عہدہ وزیر اعظم، کام عزت بچانا

از: حفیظ نعمانی
ہمارا یقین تو نہیں خیال ہے کہ اگر وزیر اعظم نریندر مودی حلف اٹھانے کے بعد تین سال تک صرف وزیر اعظم رہتے اور انہیں کسی صوبہ کے الیکشن میں نہ اترنا پڑتا تو وہ ا یسے نہ ہوتے جیسے آج نظر آرہے ہیں۔حلف برداری کے بعد تو وہ ۱۲۵ کروڑ انسانوں اور اتنے ہی جانوروں اور ملک کی زمین کے ا وپر بہنے والے ہر دریا اور کھڑے ہوئے ہر درخت اور پودے کے مائی باپ بن گئے اور سب کی زندگی، سب کی ترقی اور سب کی حفاظت کی ذ مہ داری انھوں نے اپنے ذمہ لے لی۔ پھر وہ نہ گنگا کو ماں کہتے نہ پارٹی کو دھرم کہتے اور نہ یہ کہتے کہ اترپردیش میرے ماں باپ ہیں اور مجھے اترپردیش نے گودلے لیا ہے۔
یہ ملک کی بدقسمتی تھی کہ وہ حلف لینے کے بعد ٹھیک سے سمجھ بھی نہ پائے تھے کہ اب ان کے اوپر کیا کیا ذمہ داریاں آگئیں؟ ہریانہ جیسی چھوٹی ریاست کا الیکشن آگیا اور انھوں نے ۲۰۱۴ء میں جس لب و لہجہ اور انداز میں لوک سبھا کا الیکشن لڑایا تھا اسی انداز میں ہریانہ کا الیکشن لڑایا اور جن ووٹروں نے چند مہینے پہلے مودی کے کہنے سے ووٹ دیا تھا انھوں نے پھر ان کے کہنے سے بی جے پی کو ووٹ دیدیا اور مودی کی پگڑی میں ایک ستارہ اور ٹانک دیا۔ پھر وہاں گورنمنٹ ٹھیک سے بن بھی نہ پائی تھی کہ مہاراشٹراسمبلی کا الیکشن آگیا اور وہاں بال ٹھاکرے کی ۴۰ برس کی محنت شیو سینا کی شکل میں سامنے کھڑی تھی جو مودی کے سامنے سرجھکانے کے لیے تیار نہیں ہوئی۔ اور مودی کو پرایوں کے ساتھ اپنوں سے بھی لوہا لینا پڑا اور بالکل ایسا ہی الیکشن لڑایا جیسا پورے ملک میں لڑایا تھا اور پوری تونہیں لیکن اپنے مطلب بھر کی کامیابی حاصل کرلی ۔
وزیر اعظم کے سامنے ۲۰۱۵ء آتے ہی دہلی کا الیکشن آگیا جہاں اروند کجریوال جیسے انا ہزارے کے چیلے سے مقابلہ تھا۔ مودی کے منہ کو خون لگا ہوا تھا۔ وہ فتح پر فتح کا پرچم لہراتے ہوئے آرہے تھے۔لیکن دہلی میں کجریوال نے ۲۰۱۴ء میں مودی کے اعلان ۱۵لاکھ روپے کا حساب مانگ لیا۔ کجریوال انکم ٹیکس کے ایک بڑے افسر تھے حساب لینا ان کا پیشہ تھا۔ انھوں نے دہلی والوں سے کہا کہ اپریل ۲۰۱۴ء میں مودی جی نے کہا تھا کہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں ہندوستان کا کالا دھن بھرا پڑا ہے۔ میں وزیر اعظم بن گیا تو صرف سودن کے اندر وہ روپیہ نکلوالوں گا اور ہر کسی کو ۱۵۔۱۵ لاکھ روپے مل جائیں گے۔ انکم ٹیکس افسر نے دہلی وا لوں سے کہا کہ وہ روپے لے لو۔ اور مودی جی سے کہو کہ وہ جو گیروا دھوتی پہنے با با بنے ہوئے رام دیو یادو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے اور جو کہتے تھے کہ کالا دھن آنے کے بعد ملک میں ڈھونڈھنے سے بھی غریب نہیں ملے گا اور روپیہ ڈالر کے برابر ہوجائے گا اسے بھی لاؤ تب ووٹ دیں گے ا ور پھر یہ جادو ایسا چلا کہ مودی جی کی ساری کمائی ہوئی عزت ہوا ہوگئی۔
وہ جو کسی کے مرنے کے بعد کسی نے کہا تھا کہ اپنے عزیز کے مرنے کا تو اتنا غم نہیں ہے جتنا اس کا غم ہے کہ موت نے گھر دیکھ لیا۔وہی مودی جی کے ساتھ ہوا کہ دہلی کی ہار کا تو انہیں اتنا غم کیا ہوتا کہ وہ آدھی حکومت ہے۔ لیکن اس کا غم ان کے دل میں بیٹھ گیا کہ شکست نے گھر دیکھ لیا اور ایسا دیکھا کہ پھر وہ ہر جگہ ذلیل ہوتے چلے گئے۔بہار، بنگال، کیرالہ اور تمل ناڈو کی ذلت آمیز ہار نے انہیں چڑچڑا بنادیا اور وہ بھول گئے کہ وزیر اعظم بن کر انہیں کیا کیا کرنا تھا؟ بس اتنا یاد رہا کہ جو عزت ۱۲ برس گجرات میں کمائی تھی اور ۲۰۱۴ء میں لوک سبھا کے لیے ۲۸۰ سیٹیں جیت کر جو اس میں چار چاند لگائے تھے وہ سب مٹی میں مل گئے اور ان کا کام صرف یہ رہ گیا کہ وہ اپوزیشن لیڈر کی طرح جگہ جگہ الیکشن لڑتے گھومیں اور برابر والے نہ ملیں تو راہل اور اکھلیش اور ہریش راوت سے برابر کی لڑائی لڑیں۔ وہ ان کی عزت سے کھیلیں اور لڑکے ان کی عزت اتاریں۔
ہم نہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی طرح ماہر معاشیات ہیں اور نہ اروند کجریوال کی طرح کالے اور سفید دھن کے پارکھ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ نوٹ بندی بھی مودی جی نے صرف اس لیے کہ تھی کہ ملائم سنگھ اور مایاوتی کے پاس جو خزانہ ہے وہ اسے سامنے رکھنے اور دکھانے پر مجبور ہوجائیں یا اسے جلا دیں اور جو وہ چاہتے تھے وہ سامنے ہے کہ اوما بھارتی سے بھی جب معلوم کیا گیا کہ نوٹ بندی کا کیا اثر ہے؟ تو جواب دیا کہ یہ ملائم سنگھ اور مایاوتی سے معلوم کیجیے کیوں کہ وہی پیسے کے بل پر الیکشن لڑتے تھے۔ ہمارے اوپر کیا اثر ہوتا؟ یعنی نوٹ بندی صرف ان دونوں کو فقیر بنا کر الیکشن میں ہرانا تھا۔
آج مودی جی کا یہ حال ہوگیا ہے کہ وہ یہ بھی بھول گئے کہ گود وہ لیتے ہیں جنھیں دینے والا اولاد نہیں دیتا۔ ہم نے کسی پلے پلائے کو نہیں دیکھا کہ وہ کسی ماں کی گود میں جا کر بیٹھ جائے کہ مجھے گود لے لو اور پھر سب سے کہے کہ مجھے کسی صوبہ نے یا شہر نے یا کسی وزیر اعظم نے گود لے لیا ہے۔
مودی جی خود بے ا ولاد ہیں یہ ان کا فرض ہے کہ وہ کسی کوگود لیں اور جب یہ فرض انہیںیاد تھا تو انھوں نے بنارس کے ایک گاؤں کو گود لیا بھی تھا اور ہر ایم پی سے کہا تھا کہ سب ایک ایک گاؤں کو گود لو اور انھوں نے لینا شروع بھی کردیا تھا مگر جب دیکھا کہ جس گاؤں کو مودی جی نے گود لیاہے وہاں سال بھر کے بعد گدھے لوٹ رہے ہیں تو دوسرے بھی کتنے لوٹنے کے لیے چھوڑ بھاگے۔ ہمیں ڈر ہے کہ اترپردیش گود میں زبردستی لگ کر بیٹھنے والے مودی کے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کرے جو انھوں نے گود لئے گاؤں کے ساتھ کیا ہے۔کہنے والے کہہ گئے ہیں:
ع ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہو ویسی سنو
موبائل نمبر:9984247500