دہلی فسادات کے سلسلے میں اقلیتی کمیشن کی چشم کشا رپورٹ... سہیل انجم

شمال مشرقی دہلی میں فروری کے مہینے میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے تعلق سے شروع سے ہی ایسی رپورٹیں آرہی تھیں کہ یہ فرقہ وارانہ فساد نہیں تھا بلکہ سی اے اے کی مخالفت کرنے کی سزا تھی جو مسلمانوں کو دی گئی۔ یہ اپنے آپ پھوٹ پڑنے والا فساد نہیں تھا بلکہ منظم اور منصوبہ بند تھا۔ بی جے پی کے بعض رہنماؤں کے مبینہ اشتعال انگیز بیانات نے فساد کی آگ بھڑکائی تھی۔ تین روز تک مسلسل کشت و خون کا بازار گرم رہا اور حکومت اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ فساد کے دوران پولیس کا رول بھی سوالوں کے گھیرے میں رہا۔ فساد کے دوران اور اس کے بعد کی رپورٹنگ میں پولیس کی جانبداری کو کھل کر بے نقاب کیا جاتا رہا۔
فسادات کے ختم ہونے کے بعد جب پولیس نے اس کی جانچ کا سلسلہ شروع کیا تو اس میں بھی جانبداری کا مظاہرہ ہوتا رہا۔ گرفتاریوں میں بھی تعصب کی کارفرمائی رہی اور زیادہ تر مسلمانوں کو ہی گرفتار کیا گیا۔ جبکہ ہلاک ہونے والے 52 افراد میں سے 40 مسلمان ہی تھے۔ نقصان بھی سب سے زیادہ مسلمانوں کا ہوا۔ دہلی پولیس کی جانب سے جو چارج شیٹس داخل کی گئیں ان میں بھی فساد کا الزام مسلمانوں کے سر ڈالا گیا۔ جبکہ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کی اشتعال انگیز تقریر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔