یہ شخص وفادار تیرا ہے کہ نہیں ہے

Bhatkallys

Published in - Other

01:03PM Wed 18 Mar, 2015
ازافادات: حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم مہتمم دارالعلوم دارالعلوم دیوبند ترتیب: محمد اویس رشادی الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ النبی الکریم اما بعد: عن عبد اللہ بن عباسؓ کنت ردف النبی ؐ فقال یا غلام! احفظ اللہ یحفظک احفظ اللہ تجدہ تجاھک فاذا سألت فسأل اللہ واذا استعنت فاستعن باللہ واعلم ان الامۃ لو اجتمعت علی ان ینفعوک بشئی لم ینفعوک بشئی الا ما کتب اللہ لک ولو اجتمعت علی ان یضروک بشئی لم یضروک بشئی الا قد کتب اللہ علیک رفعت الاقلام وجفت الصحف۔ (ترمذی) وقال النبی ؐ للمسلم علی المسلم ست خصال وقال فی آخر الحدیث وینصح لہ اذا غاب واذا حضر۔ محترم علماء کرام، بزرگان ملت، میرے ہم وطن بھائیوں اور برادران اسلام ! اس مسجد میں یہ میری پہلی حاضری نہیں ہے اس سے پہلے بھی کئی بار آپ حضرات کی خدمت میں حاضری کاموقع ملاہے اور گفت وشنید کرنے کا موقع ملا ہے، خاص طور سے اس جگہ سے انسیت کا ایک سبب اور ایک محرک یہ بھی ہے کہ یہاں تلاش معاش کے لئے روزی کے سلسلے میں ہمارے شہر کے بہت سے حضرات مستقل آباد ہوچکے ہیں یا یہاں طویل مدت سے ٹہرے ہوئے ہیں ہمارا انکا کا رشتہ بھی ایمان کا رشتہ ہے اور یہاں کے قدیم باشندے کا بھی وہی رشتہ ہے اور ایک ایمان والے کا دوسرے ایمان والے کے اوپر کچھ حق ہوتا ہے۔ حضرت نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ للمؤمن علی المؤمن ست خصال ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے اوپر چھ حق ہے ان چھ حقوق کو آپ نے اس طرح بیان فرمایا کہ سلم علیہ اذا لقیہ یشمتہ اذاعطس یعودہ اذا مرض ویتبع جنازتہ اذا مات وینصح لہ اذا غاب واذا حضر ویجیبہ اذا دعاہ او کما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔(طبرانی) (۱) سلام کرنا فرمایا کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر چھ حق ہے جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے ملے تو وہ اسکو سلام کرے چاہے ان میں کوئی آپس میں کوئی تعارف ہو یا رشتہ داری ہو یا کچھ بھی نہ ہو لیکن یہ رشتہ ہے کہ وہ بھی کلمہ پڑھنے والا ہے اور یہ بھی کلمہ پڑھنے والا ہیں وہ بھی مسلمان ہے اور یہ بھی مسلمان ہے لہذا اس کا یہ حق ہے کہ ہم اسکو سلام کریں اس انتظار میں نہ رہیں کہ وہ سلام کرے گا تو ہم سلام کریں گے ہم بڑھ کر سلام کریں ہم نے دانستہ سامنا ہونے کے باوجود سلام نہیں کیا تو ایک مسلمان نے ایک حق سے پہلو تہی کی ، (۲) مزاج پرسی دوسرا حق یہ بیان فرمایا کہ یعودہ اذا مرض، جب کوئی مسلمان بیمار ہوجائے تو اسکی مزاج پرسی کے لئے جائے اسکی عیادت کرے اس کے گھر جاکر اسکی خبر گیری کرے اسکے مستقل آداب بیان کئے گئے اسکا ثواب بیان کیا گیا، (۳) جنازہ میں شرکت ویتبع جنازتہ اذا مات اگر کسی مسلمان کا انتقال ہوجائے تو اللہ کی رضاء کے خاطر ثواب حاصل کرنے کی نیت سے اس مسلمان کے جنازہ میں جاکر شرکت کرے، (۴) رحمت کی دعا دے ویشمتہ اذا عطس کسی مسلمان کو چھینک آئی وہ الحمدللہ کہے تو اسکے جواب میں یرحمک اللہ کہکر اسکو رحمت کی دعا دے، (۵) حق دعوت حاضری دینا ویجیبہ اذا دعاہ کوئی مسلمان اپنے یہاں دوسرے مسلمان کو دعوت دے تو اسکی دعوت کو قبول کرے کوئی شرعی مانع نہ ہو کوئی ایسا سبب نہ ہو کہ اسکی دعوت کو قبول نہیں کیا جاسکتا تو مسلمان کا حق ہے کہ اسکی دعوت کو قبول کرلے اور اسکے یہاں حاضری دے دے کھانا ضروری نہیں ہے حاضری دینے سے اسکی دعوت کا حق ادا ہوگیا جی چاہے کھائے جی چاہے معذور کردے ۔ (۶)خیر خواہی ایمان کا مدار ہے آخری حق یہ بتا یا کہ وینصح لہ اذا غاب واذا حضر اس ٹکڑے کو بیان کرنا اصل مقصود ہے فرمایا ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ بھی حق ہے کہ اسکی خیر خواہی کرے اسکا بھلا چاہے چاہے وہ سامنے موجود ہو چاہے وہ غائب ہو سامنے سب بھی بھلا چاہتے غیر موجودگی میں بھی بھلا چاہے اس بات کو نبی کریم ؐ نے بڑی اہمیت کے ساتھ الگ الگ عنوان سے بار بار بیان فرمایا ہے بلکہ ایک روایت میں تو اسکو ایمان کا معیار اور مدار قرار دیا ہے آپ نے فرمایا کہ لایؤمن احدکم حتی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ، کوئی تم میں سے اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے، ظاہر ہے ایک مسلمان مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنے لئے بھلائی چاہے گا دنیا کا بھی بھلا چاہے گا اور آخرت کا بھی بھلا چاہے گا تو ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر مسلمان کے لئے یہی چاہے اور اسکے چاہنے کا اثر اسکے عمل سے ظاہر ہو۔ مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ الدین النصیحہ دین تو خیر خواہی کا نام ہے قلنا لمن یا رسول اللہ کس کے حق میں خیر خواہی؟ کس کے حق میں اخلاص؟ قال للہ ولرسولہ ولکتابہ ولامام المسلمین وعامتہم فرمایا کہ اللہ کے ساتھ اخلاص، اللہ کے رسول کے ساتھ اخلاص ، اللہ کی کتاب قرآن کے ساتھ اخلاص مسلمانوں کے جو حاکم ہیں انکیساتھ اخلاص اور مسلمانوں کے ساتھ اخلاص وخیر خواہی۔ میرے بھائیو! یہی وہ رشتہ ہے جو کھینچ کر آپ کے پاس لایا ہے اور آپ سے بات کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ زندگی امانت ہے میرے بھائیو اور بزرگو! اللہ تعالی نے ہم کو یہ مختصر سی زندگی عطا فرمائی یہ اللہ کی امانت ہے اور اسکے ایک ایک لمحہ کا اللہ کے یہاں حساب بھی دینا ہے خاص طور سے زندگی کا قیمتی زمانہ یہ جوانی کا وقت ہے الگ سے حساب دینا ہے۔ لاتزول قدما ابن اٰدم یوم القیامۃ حتی یسأل عن خمس (ترمذی) قیامت میں مومن کا قدم اس وقت تک ٹل نہیں سکتا جب تک کے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرلئے جائیں اور اسکا جواب نہ دے دے ۔ عن عمرہ فیما افنا عن شبابہ فیما ابلاہ عمر کے بارے مین پوچھا جائے گا کہاں گذاری جوانی کے بارے میں پوچھا جائے گا کہاں خرچ کی۔ وعن مالہ فیما اکتسبہ واین انفقتہ مال کے بارے میں پوچھا جائے گا کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا ۔ وماذا عمل فیما علم دین کی کتنی باتیں علم میں آئیں اور ان پر کتنا عمل کیا اسکا بھی سوال ہوگا۔ یہ شخص وفادار تیرا ہے کہ نہیں ہے میرے بھائیو! ہم جانور نہیں انسان ہیں اور انسان میں وہ انسان ہیں جو اللہ اور اسکے رسول ؐ پر ایمان رکھتے ہیں ہم نے کلمہ پڑھا ہے ہم نے اپنے گلے میں قلادہ ڈالا ہے وہ قلادہ ہے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔کیا معنی ہے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا ؟کیا یہ صرف ایک سطر کا ایک جملہ ہے۔ نہیں، یہ پوری زندگی کا ایک سودا ہے لاالہ الا اللہ، اللہکے علاوہ کوئی معبود نہیں ہماری پوری زندگی اسکی اطاعت اور اسکے حکم حکم کو پورا کرنے میں گذرے گی محمد رسول اللہ ؐ محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں آپ کی سیرت آپ کی سنت اور آپکی تعلیمات ہماری زندگی کی شاہراہ ہوگی اس سے ہٹ کر نہیں چلیں گے یہ کلمہ پڑھکر ہم نے اپنے آپ کو پابند کیا ہے اس لئے قیامت کے دن اسی کا سوال ہوگا، آپ کے ہی شہر میں بنارس کے مشہور شاعر جوہر بنارسی جو غالبا انتقال کر گئے ان کی نعت کا ایک شعر تھا۔ حاصل ہے حسابات قیامت کا بس اتنا یہ شخص وفادار تیرا ہے کہ نہیں ہے یعنی ایک شخص جو کلمہ پڑھنے والا محمد رسول اللہ ؐ کا امتی ہے حشر میں جتنا حساب کتاب ہوگا سب کا حاصل یہی ہوگا کہ اس نے وفاداری کے ساتھ گذاری ہے کہ نہیں۔ تو چودہ سو برس پیچھے کو ہٹ جا میرے بھائیو! یہ جو بیانات ہوتے ہیں جلسے ہوتے ہیں وعظ کی مجلس ہوتی ہے اجتماعات ہوتے ہیں ان سب کا حاصل یہی ہے کہ ہمارا جو سبق ہے ہم کو یاد دلایا جائے اپنی ذمہ داری ہمیں یاد دلائی جائے کوئی نئی بات نہیں دین ہمارا ۱۵۰۰ سال پرانا ہے یہی اسکی کامیابی کی ضمانت ہے جہاں اس سے قدم ہٹے گا نئی چیز کو دین میں داخل کرینگے تو تباہ ہونگے وہ رد کردئے جائینگے۔ رسول اللہ ؐ نے خود ارشاد فرمایا من احدث فی دینناھذا مالیس منہ فھو رد(بخاری ومسلم) جو شخص ہمارے دین میں نئی چیز لائے گا وہ رد کردیا جائے گا، تو دین ۱۵۰۰ سال پرانا ہے اور زمانہ ہے کہ آگے بڑھ رہا ہے۔ تو چودا سو برس پیچھے کو ہٹ جا شاعر نے کہا کہ جب تو چودہ سو برس تھا اب تو پندرہ سو برس کا فاصلہ طے کر چکے ہیں زمانہ ہے کہ آگے پڑھ رہاہے تو پندرہ سو برس پیچھے کو ہٹ جا یہ دیکھو کہ ہمارا قدم اس راستہ سے ہٹ تو نہیں رہاہے ہم اس سے جڑے ہوئے ہیں کہ نہیں کوئی مقرر کوئی واعظ آپ کے سامنے نئی بات نہیں کہے گا اگر وہ نئی بات ہوگی تو قابل قبول نہیں ہوگی فذکر فان الذکر تنفع المؤمنین اللہ جل شانہ نے یہی کہا ہے کہ یاددلاتے رہئے تذکیر کرتے رہئے یاد دہانی ایمان والے کو نفع دیگی۔ کامیابی کا مدار میرے بھائیو! میں آپکو آپ کا سبق یاد لانے کے لئے بیٹھا ہوا ہوں اور خاص طور سے میں پھر عرض کروں گا کہ ہمارے وہ بھائی جنہوں نے اپنا وطن چھوڑا اپنے خاندان کو چھوڑا، مکانات کو چھوڑا پردیس کی زندگی انہوں نے اختیار کی تھوڑا سا چین تھوڑا سا سکون اور تھوڑی سی آسائش اختیار کرنے کے لئے، میرے بھائیو! ذرا غور کرو ایک مسلمان کی حقیقی آسائش کیا ہے مسلمان کی حقیقی کامیابی کیا ہے یہاں کی چند روزہ زندگی کا سکون یا اچھا شان یا اچھا کھانا یا روزی کی فراوانی یا اچھی سواری یہ تو کچھ اور لوگ ہونگے جنکی کامیابی کا مدار یہ ہے۔ ایک مؤمن کی کامیابی کا مدار تو یہ ہے کہ دنیا سے اس حال میں جائے کہ اسکا اللہ اس سے راضی ہو اسکا اللہ اس سے خوش ہو شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں بڑی عجیب ہی فرماتے ہیں، یادکن وقتِ زادنِ توکہ ہمہ خنداں وتو گریاں وچناں زی کہ وقتِ مردنِ تو ہمہ گریاں و تو خنداں فرماتے ہیں کہ کچھ یاد ہے جب تو پیدا ہوا تھا دنیا میں آیا تھا سب لوگ ہنس رہے تھے خوشیاں منارہے تھے تو تو رورہا تھا، بچہ پیدا ہوتا ہے تو روتا ہوا آتا ہے یہی رونا اسکی صحت کی ضمانت ہوتی ہے جو بچہ پیدائش کے وقت نہ روئے وہ کمزور ہوگا بیمار ہوگا دماغ کے اعتبار سے فیل ہوجائیگا یہ رونا اسکی صحت کی ضمانت ہے فرماتے ہیں شیخ سعدیؒ کہ جب تو دنیا میں آیا تھا سب لوگ ہنس رہے تھے اور تو رورہا تھا تیرے سامنے مختصر سی زندگی ہے ، زندگی کو تو اس طرح گذار جب تو دنیا سے جارہا ہوتو سب لوگ رورہے ہوں اور تو ہنس رہا ہو۔’’ہم چناں زی کہ وقت مردن تو ہم گریاں شوند تو خنداں‘‘ کہ اس طرح زندگی گذار کہ تیرے جدائی کے وقت سب لوگ رورہے ہوں اور تو ہنستا ہوا دنیا سے جارہا ہو تب تو نے زندگی بڑی کامیاب گذاری۔ جاری۔۔۔۔ ع،ح،خ