بھٹکل حلقے میں کیا مسلم امیدوار کی جیت حقیقت بن سکتی ہے؟۔۔۔۔از:  ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

02:02PM Wed 15 Nov, 2017
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  haneefshabab@gmail.com کرناٹکا اسمبلی الیکشن کے دن جیسے جیسے قریب آتے جارہے ہیں، سیاسی گہماگہمی بھی اپنی رفتار پکڑنے لگی ہے۔ الیکشن کے موسم میں ایک پارٹی سے دوسری پارٹی کے کیمپ کی طرف ہجرت کرنے والے سیاسی پرندوں نے بھی اپنے پرتولنااور اڑانیں بھرنا شروع کردیا ہے۔گرم سیاسی توے پر اپنے مفادات کی روٹیاں سینکنے والوں نے بھی آٹاگوندھنے کی کارروائی کا آغاز کردیاہے۔ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں ایک زمانے سے نادرالمثال ملی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے علاقے کے مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے والے ہمارے قدیم مرکزی ادارے مجلس اصلاح و تنظیم میں سیاسی پینل کی سرگرمیاں اور ذمہ داریاں بڑھنے لگی ہیں۔اور اس کے متحرک اور فعال ہونے کے آثار بھی نظر آنے لگے ہیں۔ پھرایک بار ۔۔مسلم امیدوار: ایک طرف بھٹکل اسمبلی حلقے کے مسلم ووٹرس ہیں ۔ دوسری طرف سیاسی رہنمائی کی ذمہ داری نبھانے والا ان ووٹرس کا ایک قدیم متحدہ پلیٹ فارم مجلس اصلاح و تنظیم ہے۔ دونوں محاذوں پر اس وقت سب سے اہم ترین موضوع یہ ہے کہ کیا اس وقت ہمیں اپنا مسلم امیدوار انتخابی میدان میں اتارنا چاہیے؟ اس کی حمایت اور مخالفت میں دونوں محاذوں پر گروہ بندی ہورہی ہے۔ فی الحال اگراس کا بہت زیادہ اظہار نہیں بھی ہورہا ہے تو جاننے والے جانتے ہیں کہ مسلم امیدوار کھڑا نہ کرنے کی حمایت میں بڑی تیز زیریں لہریں undercurrentsمچل رہی ہیں۔جہاں تک مجلس اصلاح وتنظیم میں شروع ہونے والی ہلچل کا سوال ہے، اس کا لب لباب یہ ہے کہ یہاں"پھر ایک بار۔۔مسلم امیدوار"کے حق میں ہوا بنائی جارہی ہے۔جبکہ تنظیم سے باہر کانگریس پارٹی کے موجودہ ایم ایل اے کے حق میں بھی کچھ طاقتور لابی اپنا کام کر رہی ہے۔ایسے حالات میں عوام سوچ رہے ہیں کہ:

جانتے ہیں منزلوں کی سمت یہ جاتی نہیں

ایسی راہوں پر ہیں کیوں مجبور چلنے کے لئے

  ایک پارٹی ۔۔دو امیدوار: مسلم امیدوار کے الیکشن جیتنے کے سلسلے میں عوامل اور امکانات کا جائزہ لینے سے پہلے اس بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس وقت ایک اسمبلی سیٹ کے لئے ایک ہی پارٹی یعنی کانگریس سے ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش میں دو مسلم امیدواروں کے نام نہ صرف عوام کے سامنے آئے ہیں ، بلکہ پارٹی ذرائع سے بھی اس کی بھنک مل رہی ہے۔ اس میں ایک نام تو صدر تنظیم جناب قاضیا مزمّل صاحب کا ہے۔بقول ان کے پارٹی کی طرف سے انہیں تیقن دیا گیا ہے کہ اس مرتبہ ٹکٹ انہیں کو دیا جائے گا۔ دوسری طرف کچھ اندرونی ذرائع یہ خبر دے رہے ہیں کہ بھٹکل کے معروف این آر آئی تاجر جناب یونس قاضیا صاحب کے لئے ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اور کچھ بااثر لوگوں کی طرف سے بلاک کانگریس، ڈسٹرکٹ سطح اور پھر ریاستی سطح کے بعد دہلی میں پارٹی ہائی کمانڈتک پر دستک دی جاچکی ہے۔ جبکہ معتبر ذرائع سے ملی خبروں کے مطابق خود یونس قاضیا صاحب نے اس طرح کی کسی کوشش سے انکار کیا ہے۔ موجودہ ایم ایل اے کا منفی کارڈ: اب جہاں تک کانگریس پارٹی کا سوال ہے ، اس کا اپناsitting ایم ایل اے ہے جو فطری طور پر ٹکٹ کا دعوے دار ہوگا ہی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے خلاف پہلے سے کچھ ماحول ہے اور اب سیاسی بخار کے ساتھ مخالفانہ ماحول بنانے کی منصوبہ بند کوششیں ایک تو اپوزیشن کی طرف سے ہورہی ہیں، دوسرے خود پارٹی کے اندر موجود دیگر سیاسی لیڈران اور اپنے لئے ٹکٹ کے طلب گاروں کی طرف سے ایم ایل اے کی کارکردگی کے سلسلے میں منفی رپورٹ کارڈ پیش کرکے ماحول بنایا جارہاہے تا کہ پارٹی اسے ٹکٹ دینے سے باز رہے۔موجودہ ایم ایل اے کے بارے میں یہ بھی خبریں گردش میں رکھی گئی ہیں کہ وہ کانگریس سے ٹکٹ نہ ملنے کے آثار دیکھ کر زعفرانی پارٹی کا کنول کھلانے جارہا ہے۔اس بات کے بھی قوی امکانات ہیں کہ کانگریس کے دیگر غیر مسلم لیڈران بھی اپنے لئے ٹکٹ حاصل کرنے کی دوڑ میں لگ گئے ہونگے۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے متوقع امیدواروں کو اس بارے میں کوئی تشویش ہو یا اس زاویے سے بھی انہوں نے غورکیا ہو، ایسا کوئی اشارہ نہیں مل رہاہے۔ان کی طرف سے بس صرف یہ منظر دکھایا جارہا ہے کہ کانگریس پارٹی موجودہ ایم ایل اے کو ٹکٹ نہیں دے گی اور وہ ٹکٹ براہ راست ہمارے مسلم امیدوار کو ملنے والا ہے۔تو دوسری طرف جنتادل سے مسلم امیدوار کونہ صرف ٹکٹ دینے، بلکہ اخراجات بھی پورے کرنے اور کمار سوامی جیسے بڑے لیڈروں کی طرف سے انتخابی مہم چلانے کی رضامندی ملنے کی بات بھی سنائی دے رہی ہے۔اور ہم جیسے سیاست کی سوجھ بوجھ نہ رکھنے والے اسے ایک خوش گپی سمجھ کرغالبؔ کا شعر گنگناتے ہیں

: ترے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے ، اگر اعتبار ہوتا!

ایک انار ۔۔سو بیمار!: بات جب مسلم امیدواروں کی ہورہی ہے، تو کانگریس سے ٹکٹ کے معاملے میں جہاں دو مسلم امیدواروں کے نام سامنے آئے ہیں ، وہیں پر تیسرا نام جے ڈی ایس کے جانے مانے لیڈر اور گزشتہ الیکشن کے ایک امیدوار جناب عنایت اللہ شاہ بندری کا نام بھی سر فہرست ہے۔ سچائی یہ بھی ہے کہ زمینی سطح پر کام کرتے ہوئے ایک خالص سیاسی لیڈر کے طور پراگر ہمارے سماج سے کسی نے اپنی امیج بنارکھی ہے ، تو بے شک عوامی سطح پر (مسلم اور غیر مسلم دونوں) عنایت اللہ شاہ بندری سے آگے ابھی کوئی نام نہیں ہے۔ لیکن کڑوا گھونٹ یہ بھی پینا پڑتا ہے کہ سیاست کے اس کھلاڑی کو بھی غیر مسلم ووٹرس نے پارٹی کا ٹکٹ ہونے کے باوجود سابقہ انتخاب میں شکست سے دوچار کرکے ہی دم لیا تھا۔ اب ا سے طرفہ تماشہ نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ گھٹیا سیاسی گروہ بندی کی وجہ سے اور سیکیولرزم کے لبادے میں فرقہ وارانہ ذہنیت رکھنے والے انہیں غیر مسلم ووٹرس پر بھروسہ کرکے عنایت اللہ صاحب پھر سے میدان میں اترنے کے لئے کمربستہ ہوچکے ہیں، جنہوں نے سابقہ الیکشن میں ان کی نیّا ڈبو ئی تھی، اوراپنی جیت کے تعلق سے اسی اعتماد خاص کا اظہار کررہے ہیں جو گزشتہ الیکشن سے قبل بھی تھا۔اس کے علاوہ ہر بار کی طرح اس باربھی کچھ برساتی مینڈکوں جیسے امیدواروں کے ٹرّانے کے امکانات بھی اپنی جگہ موجود ہیں ۔ منجملہ تاحال جو پوزیشن ہے اسے ایک انار ۔۔سوبیمار سے تشبیہ دینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

ہم مصلحتِ وقت کے قائل نہیں یارو الزام جو دینا ہو سرِ عام دیا جائے

  کیا مسلم امیدوار جیت سکتا ہے؟!: جو لوگ انتخابی سرگرمیوں اور سازشوں کے علاوہ اعداد وشمار statisticsپر نظر رکھتے ہیں ، ان کے خیال میں ووٹرس کی تعداد اور ووٹنگ کے پیٹرن کو دیکھتے ہوئے مسلم امیدوار کی جیت کے امکانات سوائے کسی معجزہ کے اور کہیں نظر نہیں آتے۔ کیونکہ آج کے حالات میں کوئی بھی مسلم امیدوار ساحلی علاقے میں غیر مسلموں کے 20تا25ہزار ووٹ حاصل کرنے کا دعویٰ نہیں کرسکتا، اور کم ازکم بھٹکل اسمبلی حلقے میں تو اس قسم کا دعویٰ(سچا) نہ کرنے والا میدان میں اترنا بیکار ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جیت کے لئے صرف مسلمانوں کے 25تا30ہزار ووٹ کسی صورت میں کافی نہیں ہوتے۔ البتہ جو لوگ مسلم امیدوار کو انتخابی لنگوٹ بندھوانے پر تُلے ہیں ، یا جنہوں نے خود ہی خم ٹھونک کر میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے ، ان کی دلیل بھی اپنی جگہ ہے کہ کب تک کسی اورکے سیاسی بازویا بیساکھی پر بھروسہ کیا جائے۔ کب تک ہم فسطائیت کے خوف سے اپنے ووٹ دوسری پارٹیوں کی جھولی میں ڈالتے رہیں گے ؟ ہماری اپنی لیڈرشپ کو ابھارنے کے لئے خدشات کے باوجود کیوں نہ یہ بازی کھیلی جائے! تو پھر ایسا کیوں نہیں کرتے؟!: تو پھر سیاسی عزائم رکھنے والے اور ہماری سیاسی رہنمائی کرنے والے مرکزی ادارے کی طرف سے ایسا کیوں نہیں کیا جاتا کہ ابھی سے غیر مسلم لیڈروں اور خاص کر کانگریس یا جنتا دل میں سے کسی ایک پارٹی سے وابستہ غیر مسلم قائدین کے ساتھ اس ضمن میں کھلی گفتگو open negotiationکیوں نہیں کی جاتی۔اور ان کا عندیہ جان لینے کے بعد کسی ایک مسلم امیدوار کے لئے ابھی سے پارٹی کے غیر مسلم قائدین کی کھلی حمایت کے ساتھ مشترکہ طور پر پارٹی ہائی کمانڈ سے ٹکٹ طلب کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی!صرف ہم اپنے طورپر یا امیدوار ذاتی سطح پر پارٹی کو قائل کرکے ٹکٹ حاصل کرلے گا توکیا سابقہ الیکشن کی تاریخ دہرائے جانے کے امکانات پہلے سے زیادہ قوی نہیں ہوجاتے؟ اب بھی وہی لن ترانیاں ہیں!: تعجب ہوتا ہے کہ ہم ایک طرف موجودہ زمینی حقائق کے برخلاف ایک ناگزیر تجربہ بھی کرنے جارہے ہیں ، اوردوسری طرف اس کی پیشگی تیاریوں کے سلسلے میں اسی کاہلی، سست روی یا پھر خوش گمانیوں کے سنہرے جال کا شکار ہوکررہ گئے ہیں۔ ہمارے امیدواروں کی زبان سے یہ سن کر ہنسی بھی آتی ہے اور ان پررحم بھی آتا ہے کہ یہ لوگ اب بھی امبے گوڈا، شمبے گوڈا،سندر نائک، بندر پائی، تھامس پنٹو، نتھوشانبھاگ جیسے" کمیونٹی لیڈرز"کی طرف سے" مکمل حمایت کی خفیہ یقین دہانیوں "پر بھروسہ کررہے ہیں اور عوام سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ بھی اس یاوہ گوئی پر آمنا صدقنا کہیں !اور عوام کامعاملہ یہ ہے کہ :

تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں

ہم بھی سادہ ہیں ، اسی چال میں آجاتے ہیں

صاف اور سیدھی بات: ایک صاف اور سیدھی سی بات ہے اور اسے نوشتۂ دیوار سمجھنا چاہیے کہ اگر مسلم امیدوار کو میدان میں اترنا یا اتارنا ہی ہے توپارٹی سطح پرابھی سے غیرمسلم لیڈروں یا ان کے سماجی اداروں کو کھلے عام حمایت اور مشترکہ اجتماعی کوشش کے لئے آمادہ کرنا ضروری ہے۔ ورنہ ووٹوں کی گنتی پر فرقہ واریت اورنوٹوں کی گنتی بھاری پڑ جائے گی۔ اوراس کے مابعد اثرات جو ہونگے ، وہ ملت کے حق میں یقیناًمفید نہیں ہوسکتے۔اس لئے وقت یہ جو سوال پوچھ رہا ہے اس کا جواب ملنا چاہیے کہ: ؂  

جس سورج کی آس لگی ہے شاید وہ بھی آئے

تم یہ کہو خود تم نے اب تک کتنے دیے جلائے

  (نوٹ: مندرجہ بالا مضمون میں درج تمام باتیں مصنف کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی ہیں،اس میں سے کسی بات پر ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا یا نا ہونا ضروری نہیں۔ادارہ)