اصل حکومت تو آر ایس ایس کی ہوئی!

Bhatkallys

Published in - Other

12:56PM Fri 18 Sep, 2015
آر ایس ایس اور بی جے پی کے باہمی تعلقات کے بارے میں کسی کے ذہن میں ذرہ بھر بھی شبہ تھا تو وزیراعظم نریندر مودی نے اسے دور کر دیا ہے۔ انھوں نے اپنے کلیدی وزراء کو آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت کے سامنے پیش کیا اور ان سے کہا کہ وہ اپنی وزارتوں کی کارکردگی کے بارے میں انھیں مطلع کریں۔ وزیراعظم کو ایسا کرتے ہوئے ضمیر کی کوئی خلش محسوس نہیں ہوئی کیونکہ آر ایس ایس چیف کے سامنے وزرا نے جو پریزینٹیشن دی وہ تمام نیوز چینلوں پر نشر کی گئی۔ مودی صاحب خود آر ایس ایس کے نہایت پُرجوش پرچارک تھے جنہوں نے بعدازاں اس کے سیاسی ونگ بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس سے قبل بی جے پی آر ایس ایس کے ساتھ رابطے کو چھپانے کی کوشش کرتی رہی ہے کیونکہ اسے احساس ہے کہ بھارت کا عام آدمی آر ایس ایس کو پسند نہیں کرتا۔ جنتا پارٹی اسی سوال پر ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی تھی کہ اس کا آر ایس ایس سے تعلق تھا۔ جن سنگھ بی جے پی کا پہلا روپ تھا۔ جس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ آر ایس ایس سے اپنا ناتا توڑ لے گی۔ یہ یقین دہانی گاندھی کے پیروکار جے پرکاش نارائن (جے پی) کو کرائی گئی تھی لیکن اس یقین دہانی پر عملدرآمد نہ کیا گیا اور یوں جے پی کے اعتماد کو صریح دھوکا دیا گیا۔ میں نے ایک مرتبہ جے پی سے پوچھا کہ انھوں نے جَن سنگھ کو جنتا پارٹی سے ادغام کرنے کی اجازت کیوں دی حالانکہ ثانی الذکر نے آر ایس ایس کے ساتھ اپنے رابطے نہیں توڑے۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ان سے یقیناً دھوکا کیا گیا ہے کیونکہ جَن سنگھ کے لیڈر اپنے وعدے سے مکر گئے تھے۔ انھوں نے اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ جب جنتا پارٹی اپنی حکومت قائم کر کے حکومتی معاملات میں مشغول ہو جائے گی تو ان کا آر ایس ایس کے ساتھ تعلق خود بخود ختم ہو جائے گا تاہم جے پرکاش نارائن کا کہنا تھا کہ میرے ساتھ ذاتی طور پر دھو کیا گیا ہے۔ یہ درست ہو گا کیونکہ اسی عمل کے دوران جن سنگھ نے سیکولر خیالات اپنا لیے۔ جے پی سے جو فاش غلطی سرزد ہوئی جس سے قوم کا بڑا نقصان ہوا اور کل کی جن سنگھ آج بی جے پی بن کر لوک سبھا میں قطعی اکثریت حاصل کیے بیٹھی ہے۔ اس صورت حال سے کانگریس بھی فائدہ اٹھا سکتی تھی لیکن کانگریس کا دھیان اپنے حکمران خاندان پر اٹکا ہوا ہے جب کہ پارٹی کی صدر سونیا گاندھی ہر قیمت پر اپنے بیٹے راہول گاندھی کو اپنا جانشین بنانا چاہتی ہیں۔ یہی کانگریس کی ناکامی کی وجہ ہے۔ پارٹی نے اپنا مسلمانوں کا ووٹ بینک کھو دیا ہے جس پر کہ وہ انحصار کر سکتی تھی۔ اب مسلم برادری دوسری چھوٹی علاقائی پارٹیوں کی طرف متوجہ ہو رہی ہے۔ حتیٰ کہ اسد الدین اویسی کی حمایت بھی کر رہی ہے جو مسلمانوں کا متفقہ لیڈر بننا چاہتا ہے جیسے کہ تقسیم سے پہلے مسلم لیگ مسلمانوں کی نمایندہ جماعت تھی۔ یہ برادری اب فرقہ وارانہ سیاست میں واپس نہیں جانا چاہتی۔ لیکن ان کے پاس کوئی متبادل نہیں۔ دوسری طرف آر ایس ایس کھلم کھلا ان کے خلاف کھڑی ہے اور اس حوالے سے بی جے پی کو ہدایات جاری کر رہی ہے۔ وہ اپنے اس کردار کو قطعاً فراموش کر چکی ہے کہ وہ صرف ایک ثقافتی تنظیم کے طور پر کام کرے گی۔ اگرچہ آر ایس ایس نے اپنے طور پر کبھی کسی انتخابی سرگرمی میں حصہ نہیں لیا تاہم وہ جانتی ہے کہ الیکشن جیتنے کے لیے بی جے پی کو آر ایس ایس کی بھرپور مدد درکار ہوتی ہے۔ بہر حال یہ بات تو قوم کے سامنے طشت ازبام ہو گئی کہ ملک کا اصل باس کون ہے جب وزیراعظم مودی آر ایس ایس چیف موہن بھگوت کے روبرو اپنے وزراء کی پریڈ کروا رہے تھے۔ یہ درست ہے کہ رائے دہندگان نے مودی کو انتخاب میں فتح دلائی لیکن مودی نے اپنے انتخابی وعدوں میں کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ آر ایس ایس ان کی حکمرانی کی نگرانی کرے گی۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انتخابی مہم میں مودی نے اقلیتوں کو، بالخصوص مسلمانوں، کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ماضی کو فراموش کر کے اس نئے نعرے پر توجہ مرکوز رکھیں ’’سب کا ساتھ‘ سب کا ویکاس‘‘ یعنی سب کا بھلا۔ بعض تقاریب میں تو مودی نے معمول سے ہٹ کر مسلمانوں کو یقین دلایا کہ وہ ان کے حقوق کی بہترین نگہبانی کریں گے۔ اگرچہ مودی کی کارکردگی میں ابھی تک کوئی نمایاں چیز تو نظر نہیں آئی۔ سوائے اس کے کہ آر ایس ایس نے تعلیمی اداروں کو جوگیائی رنگ میں رنگنا شروع کر دیا ہے اور کلیدی مناصب پر اپنے آدمیوں کی نامزدگیاں شروع کر دی ہیں۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مودی آر ایس ایس کا ایجنڈا بہت دھیرے دھیرے لیکن بڑی استقامت کے ساتھ مسلط کر رہے ہیں۔ یہ دیکھنے کی بات ہے کہ حکمرانی میں مسلمانوں کا عمل دخل بالکل ہی ختم ہو رہا ہے۔ مرکزی کابینہ میں صرف ایک مسلمان وزیر ہے اور اس کو بھی ایک غیر اہم قلمدان وزارت سونپا گیا ہے جب کہ نرم قسم کا ’’ہندو توا‘‘ ملک بھر میں پھیلایا جا رہا ہے۔ آر ایس ایس کا حتمی ہدف بھارت میں ’’ہندو راشٹرا‘‘ قائم کرنا ہے جو کہ ابھی دور کا ہدف لگتا ہے لیکن مودی کی حکومت کی مُدّت میں بھی تو ابھی ساڑھے تین سال باقی ہیں۔ مودی آر ایس ایس چیف سے اب سرعام ملاقاتیں کرنے لگے ہیں اور ایسے لگتا ہے جیسے وہ مل کر اس منصوبے پر عمل پیرا ہیں جو آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹرز یعنی ناگپور میں تشکیل دیا گیا تھا۔ بی جے پی کا ایک طلبہ کا ونگ بھی ہے جس کا نام ’’آکھل بھارتیہ ودھیارتی پریشد‘‘ یعنی آل انڈیا طلبہ محاذ ہے لیکن اس ونگ کی سوچ بھی آزادانہ نہیں۔ انھیں اسی اسکرپٹ پر عمل کرنا پڑتا ہے جو ناگپور میں تیار ہوتا ہے۔ اس کے مظاہر مختلف ہیں۔ کبھی یہ گوشت پر پابندی کی صورت میں سامنے آتا ہے اور کبھی مخصوص لباس پر زور دیا جاتا ہے جب کہ اسکولوں میں سنسکرت کی تدریس پر اصرار ہے اور صبح کی اسمبلی میں خصوصی دعائیں پڑھائی جاتی ہیں۔ نئی دہلی میں نہرو میموریل میوزیم کی ازسرنو تزئین و آرائش بھی اسی سوچ کی غماز ہے۔ جب برطانوی حکمرانی کے خلاف آزادی کی جدوجہد کی جا رہی تھی تو آر ایس ایس کا کہیں نام و نشان نہ تھا لیکن اب وہ سارے ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے جیسے آزادی کی اصل چیمپیئن وہی ہو۔ مجھے اس بات کا دکھ ہوتا ہے کہ اب قوم میں آزادی کی جدوجہد والا جذبہ مفقود ہو چکا ہے اور اجتماعیت کے نظریے کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے حتٰی کہ جدید بھارت کے معمار جواہر لال نہرو کے نام کو بڑے سلسلہ وار طریقے سے مٹایا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر نہرو اور اندرا گاندھی کی تصاویر والے ڈاک کے ٹکٹ ختم ہو چکے ہیں جنھیں دوبارہ نہیں چھپوایا جا رہا۔ تعلیم کے میدان میں جو ابتری پھیلائی جا رہی ہے وہ ہولناک ہے۔ تاریخ کو دوبارہ لکھا جا رہا ہے اور آزادی کے رہنماؤں کے کردار کو کم کرنے کے لیے نصابی کتب میں تبدیلی کر دی گئی ہے۔ اس بات میں اب کوئی حیرت نہیں ہوتی کہ عبدالغفار خاں جنھیں سرحدی گاندھی کہا جاتا تھا اور مولانا ابوالکلام آزاد جو مسلم لیگ کے مخالف ڈٹ کر کھڑے تھے اب ان کا نام کہیں سننے میں نہیں آتا۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ آر ایس ایس اور اس کے ملحقہ یونٹ جیسے کہ بی جے پی اور بجرنگ دَل کا نام جدوجہد آزادی میں نظر نہیں آتا اور نہ ہی انھوں نے آزادی کے لیے کسی قسم کی قربانی دی لیکن انھیں تحریک آزادی کا کردار ختم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے جو کہ نہ صرف آنے والی نسلوں سے بلکہ تحریک آزادی میں بے پناہ قربانیاں دینے والوں سے بھی بے انصافی ہو گی۔ (ترجمہ: مظہر منہاس)