اچھے دن آ گئے!..........مگر کس کے؟!(دوسری قسط)۔۔۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
ّ آج سے تقریباً بارہ سال قبل گجرات کے ہولناک مسلم کش فسادات کے پس منظر میں بنگلورکے ایک ریسارٹ میں ملک گیر سطح کی ایک میڈیا کانفرنس ہوئی تھی۔ جس میں تیستا ستیلواد، کلدیپ نیر ، مکل سکند، عزیز برنی، پرواز رحمانی، سید شہاب الدین وغیرہ جیسی سیکولرازم اور امن و سلامتی کے لیے جدو جہد کرنے والی ہندوستان کی نامورغیر سیاسی شخصیات اور صحافت کے ستون موجود تھے۔ آنے والے دور کی تصویر: اس وقت میں نے اوپن سیشن میں اسٹیج پر موجود ان شخصیات سے ایک سوال کیا تھا کہ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ دس پندرہ سالوں میں ہمارا ملک ہندوستان ، مسلمانوں کے لیے’’فلسطین‘‘ بننے جارہا ہے، اور یہاں جو حکومت بنے گی وہ صہیونی یا اسرائیلی طرزکی ہوگی، تو اس کا تدارک کیا ہے؟تب مجھے جواب دیا گیا تھا کہ ایسی صورت حال یہاں پیدا ہونے نہیں دی جائے گی۔کیونکہ سیکولرازم کے لیے آواز اٹھانے والے ہم جیسے لوگ ابھی زندہ ہیں۔ میں نے پلٹ کر پوچھا تھا کہ آپ کی آواز مؤثر کب رہتی ہے۔ اگروہ ہمیشہ کی طرح کہیں دب کر رہ گئی تو؟اس پر مجھے تسلی دی گئی کہ اس طرح کے خیالات خواہ مخواہ کے وسوسے ہیں۔ یہاں سیکولرازم کا تانا بانا اس قدر مضبوط ہے کہ وہ دن نہیں آئیں گے۔ گجرات ماڈل کا راگ ! : مگر سب نے دیکھا کہ گزشتہ ودھان سبھا کے انتخابی ماحول کے آغاز سے بہت پہلے ہی سے اس بات کا اظہار کیا جاتا رہا تھا کہ ہندتواکے لیے گجرات ایک لیباریٹری ہے اور وہاں کے کامیاب تجربے کو ملک بھر میں آزمایا جائے گا۔اور کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہندتوا کی اس گجرات لیباریٹری کااصل منیجمنٹ اسرائیل اور اس کی خفیہ ایجنسی موساد کے ہاتھوں میں ہی تھا۔بی جے پی کی طرف سے کہا تو یہ بھی گیا کہ گجرات کی ترقی کا ماڈل ملک بھر کے لیے اپنایا جائے گا، مگر جانکار اس کی خبر بہر حال رکھتے ہیں کہ وہاں کس قسم کی ترقی ہوئی ہے اور یہ کونسے ماڈل کی بات ہورہی ہے۔ کیا مسلمان پنچنگ بیگ ہیں؟!: مشہور کالم نگار جناب وسعت اللہ خان اپنے مضمون ’’سب مایا ہے‘‘ میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے اس وقت لکھاتھا ’’.....دوسری جانب ووٹ بینک کو بڑھانے اور پکا کرنے کے لیے مذہبی شدت پسندی کا سستا ، ٹکاؤ، پائیدار راستہ اختیارکیا گیا، جس کا نتیجہ فروری اور مارچ 2002 کے عظیم گودھرا بلوہ کی شکل میں نکلا۔ جس طرح نازی جرمنی میں اکثریت کو مصروف رکھنے کے لیے یہودیوں کی شکل میں ایک پنچنگ بیگ فراہم کردیا گیا تھا، اسی طرح گجرات میں مسلمان اقلیت جو کل ریاستی آبادی کا لگ بھگ نو فی صد ہے، شدت پسند تجربات کے لیے پنچنگ بیگ بن گئی۔‘‘اس زاویہ سے اگر دیکھیں توظاہر ہے کہ اب ملک گیر سطح پر مسلمانوں کو پنچنگ بیگ کی شکل میں اکثریت کے آگے رکھ دیا گیا ہے۔ خدا نخواستہ کیا ایسا ہوگا؟ : خدا کرے کہ جو خدشہ میں نے ایک دہائی قبل ظاہر کیا تھاوہ اب بھی غلط ثابت ہوجائے، اور ہمار ا ملک امن وسلامتی کے ساتھ پھلے پھولے۔ مگر آ ثار جو نظر آرہے ہیں، وہ خدشات کو کم نہیں کرتے بلکہ نیند اڑانے کا سبب بن جاتے ہیں۔ اب اسی کو لیجیے۔ بی جے پی کے درپردہ آر ایس ایس کے برسر اقتدار آتے ہی چاروں اہم ایشیوز یعنی رام مندر، یکساں سول کوڈ، گؤ کشی پرمکمل پابندی اور آرٹیکل 370کو ختم کرنے کی باتیں تیز ہوگئی ہیں۔جبکہ ان میں سے تمام ایشیوز اکاکچھ براہ راست اور کچھ بالواسطہ تعلق مسلمانوں سے ہے۔ ایسے میں فطری طور پر اس کے خلاف آواز اٹھانے ، سڑکوں پر آنے ، احتجاجات کرنے، جیلوں میں سڑنے اور اپنی جانیں گنوانے والے صرف اور صرف مسلم نوجوان ہونگے۔لٹنے اور پٹنے والی پوری مسلم قوم ہوگی۔ شروعات ہوچکی ہے : اس کی شروعات بھی ہوچکی ہے۔ مساجد پر حملے، گؤ کشی پر مکمل پابندی اور فجرکی اذان کے لیے مائک کے استعمال پر پابندی کے مطالبات کے ساتھ احتجاج، دھرنے اور ریالیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔اب تو مذہبی فریضہ کی ادائیگی کے لئے بڑے جانوروں کے ساتھ بکرے اور دیگرکسی بھی قسم کی جانوروں کی قربانی پر روک لگانے کے لئے سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دی جاچکی ہے۔مسلم پرسنل لاء اور شرعی قوانین کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ عدالت عالیہ سے کیا جارہا ہے۔ گؤرکھشا کے نام پر پورے ملک میں انسانی عزت وآبرو اور جان و مال سے کھلے عام کھیلا جارہا ہے۔پورے ملک کا سیاسی اورمعاشرتی منظر نامہ یہی کہہ رہا ہے کہ اب ہندوستان کی رگِ جاں پنجۂ یہود میںآ چکی ہے۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ چانکیہ کی سیاسی حکمت عملی پر ایمان رکھنے والا ملک کا وزیر اعظم پورے اطمینان کے ساتھ روم کو جلاکر بانسری بجانے والے نیرو کے نقش قدم پر چل پڑا ہے۔ وہی قاتل۔۔وہی منصف: دوسری طرف دہشت گردی کے نام پر پہلے ہی سے مسلم نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ جیلوں میں سڑ رہی ہے۔ سینکڑوں زندگیاں اور درجنوں خاندان برباد ہوچکے ہیں۔اب داعش کے جن کو کھڑا کرکے امت مسلمہ کی جواں سال اور جواں فکر نسل کو تباہی کے غار میں ڈھکیلا جارہا ہے ۔عدالتوں میں سیکیوریٹی ایجنسیوں کی جھوٹی کہانیاںیکے بعد دیگرے دشت از بام ہورہی ہیں مگر اس کے باوجودبڑی بے شرمی سے روز نئی کہانیاں گھڑی جارہی ہیں اور ملک کے کسی نہ کسی حصے میں مسلم نوجوانوں کو ٹارگٹ بنایا جارہا ہے ۔اس سب کے بعد بھی جن کے دل پسیج نہیں رہے تھے، جن کے کلیجے ٹھنڈے نہیں ہورہے تھے اور جو لگاتار مزید سخت کارروائی اورzero toleranceکی باتیں کر رہے تھے، انہیں کوجب اقتدار اورمنصفی مل گئی ہے توپھرانجام کیا ہونے والا ہے،کیا اس کی تفصیل میں جانے کی کوئی ضرورت ہے؟ اچھے دن آئے ضرور ہیں۔۔۔مگر!: یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ حالات کہہ رہے ہیں کہ اچھے دن ضرور آئے ہیں، مگریقین کیجیے کہ مسلمانوں کو ملک گیر سطح پر پنچنگ بیگ بنانے والوں کے اچھے دن آئے ہیں۔فاشسٹ قوتوں کے اچھے دن آئے ہیں۔مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر اگلنے والوں کے اچھے دن آئے ہیں۔ہندوستان کو ہندو راشٹر قرار دینے اور رام راجیہ نافذ کرنے کی خواہش رکھنے والوں کے اچھے دن آئے ہیں۔ اس کے برعکس مستقبل یہ کہہ رہا ہے کہ جب سیکولرازم کے نام نہاد محافظوں کے بدترین دن آ گئے ہوں تومسلمان جو تب مشق ستم کا نشانہ بنا ہوا تھا، اسے اب دنیا کے دیگر حصوں میں جی رہے مسلمانوں کی طرح حصار جبر میں جینے کا سلیقہ سیکھنا ہوگا۔کیونکہ یہ شعر تو نقش بر دیوار ہوچکا ہے: حصارِ جبر میں زندہ بدن جلائے گئے کسی نے دم نہیں مارا ، مگر دھواں بولا ہاں جن لوگوں نے اب بھی یہ آس لگارکھی ہے کہ عام ہندوستانی کے لئے اچھے دن آئیں گے اور امن و خوشحالی کا موسم لائیں گے، توان کے لئے بس یہی کہا جاسکتا ہے خدا کرے کہ ، آپ کا اندازہ صحیح اورمیرا تجزیہ غلط ہو!۔وگرنہ صورتحال تو یہی بنی ہوئی ہے کہ ذہن و دل نہ بہہ جائیں ، آنسوؤں کے ریلے میں اب تو یہ جزیرے بھی زیر آب لگتے ہیں haneefshabab@gmail.com ***************************