ملک و ملت کے گلِ صدرنگ قاضی عدیل عباسی( آخری قسط)۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی

’’میں 1924 ء میں جب علی گڑھ میں داخل ہوا تو میں نے اس گروہ کا غبار دیکھا۔ کارواں جاچکا تھا۔ اس گروہ کا لقب ’’گرینڈی پارٹی‘‘ تھا یہ لوگ لڑکوں کے لباس رہن سہن بات چیت کھانے پینے ہر چیز پر نگاہ رکھتے تھے۔ مثلاً کیا مجال تھی کہ کوئی طالب علم بلا اجازت پورا لباس پہنے کہیں سڑک پر یا بازار میں چلا جائے۔ یہ ناممکن تھا کہ کوئی ایسی چیز علی گڑھ یونیورسٹی کے احاطہ میں ہوجائے جو اس کی بدنامی کا باعث ہو۔ اس سلسلہ میں ایک اپنا واقعہ بیان کردوں اس سے صحیح اندازہ ہو جائے گا کہ ان لوگوں کی نگاہ کتنی معمولی باتوں پر پڑتی تھی۔ میں جب علی گڑھ گیا تو تحریک خلافت ترکِ موالات اور جیل سے واپس آیا تھا۔ برابر کھدر پہنتا تھا یونیفارم کے حکم کی تعمیل میں چارآنہ کی کھدر کی ٹوپی خرید لی تھی اور کھدر کی ترکی کوٹ تھا اسے دو آنہ کے رنگ میں کالا رنگ دیا تھا۔ داڑھی کے بال بھی منھ پر موجود تھے اس ہیئتِ کذائی کا تخیل کیجئے اور علی گڑھ کی نفاست پسندی کو نظرمیں رکھئے۔ پھر پکی بارک ایس ایس ہال میں داخلہ لیا۔ میں نے گرینڈی پارتی کے غول کو غول بنائے سوٹ پہنے جاتے دیکھا کرتا تھا اور ڈرتا تھا کہ یہ لوگ ضرور مجھے ستائیں گے۔ کچھ دن گذر گئے میرے دل کی دھڑکن کچھ ٹھہرنے لگی۔ اچانک ایک روز مغرب کے بعد کمرہ ان لوگوں سے بھر گیا انہوں نے مجھ سے کہا کہ مولانا (علی گڑھ یونیورسٹی میں ہر اجنبی کو مولانا کہا جاتا تھا) آپ سے صلح ہوگی کہ جنگ؟ میں نے جواب دیا کہ میں جنگ کی طاقت کہاں رکھتا ہوں؟ تو انہوں نے کہا کہ اچھی بات یوں ہے کہ یا تو آپ کھدر پہننا چھوڑ دیجئے یا روز کپڑے بدلئے۔ ہم ایک دن سے زیادہ کھدر نہیں پہننے دیں گے۔ میں نے اقرار کرلیا کہ روزمرہ کپڑے بدل لیا کروں گا۔ پھر ہم نے 16 جوڑے بنوالئے۔‘‘ قاضی صاحب علیگ بن کر نکلے اور اس کے بعد مسلم یونورسٹی پر ہونے والے ہر حملے کے سامنے سینہ سپر ہونے والوں کی قیادت کی وہ وکالت بھی کرتے رہے اردو کی لڑائی بھی لڑتے رہے اور تنِ تنہا انہوں نے بچوں کی دینی تعلیم کے لئے اس وقت سوچا جب تک کسی نے بھی نہیں سوچا تھا۔ قاضی صاحب نے اس کام کی ابتدا اپنے گاؤں سے کی اور پھر ضلع بستی کے ہر گاؤں میں مکتب کھولنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لئے نہ قوم سے چندہ کی اپیل کی نہ سفیر بھیج کر دوسرے شہروں سے چندہ منگوایا۔ انہوں نے ہر مسلمان کے گھر میں ایک ہانڈی رکھ دی اور سمجھایا کہ یہ کیا ہے اور کہا کہ اسے چولھے کے پاس رکھا جائے اور جب کھانا بنے تو اس میں ایک مٹھی آٹا ڈال دیا جائے۔ اسی طرح ہر کھیت پر بورے رکھ دیئے کہ فصل کا گیہوں کھیت میں اٹھانے سے پہلے اس بورے میں جتنا ہوسکے غلہ رکھ دیا جائے۔ یہ قاضی صاحب کی محنت تھی کہ آٹھ ہزار مکاتب قائم ہوئے اور سولہ لاکھ بچے ان مکاتب میں تعلیم پانے لگے۔ اتنی بڑی کامیابی کے بعد قاضی صاحب نے بستی میں ضلع دینی تعلیمی کانفرنس بلائی جس میں اس وقت کے اکثر علمائے کرام اور اردو کے مجاہدوں کو بلایا اور دکھایا کہ اکیلے دم پر اتنا تو کردیا اب پورے صوبہ میں کیسے ہو؟ یہ سب لوگ مل کر فیصلہ کریں اور اسی اجلاس میں دینی تعلیمی کانفرنس بنانے کی تجویز پاس ہوئی جو آج تک سرگرم ہے۔ اور اتنی بڑی جنگ کے سپہ سالار نے اسی جدوجہد کے درمیان بھی اپنی یونیورسٹی کو فراموش نہیں کیا۔ وہ مسلسل مضامین لکھتے رہے اور گرجتے رہے۔ قاضی صاحب چومکھی لڑائی کے شاید ایسے اکیلے ماہر تھے جو روزی روٹی کے لئے وکالت کررہے تھے اردو اور مسلم یونیورسٹی کے لئے حکومت سے ہر مورچہ پر لڑرہے تھے اور پرسنل لاء پر مسلسل اس وقت لکھ رہے تھے جب بورڈ کا کسی کے دل میں خیال بھی نہیں تھا۔ اور وہی تھے جنہوں نے رویت ہلال کے مسئلہ پر سیرحاصل بحث کی۔ اور تاریخ خلافت بھی لکھ ڈالی۔ ’’تحریر بے عدیل‘‘ کے صفحہ 905 پر مسلم یونیورسٹی کے مسلسل مضمون کے آگے ایک مضمون ’’مسلم یونیورسٹی کی نوعیت‘‘ ہے یہ وہ مضمون ہے جو قاضی صاحب نے ہمارے اخبار ’’ندائے ملت کے مسلم یونیورسٹی کے نمبر کے لئے لکھا تھا اور صرف اسی میں چھپا تھا جو ضبط ہوگیا تھا۔ مسعود صاحب نے وہ مضمون جسارت کے ساتھ اس میں چھاپا ہے۔ اور انہوں نے خاص نمبر کا وہ پرچہ جو ہم نے بچا لیا تھا اور مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز کنونشن کے ذمہ داروں کو دیا تھا وہ پرچہ بھی عنایت کردیا۔ جسے انشاء اللہ رمضان کے بعد چھاپ کر دینا وہ فرض پورا کریں گے جو 52 سال پہلے کرنے کی کوشش کی تھی اور حکومت نے اخبار ضبط کرلیا تھا اور ہمیں 9 مہینے جیل میں رکھ کر رِہا کردیا تھا۔ رہائی کی خبر پر قاضی صاحب کا جو محبت نامہ آیا تھا وہ بھی خاصہ کی چیز ہے میں ان پر مضمون لکھوں اور اسے نظر انداز کروں یہ ناممکن تھا۔ ملاحظہ فرمائیں۔ ڈیئر حفیظ السلام علیکم ورحمۃ اللہ آپ گرفتار ہوئے جیل میں رہے تکلیفیں اٹھائیں کس لئے؟ علی گڑھ کے لئے قدرت نے سارے ہندوستان میں آپ ہی لوگوں کو آزمائش اور قربانی کے لئے منتخب کیا۔ میں نے دل میں جو کچھ بھی محسوس کیا ہو آپ کی کوئی خدمت نہیں کی، اس شرمندگی و شرم ساری کے ساتھ آج آپ کی رہائی پر کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ ہی آپ کو اس کی جزا دے۔ شاید آپ حضرات کی گرفتاری نہ ہوتی تو پبلک اور حکومت کی توجہ اس شدت کے ساتھ علی گڑھ مسئلہ پر مبذول نہ ہوتی۔ سائنس کا یہ مسلمہ مسئلہ ہے کہ فضا میں کوئی چیز تحلیل ہوکر فنا نہیں ہوتی مہابھارت کی لڑائی میں ہتھیاروں کی جو جھنکار ہوئی تھی وہ اب بھی گونج رہی ہے۔ اسی طرح دماغِ انسانی کے بارے میں جدید تحقیق یہ ہے کہ اس میں گراموفون ریکارڈ کی طرح کل واقعات اور آوازیں محفوظ رہتی ہیں۔ کھلی تار کے چھیڑنے پر وہ سب پھر سے سنائی دیتی ہیں یہی حال دنیا کے ان معاملات کا بھی ہے جن کو سیاست یا امور ملکی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جو چیزیں علی گڑھ کی تبدیلی میں حائل ہوں گی ان میں آپ کا کارنامہ بلند جگہ رکھتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ’’شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم‘‘ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو آپ کے ساتھیوں کو صحت و عافیت عطا فرمائے۔ آمین اپنے تمام ساتھیوں کو میرا سلام و نیاز کہہ دیجئے گا قاضی محمد عدیل عباسی جنرل سکریٹری دینی تعلیمی کونسل لکھنؤ قاضی عدیل عباسی نے مسلم پرسنل لاء کے بارے میں سب سے پہلے 5 نومبر 1955 ء کو انگریزی ہفتہ وار ’’میسیج‘‘ دہلی میں ایک مقالہ لکھ کر سب کو چونکا دیا تھا مولانا عبدالماجد دریابادی نے 19 نومبر کے صدق جدید میں لکھا تھا کہ قاضی صاحب ساری ملت کے شکریہ کے مستحق ہیں۔ قاضی صاحب نے لکھا ہے کہ۔ ’’پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے اسپیشل میریج بل کا انطباق مسلمانوں پر کس درجہ خطرات اور زہریلے امکانات سے بھرا ہوا ہے۔ بل کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر مرد خواہ وہ کسی مذہب کا ہو جس مذہب کی بھی عورت سے چاہے شادی کرسکتا ہے۔ اور اسی طرح ہر عورت خواہ وہ کسی مذہب کی ہو جس مذہب کے بھی مرد سے شادی کرسکتی ہے۔ اور قانون ہر ایسے عقد کو جائز تسلیم کرے گا یہ صاف شریعت اسلامی میں مداخلت ہے۔ شریعت نے مسلم عورت کا عقد تو غیرمسلم مرد کے ساتھ سرے سے ناجائز رکھا ہے اور مسلم مرد کو بھی اجازت صرف فلاں فلاں مذہب والی غیرمسلمہ کے ساتھ دی ہے۔ اس حد کو توڑنا اور شریعت کے حدود میں دخل دینا ناروا جسارت قانون کی ہے اور مداخلت فی الدین کی ایک صریح و روشن مثال ہے۔ جمعیۃ علماء اگر ایسے کھلے ہوئے مسئلہ کو پوری قوت اور توجہ کے ساتھ اپنے احتجاج کا مرکز نہ بنائے گی تو پھر کون سا مسئلہ رہے گا؟ مقالہ نگار نے یہ بھی بہت باموقع یاد دلا دیا ہے کہ فساد کی اصل جڑ جس کی گانٹھ تو دستور ہند باب 4 کی دفعہ 44 ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ حکومت شہریوں کے لئے ایسے ضابطۂ دیوانی کی کوشش کرے گی جو سارے ملک کے لئے یکساں ہوں۔ یعنی ایسا دیوانی قانون جس میں ہندو مسلمان وغیرہ کی کوئی تفریق ہی نہ ہوگی اور ایسا قانون جو اسلامی ضابطۂ اخلاق و نکاح و میراث وغیرہ کی ذرا پرواہ نہ کرے گا۔ جب سیکولر حکومت کا نصب العین یہی ٹھہرا تو ایسے قانون کے پاس ہوجانے میں حیرت ہی کیا؟ ایسے شریعت شکن قانون تو آئے دن ہی پاس ہوا کریں گے۔ اصل ضرورت اسی دفعہ 44 کو دستور ہند سے مٹانے و بدلوانے کی ہے۔ لیکن دس میں کامیابی اگر سردست دشوار ہو تو کم سے کم اس اسپیشل میریج والے قانون کی پرزور و مدلل مخالفت پر جمعیۃ علماء، امارت شرعیہ بہار اور ہر صوبہ کے ہر مذہبی اور نیم مذہبی ادارے کو پوری ہمت و مستعدی کے ساتھ منظم ہوجانا چاہئے۔ صدق جدید 19 نومبر 1954 ء قاضی صاحب نے پرسنل لاء پر جو مضامین لکھے ہیں وہ بھی کتاب کے 100 صفحات میں سما سکے ہیں قاضی صاحب نے 1954 ء میں آواز اٹھائی تھی اور جن خطرات کی نشاندہی کی تھی وہ رفتہ رفتہ اب اس مقام پر آگئے ہیں کہ مسلمان علماء کو آر پار کی لڑائی لڑنا پڑرہی ہے۔ افسوس کہ آج قاضی عدیل عباسی نہیں ہیں۔ ورنہ شاید بورڈ بنتا تو اس میں صرف پانچ آدمی ہوتے۔ کتاب میں رویت ہلال پر سیرحاصل بحث بھی ہے اور قاضی صاحب کا مختصر سفرنامہ حج۔ اور سب سے زیادہ اہم چیز ’’تاریخ ترکی پر ایک اچھٹی نظر‘‘ ہے تحریک خلافت پر کوئی کتاب نہ اس سے پہلے لکھی گئی اور نہ اس کے بعد کسی نے ہمت کی قاضی صاحب سے سب سے پہلے مولانا منظور نعمانی نے نہ جانے کتنی بار فرمائش کی کہ تحریک خلافت کی تاریخ لکھ دیجئے۔ اسی لئے کہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے جس میں گاندھی جی اپنے پورے وجود کے ساتھ شریک تھے اور مولانا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی قیادت میں یہ تحریک ہر مسلمان کے سینے کی دھڑکن تھی۔ قاضی صاحب نوعمر تھے لیکن مستند صحافی تھے اور مجاہد تھے۔ وہ خود بھی شروع سے آخر تک شریک رہے۔ اور قاضی صاحب نے ملت کا یہ قرض بھی اتار دیا۔ میں نے صرف یہ کوشش کی ہے کہ ’’بے عدیل‘‘ جس کے معنیٰ بے مثال ہیں ان کا تعارف کرادوں۔ اخبار کے محدود صفحات میں زیادہ بھر دیا جائے تو بدہضمی ہونے کا ڈر رہتا ہے۔ لیکن اخبار کا ہر مالک مجید حسن نہیں ہوتا اور تمام منتظم زمیندار پنجاب کے منتظموں جیسے نہیں ہوتے۔ آج یہ آخری قسط اس لئے ختم نہیں کررہا ہوں کہ قاضی صاحب کا پورا تعارف ہوگیا۔ وہ تو 1600 صفحات میں بھی جب نہ ہوسکا تو ان کالموں میں کیا ہوگا؟ کتاب کا آخری حصہ خطوط کا ہے۔ وہ خط جو قاضی صاحب کے نام آئے اور وہ خطوط جو قاضی صاحب نے لکھے ان کو جس نے نہیں پڑھا وہ قاضی صاحب سے پورا واقف نہیں ہوسکتا۔ 1600 صفحات کی کتاب کا یہ ہلکاسا تعارف ہے میں نے صرف یہ دکھانا چاہا ہے کہ جو عدیل نام کا بچہ ایک مہینہ ملیریا میں مبتلا رہا اور اس کا علاج صرف یہ ہوا کہ قصۂ چہار درویش اسے سنایا گیا۔ وہ اپنے بل پر اس مقام پر کیسے پہونچ گیا کہ ملک و ملت اس کو 20 ویں صدی میں وہ مقام دینے پر مجبور ہوئے جو اس کے چند فرزند ہی پاسکے۔ اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے آمین۔