دہلی فسادات کے سلسلے میں اقلیتی کمیشن کی چشم کشا رپورٹ... سہیل انجم

Bhatkallys

Published in - Other

01:55PM Mon 20 Jul, 2020
شمال مشرقی دہلی میں فروری کے مہینے میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے تعلق سے شروع سے ہی ایسی رپورٹیں آرہی تھیں کہ یہ فرقہ وارانہ فساد نہیں تھا بلکہ سی اے اے کی مخالفت کرنے کی سزا تھی جو مسلمانوں کو دی گئی۔ یہ اپنے آپ پھوٹ پڑنے والا فساد نہیں تھا بلکہ منظم اور منصوبہ بند تھا۔ بی جے پی کے بعض رہنماؤں کے مبینہ اشتعال انگیز بیانات نے فساد کی آگ بھڑکائی تھی۔ تین روز تک مسلسل کشت و خون کا بازار گرم رہا اور حکومت اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ فساد کے دوران پولیس کا رول بھی سوالوں کے گھیرے میں رہا۔ فساد کے دوران اور اس کے بعد کی رپورٹنگ میں پولیس کی جانبداری کو کھل کر بے نقاب کیا جاتا رہا۔
 فسادات کے ختم ہونے کے بعد جب پولیس نے اس کی جانچ کا سلسلہ شروع کیا تو اس میں بھی جانبداری کا مظاہرہ ہوتا رہا۔ گرفتاریوں میں بھی تعصب کی کارفرمائی رہی اور زیادہ تر مسلمانوں کو ہی گرفتار کیا گیا۔ جبکہ ہلاک ہونے والے 52 افراد میں سے 40 مسلمان ہی تھے۔ نقصان بھی سب سے زیادہ مسلمانوں کا ہوا۔ دہلی پولیس کی جانب سے جو چارج شیٹس داخل کی گئیں ان میں بھی فساد کا الزام مسلمانوں کے سر ڈالا گیا۔ جبکہ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کی اشتعال انگیز تقریر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔