور ناولوں کے نام یہ ہیں: القاهرة الجديدة، خان الخليلي، بداية و نهاية، اللص و الكلاب، بين القصرين، قصر الشوق، السكرية۔

ميں نے اپنی تنقید میں صرف یہ لکھا تھا کہ اس کے بعض ناول اور خاص طور پر"أولاد حارتنا" کے بارے میں بعض ناقدین کی رائے ہے کہ اس میں اللہ تعالی کا مذا ق اڑا یا گیا ہے؛ چنانچہ بعض مغربی ملکوں میں اسے ’’خدا کی موت‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا ہے، العیاذ با للہ، میں نے لکھا تھا کہ:۔ "إذاكان هذا صحيحا أنه أراد الاستهزاء بالله سبحانه فعلا "فلا هو نجيب" و لا يستحق أدبه أن يبقى محفوظا و إن كان هذا غير صحيح و لم يقصد الإساءة إلى الله سبحانه فمادام حيا يرزق فعليه أن يعلن ذالك صراحة". (یہ بات اگر صحیح ہے کہ انہوں نے رب کائنات کی ذات کو نشانہ بنایا ہے اور مذاق اڑایا ہے تو وہ نہ’’نجیب‘‘ ہیں اور نہ ان کا ادب اس قابل ہے کے وہ ’’محفوظ‘‘رکھا جائے اور اگر ان کا مقصد یہ نہیں تھا تو پھر وہ ابھی با حیات ہی، ان کو کھل کر اس کا اعلان کر دینا چاہئے کہ مجھ پر یہ الزام غلط ہے)

سمينار كے بعد میں تو کویت آگیا، ایک مصری واقف کار نے جو صحافت سے قریب ہے، مجھ سے مقالہ کی کاپی لی اور اسے اپنی فنکاری سے دانستہ اس طرح شائع کیا کہ قابل اعتراض ہوجائے اور فتنہ کا موضوع بن جائے؛ چنانچہ مصر میں نجیب محفوظ کے بعض ماننے والوں نے اس پر ناراضگی کا اظہارکیا اور غالباً شکایت ہندوستان میں سفارت خانہ تک بھی پہنچی، البتہ ڈاکٹر عبد الصبور شاھین کا بیان مناسب تھا، لیکن بعض بیانات میں نجیب محفوظ کی حمایت کی گئی تھی، میں نے حالات کے لحاظ سے خاموشی ہی میں عافیت سمجھی۔ رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت