تبصرات ماجدی: میخانہ ریاض۔۔۔ ن۔م راشد۔۔۔ادبی تبصرے۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی:

Bhatkallys

Published in - Other

07:32PM Tue 30 Mar, 2021

تبصراتِ ماجدی (۴۰)  از مولانا عبد الماجد دریابادی (40)

میخانۂ ریاض از تسنیم مینائی

دارالاشاعت اردو بازار، حیدرآباد

ریاض خیرآبادی اس دور کے ایک خوش گو شاعر ہوئے ہیں۔ شاعر کے علاوہ انشا پرداز بھی۔ یہ ان کے حالات اور کلام پر ایک دلچسپ تبصرہ ان کے استاد زادہ یعنی امیر مینائی کے پوتے تسنیم مینائی کے قلم سے ہے۔ اصل کتاب 65 صفحوں پر ختم ہوگئی ہے، باقی حصہ انتخاب کلام کے لیے وقف ہے، کسی تبصرہ و تشریح کے بغیر۔

تسنیم اچھے لکھنے والے ہیں، ان کے بعض مضامین ان کی ادبیت و حسن انشاء کے شاہد عادل ہیں۔ ریاض کی نظم و نثر پر لکھنے کا انہیں حق حاصل تھا، لیکن کتاب اس معیار کی نہیں جس کی ان سے توقع تھی۔ اچھے مصنف ہونے کے لیے محض ذہانت اور زبان دانی کافی نہیں، خاصی محنت اور وقت صرف کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کتاب کا حال یہ ہے کہ فہرستِ مضامین تک دینے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی اور مصنف نے اپنا تعارف اپنے قلم سے کرانے کے بجائے (صفحہ 18- 19 کی عبارت اس مقصود کے لیے کافی نہیں) یہ خدمت ناشر غریب کے سر ڈال دی ہے۔ نیاز وغیرہ کی تحریروں کے لمبے لمبے اقتباسات درج ہیں اور بعض دفعہ مصنف کی رائے کو دوسروں کی رایوں سے ممتاز کرنا دشوار ہو گیا ہے۔ پھر اس سارے حصہ میں اکثر اشعار کو بلاضرورت جلی قلم سے لکھنے کی روش نے ایک طرف تو کتاب کو نمائشی ضخامت دے دی ہے اور دوسری طرف مطالعہ کتاب کی روانی میں سہولت نہیں دشواری پیدا کر دی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مصنف کے حسن بیان کے باوجود کتاب اتنی دلچسپی نہیں رہی جتنی موضوع اور مصنف کی، شخصیت دونوں کے لحاظ سے ہونی چاہیے تھی۔ صفحہ 93 کے وسط میں لفظ ’’متلاشی‘‘ مصنف کے سنبھلے ہوئے قلم کے شایانِ شان نہیں۔ خدا کرے آئندہ ایڈیشن میں ہونہار مصنف کو زیادہ توجہ اور صرف وقت کا موقع مل جائے۔

صدق نمبر 33، جلد 11، مؤرخہ 4 ستمبر 1945ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تبصراتِ ماجدی از مولانا عبد الماجد دریابادی (41)

ن۔م۔ راشد : از حیات اللہ انصاری

ایڈیٹر قومی زبان، لکھنؤ

ن۔م۔ راشد اس زمانے کے ایک انوکھے اور نرالے شاعر ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ’’نئے ادب‘‘ ’’نئی شاعری‘‘ اور ’’ترقی پسندی‘‘ کے بے تکان ترجمان۔ ان کی شاعری پر بے شمار تنقیدیں نکل چکی ہیں اور ان کی ایک نظم ’’انتقام‘‘ تو شہرت یا  رسوائی کے غیر معمولی حدود طے کر چکی ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ انہیں کے حلقے کا کوئی ذرا مذاق

سلیم رکھنے والا قلم ہاتھ میں لے اور اس ’’نئی شاعری‘‘ کو جو آدابِ فن اور صحتِ زبان سے یکساں بے پرواہ ہے اور اپنی عریانیوں کے لحاظ سے جرأت اور جان صاحب کو کہیں پیچھے چھوڑ آئی ہے کی قلعی کھول دے۔ قدرت نے یہ ضرورت حیات اللہ انصاری کے ہاتھ سے پوری کرا دی۔

یہ ناقد صاحب خود بھی خاصے مغرب زدہ ہیں۔ کتاب کا نام بھی انگریز کینڈے پر ہے اور کتاب کے اندر لفظ و عبارت کی عریانیاں بھی کچھ کم نہیں ہے۔ پھر بھی لوہے کو لوہا ہی کاٹ سکتا ہے۔ جہاں تک کتاب کے تنقیدی حصے کا تعلق ہے، وہ بہت خوب ہے۔ ناقد صاحب بہرحال لکھنو کے ہیں، ذوقِ سلیم سے بہرہ مند ہیں اور اپنے دور کی ادبیات پر نظر رکھتے ہیں۔ اس لیے ادبی اور معنوی حیثیتوں سے چٹکیاں خوب خوب لی ہیں اور گرفتیں کس کس کر کی ہے۔ آخر میں کلام شاعر کے دیباچہ نویس کرشن چندر کے دیباچہ پر بھی ویسی ہی بڑی ناقدانہ نظر ڈالی ہے۔ بہرحال کتاب طلبۂ ادب کے کام کی ہے اور ہر اس شخص کے لیے قابلِ مطالعہ ہے جو راشد کا کلام پڑھ چکا ہے۔

 صدق نمبر 22، جلد 12، مؤرخہ 19 جولائی 1946ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

#تبصراتِ ماجدی از مولانا عبد الماجد دریابادی (42)

ادبی تبصرے از بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق

دانش محل، لکھنؤ

جس کی عمر خود ادبی تبصروں میں گزر چکی ہے، اس کے تبصروں پر تبصرہ کرنا کسی بڑے مبصر ہی کا کام ہو سکتا ہے، ایسے ویسے نظر باز کا یہاں گزر نہیں۔۔۔دانش محل والے دانش کے ساتھ بینش کے پتلے بھی، خوب سوجھ گئی کہ ان بکھرے ہوئے موتیوں کو اکٹھا کر کے ایک مالا میں پرو دیا جائے۔

یہ تبصرے تعداد میں پندرہ ہیں اور زیر تبصرہ کتابوں میں نثر کے حدیقے اور گلستاں بھی ہیں اور نظم کے گلدستے و بوستاں بھی اور جن شخصیتوں کی جھلکیوں سے یہ بزم ادب آراستہ کی گئی ہے، ان میں ثقافت اور سنجیدگی کے ایسے ایسے بھاری بھرکم نمائندے بھی ہیں جیسے مولانا حالی، نواب عماد الملک، سید حسین بلگرامی اور رنگینی اور نسائیت کے ایسے ہلکے پھلکے نمونے بھی جیسے واجد علی شاہ اور جان صاحب لکھنوی۔۔۔ بیچ بیچ میں چلتے پھرتے مہدی گورکھپوری کے ادبِ لطیف اور ن۔م۔راشد کی ترقی پسندی کے۔

کتاب شروع ہوتی ہے جوش ملیح آبادی کا ’’روح ادب‘‘ پر تبصرہ سے اور ختم ہوتی ہے انہیں جوش صاحب کے ’’آیات و نغمات‘‘ کے تبصرے پر۔ گویا بائے بسم اللہ بھی جوش اور تائے تمت بھی جوش! اچھا ہوا کہ جوش صاحب کی نو مشقی اور پختہ کاری دونوں کے مرقع ایک ہی مجموعے میں آگئے۔

ڈاکٹر صاحب باتیں بڑے پتے کی کہہ جاتے ہیں اور کہیں کہیں بڑے مزے کی بھی۔ زبان میں بہت لوچ نہ سہی، نظر میں گہرائی تو ہے اور چاہے آپ ہر جگہ ان کی رائے کا ساتھ نہ دے سکیں لیکن یہ تو بہرحال مانی ہوئی بات ہے کہ وہ جو کچھ بھی کہنا چاہتے ہیں صفائی، بے تکلفی اور صحت زبان کے ساتھ کہہ جاتے ہیں۔ لکھنوی ٹھسے اور دہلوی چونچلے کے ساتھ نہیں بڑے مردانہ دھڑلے سے کہہ گزرتے ہیں اور پڑھنے والا جب کتاب بند کرتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ پڑھنے میں جو وقت لگا وہ ضائع نہیں ہونے پایا۔ کھویا کچھ نہیں اور سیکھ لیا بہت کچھ۔

البتہ ناشر صاحب اتنے سستے نہیں چھوٹ سکتے اور ایک ہی دہرے دہرے جرم کے مجرم ہیں۔ پہلا غضب یہ کیا کہ کسی مضمون پر تاریخ تک نہ ڈالی، کچھ نہیں پتہ چل سکتا کہ کون سا تبصرہ کب لکھا گیا اور پہلے اور آخری تبصرے کے درمیان زمانہ کا فاصلہ کتنا ہے۔ تبصرہ نگار اپنی ذاتی واقفیت سے لکھتا ہے کہ دونوں کے درمیان کم از کم پندرہ سال کی مدت حائل ہے۔ پہلا تبصرہ 1930 یا 1931  کا ہے اور آخری تبصرہ 1945 1946 کا۔۔۔اس پندرہ سال کی مشاقی نے تو مولوی عبدالحق صاحب کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہوگا اور پھر دوسرا غضب یہ کہ کسی تبصرے کے ماخذ کا حوالہ کہیں بھی نہیں۔ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ یہ تبصرے کب نکلے، کس رسالے میں نکلے، یہاں بھی ذاتی واقفیت کی بنا پر عرض ہے کہ تبصرے انجمن ترقی اردو کے سہ ماہی رسالہ اردو میں نکلتے رہے ہیں۔

جو ناشر کب اور کہاں کے اہم ترین سوالات کی طرف سے اتنا بے پرواہ ہو، اس سے اس کی شکایت ہی کیا کہ کتاب پر دیباچہ یا مقدمہ کو ایک سطر میں نہیں، اردو کے مشہور مقدمہ نویس (مقدمات کی کثرت سے قریب تھا کہ مقدمہ نویس کو مقدمہ باز میں تبدیل کر دے) کی کتب بغیر کسی مقدمہ کے۔

صدق نمبر43، جلد 13، مؤرخہ 12 مارچ 1947

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/