حج کا سفر۔۔۔ جہاز کی روانگی (۱  )۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

02:58PM Thu 7 Jul, 2022

پورے ایک ہفتے بمبئی میں قیام کا موقعہ مل گیا، ۲۱ مارچ کی صبح کو پہنچے تھے اور پر دگرام کے مطابق ۲۵ مارچ کو ساحل بمبئی سے ہمارے حصے میں پڑنے والاجہاز لنگر اٹھانے والا تھا، اسی حساب سے بمبئی میں ان ضروریات کی تکمیل کی جو حج کے سلسلے میں بمبئی ہی میں پوری ہوا کرتی ہیں، احرام کی خریداری، ڈونگے بالٹی کی فراہمی،چکر،متلی کی روک تھام والی دوائیں اور دوران قیام حجاز کے لیے راشن___ پھر جہاز کی تبدیلی کی وجہ سے ہماری روانگی ٢٨ تاریخ  تک ملتوی ہو گئی۔

راشن کے علاوہ باقی اور چیزیں گھر سے بھی ساتھ لی جا سکتی تھیں، لیکن پہلے پہل جو حج کو جا رہا ہو، اسے بمبئی ہی میں دوسرے حاجیوں کے اہتمامات دیکھ کر اس سفر کی ضروریات کا صحیح اندازہ ہو پاتا ہے، مثلا یہ صلاح ملی کہ ربر کی چپل یاجوتا خرید لیا جائے، جہاز پر چمڑے کا جوتا برباد ہو جاتا ہے، احرام کے سلسلے میں واقف کاروں نے نصیحت کی کہ ایک تہ بند اور ایک بڑا موٹا تولیہ(چادر کی جگہ) لینا چاہئیے، حجاز میں جو موسم ہوگا اس میں موٹا تولیہ ہر طرح مفید ہوتا ہے، دن میں گرمی کے وقت موٹا تولیہ ریڑھ کی ہڈی کے اس حصے کو جو گردن سے متصل ہے تمازت سے بچاتا ہے، اور رات کو اگر ٹھنڈک ہوگئی تو یہی موٹا تولیہ ہلکی رزائی کا بھی کام دیتا ہے۔

  حجاز کی تیز دھوپ گردن سے متصل ریڑھ کی ہڈی کو سب سے زیادہ متأثر کرتی ہے، اگر اس کی حفاظت سے غفلت کی گئی تو بیمار ہوئے بغیر کوئی رہ نہیں سکتا، احرام کی حالت میں مرد سر کو ڈھک نہیں سکتے کہ کوئی موٹا کپڑا سر پر ڈال کر بالائی حصہ جسم کو گرمی سے بچاسکیں، سر ڈھکا اور شرعی جرمانہ دینا پڑا، چاہے سوتے میں بے اختیاری ہی میں کیوں نہ یہ غلطی ہو جائے۔

   موٹا تولیہ اگر احرام میں شامل ہو تو موسم کے اثرات سے اچھی خاصی حفاظت ہوسکتی ہے، حاجیوں کی ضرورت پر موٹے تولیے، لمبے، بڑے، بمبئی میں کھلے بازار میں اور صابو صدیق مسافر خانے کی حاجیوں کے لئے مخصوص دوکانوں میں بھی بآسانی مل جاتے ہیں۔

    ایک انتظام اور یہیں کرنا تھا، وہ تھا مکہ معظمہ میں قیام کا معاملہ جو ایک سخت مرحلہ ہے اور آئندہ اور بھی سخت ہو جانے والا ہے، اس سلسلے میں بوہرہ فرقے کے پیشوا ہزہولینس ڈاکٹر ملا طاہر سیف الدین کے منجھلے صاحبزادے ڈاکٹر پرنس یوسف نجم الدین سے جن سے ذاتی مراسم بھی ہیں اور خاندانی بھی رجوع کیا، بوہرہ فرقے کے لئے مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، منی اور دوسرے مقدس مقامات میں بڑی آرام دہ عمارتیں موجو د ہیں، جن میں خصوصی تعلقات والے غیر بوہرہ بھی متولی کی اجازت سے ٹھہر سکتے ہیں، مکہ معظمہ میں اپنے ٹھہرنے کے لئے ڈاکٹر یوسف نجم الدین سے اجازت نامہ لینا تھا ، پہلے ہی ان کو خبر کر دی تھی۔

    بمبئی میں جب ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ بوہرہ رباط (مکہ معظمہ) کے لئے محرم کے مہینے سے حج سے تقریبا گیارہ مہینے پہلے ہی سے اجازت نامے جاری ہونا شروع ہو جاتے ہیں، عیں وقت پر جگہ بمشکل ہی  نکل پاتی ہے، بہر حال نجم الدین حال صاحب نے ہمارے قافلے کے لئے بوہرہ رباط میں پورا ایک کمرہ مخصوص کر دینے کی ہدایت منتظمین رباط کو تحریر کرکے ہمارے سپرد کردی، یہ تو مکہ معظمہ پہنچ کر اندازہ ہوا کہ یہ کمرہ کیسی نعمت ثابت ہوا، اور کیوں یہاں جگہ نہیں مل پاتی ہے۔

     سیدنا ملا صاحب سے بھی ملے، انھوں نے رخصت کرتے ہوئے ہم لوگوں کو جامۂ احرام دیا، یہ چھالیئن تھی، اس لئے تہ بند کے استعمال میں آئی۔

      تیسرے درجے والوں کے لئے بتایا گیا کہ چٹائیاں بھی ضروری ہیں اور درجہ اول کے مسافروں کے لئے بھی کسی حد تک، یہ بھی بمبئی میں ملتی ہیں اور اچھی ملتی ہیں۔

       ضروریات کی فراہمی کے بعد ہمارے پاس اچھا خاصا وقت گھومنے پھرنے، ملنے ملانے کا تھا، سواری کی آسانی بھی میسر تھی ، قدیم دوست اور ساتھی مجروح سلطان پوری کی گاڑی ہمارے اختیار میں تھی، مگر سفر کی پریشانی پیچھا نہیں چھوڑتی تھی، بحری جہاز کا سفر پھر تیسرے درجے کے ٹکٹ، پھر آرام طلبی کی عادت، یہ ایسے تضاد جمع ہو گئے تھے جو پریشان کئے رہتے تھے، ذوق وشوق کا یہ سفر اور پریشانی کا یہ عالم!

مولانا شوکت علی مرحوم خادمِ کعبہ کے بڑے صاحبزادے زاہد شوکت علی کے پاس خلافت ہاؤس میں بیٹھے گھنٹوں پوچھا کرتے تھے کہ فلاں زحمت سے بچنے کی کیا صورت ہوگی فلاں تکلیف سے کس طرح بچا جاسکتا ہے؟ وہ دو بار حج کر چکے تھے،اور جب بات کرنے پر آئیں تو ایورسٹ کی چوٹی پر چڑھنے میں بھی کوئی دشواری نہ بتائیں گے، انھوں نے بھی تیسرے درجے میں جہاز کا سفر کیا تھا، وہ سب رعایتیں جو حاجیوں کے جہازوں میں روا رکھی جاتی ہیں، ہمیں بتادیں۔

 تدبیریں تو بہتوں نے بتائیں، سہولتیں بھی بیشتر میسر آئیں، لیکن جس سفر کے لئے نکلے تھے اس کی ذمہ داریوں سے کسی نے بھی ہوشیار نہ کیا، ایک شعر تھا جو کچھ خبر دار کر رہا تھا ۔۔

 قائم قدم سنبھال کے رکھ کوئے عشق میں

 یہ راہ بے طرح ہے مری جان ! دیکھنا

اور ہم نے اپنے حساب سنبھال سنبھال کے قدم اٹھائے اور سوئے ساحل روانہ ہوئے۔

اعلان ہوا تھا کہ مظفری جہاز 28 مارچ کو 11 بجے دن میں بمبئی ساحل سے روانہ ہو گا، اور مسافروں کو 7 بجے صبح کسٹم ہاؤس میں پہنچ جانا چاہئے، زاہد بھائی نے کہا بھی کہ آپ لوگ دس، گیارہ بجے گھر سے جائیے گا، جہاز ایک بجے سے پہلے روانہ نہیں ہو گا مگر کسٹم کا ہوّا ہمیں ٨ بجے صبح ہی کسٹم ہاؤس لے پہونچا۔

جن لوگوں نے پاکستان کا سفر کیا ہے، کسٹم کی مصیبت کا بخوبی احساس رکھتے ہوں گے، خصوصا تیسرے درجے کے مسافر کا کسٹم تو ایک عذاب ہوتا ہے، سارا سامان  کھلواکر ایک ایک چیز نکال کر سرحد کے دونوں طرف دیکھی جاتی ہے، ہم سامان سے لدے پھندے تھے ہی، سوچا کہ سب کا کھولنا دکھانا، پھر باندھنا بڑا وقت لگے گا، اول وقت ہی پہونچ جاؤ۔

 پہنچے، پہلے پاسپورٹ اور صداقت نامۂ صحت کی جانچ ہوئی، پھر کسٹم ہاؤس میں داخل ہوئے، کچھ سناٹا سا  نظر آیا، قلی نے ایک افسر کے سامنے میز پر ایک ایک کر کے سامان رکھنا شروع کیا، کسٹم آفیسر نظر اٹھا کر ایک ہی دفعہ ہماری صورت دیکھتا تھا اور ایک سامان پر اجازت کا نشان لگا دیتا، بکس، بستر، ٹوکریاں، ناشتہ دان سب اسی طرح صورت دیکھ دیکھ کر پاس کر دیئے گئے، شاید دس منٹ لگے ہوں گے کہ سارا سامان جہاز کی طرف روانہ ہو نے لگا اور ہم اچنبھے کے ساتھ کھڑے دیکھتے رہے، نہ کوئی شناسائی نہ کوئی سفارش ، کسٹم آفیسر اتنا مہربان کیوں ہوگیا؟ کیا تمام کسٹم افسران مردم شناس ہوتے ہیں کہ بوجھ بوجھ کر تلاشی لیتے ہیں؟ یا حاجیون کے ساتھ کسٹم میں رعایت ملحوظ ہی رکھی جاتی ہے، یہی سوچتے ہوئے ہم نے بھی جہاز کی طرف قدم بڑھائے، پھاٹک سے نکل کر گودی کی طرف جارہے تھے کہ ایک ایک ڈبہ ہر ایک کو گیٹ پر دیا جا رہا تھا، یہ دوپہر کے کھانے کا (لنچ کا)ڈبہ تھا، یعنی جہاز کی روانگی دوپہر کو ہوگی، روانگی کے بعد ہی جہاز کا باورچی خانہ کھلے گا، بلایا گیا تھا صبح 7 بچے، تو دوپہر کے کھانے کا کیا ہو گا؟ اس کے لئے لنچ کا ڈبہ دیا گیا، جس میں دو دو کباب اور پوری نما روٹیاں تھیں، پیٹ بھر کھانے کے بقدر۔

 یہ مغل کمپنی کی طرف سے نظام تھا، اس کے ساتھ ایک جیبی سائز کی کتاب بھی دی گئی، یہ حج کی دعاؤں کی کتاب تھی، جو انجمن خدام النبی کی طرف سے تقسیم کی جارہی تھی۔

  لیجئے جہاز پر سوار ہوگئے، تیسرے درجے کے مسافروں کے لئے ایک راستہ اور اول درجے کے مسافروں کے لئے دوسرا راستہ جہاز پر جانے کا تھا، حج پولیس اور انجمن  خدام النبی کے رضاکار اس سلسلے میں رہبری کر رہے تھے۔ نشستیں ٹکٹوں کے ساتھ متعین ہوچکی تھیں، قلی نے ہمارا سامان انہیں نشستوں پر پہنچادیا،ابھی بہت ہی کم مسافر آئے تھے۔

جہاز کا بالائی حصہ تو کپتان اور جہاز کے دوسرے بڑے افسروں کے کمروں پر مشتمل ہوتا ہے، جہاں کوئی مسافر نہیں جاتا، دوسری منزل کیبن کلاس کے مسافروں کی تھی، دونوں طرف غالبا دو درجن کیبن تھے، جن کے سامنے وسیع برآمدے اور ملحق ایک پبلک روم جس میں اعلا درجے کے صوفے اور کرسیاں تھیں اور بڑا سا قالین پورے ہال میں بچھا ہوا تھا، ایک بڑا سا پیانو بھی کونے میں رکھا ہوا تھا، جو حاجیوں کے احترام میں غلاف کے اندر کر دیا گیا تھا۔

 جہاز کی تیسری منزل درجۂ اول کے مسافروں کے لئے تھی، یہاں بھی دونوں طرف برآمدے تھے، اور اسی منزل پر درجۂ اول کے کمروں کے ایک طرف چھت تھی اس چھت کے نیچے جہاز کے درجۂ دوم کے ملازمین کے کیبن تھے اور تیسرے درجہ کے مسافروں کے لئے غسل خانے پاخانے کینٹین، ڈسپنسری وغیرہ اور اس کے نیچے تیسرے درجے کے مسافروں کےلئے بہت لمبے لمبے ہال تھے ،جن میں لوہے کی سیٹیں جمادی گئی تھیں، ایک بڑے ہال سے نیچے اتر کر دوسرے اور پھر تیسرے ہال میں جانا ہوا تھا۔

  تیسرے درجے کے وہ مسافر بڑی زحمت میں تھے جنھیں سب سے نچلے ہال میں جگہیں ملی تھیں، انھیں رفعِ ضروریات کے لئے تین درجے اوپر چڑھ کر آنا پڑتا تھا۔   خوش قسمتی سے ہماری نشستیں اوپر والے ہال میں تھیں اور صرف ایک درجہ طے کرکے ہم غسل خانے اور پائخانے تک پہونچ سکتے تھے۔

   دیکھا کہ چٹائیاں لیے لوک اپنی اپنی نشستوں سے کھلی چھت پر جارہے ہیں، ہماری چٹائیاں بھی کھلی چھت پر بچھ گئیں، لیکن دوپہر ہو چلی تھی، دھوپ کی تیزی میں چھت پر کیسے رہا جاسکے گا، پھر ابھی مارچ کا مہینہ ہے، رات بھی کھلی چھت پر بسر کرنا ناممکن ہے،  مگر یہ دستور سا ہے کہ کھلی چھت پر جس کی چٹائی بچھ گئی پھر وہ جگہ اسی کی ہو جاتی ہے، کوئی مسافر اس پر قبضہ نہیں کرتا،  اس خیال سے چٹائیوں کے ذریعے جگہ پر قبضہ کرلیا کہ اگر نشستوں پر تکلیف ہوئی تو چٹائیوں پر آجائیں گے، دیکھتے دیکھتے ساری کھلی چھت اور درجۂ اول کے برآمدے چٹائیوں سے گھر گئے۔

 پیش کش: حذیفہ رحمان