سچی باتیں۔۔۔ اطاعت امیر۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

08:57PM Sat 17 Sep, 2022

 1930-12-05

کانگرس کے اجلاسِ لاہورؔ کو کچھ ایسا بہت زمانہ نہیں گزرا۔ ایک سال کے اندر ہی کی بات ہے۔ صدر جلسہ جواہرلال نہروؔ تھے، جو آج تک کانگرس کے صدر چلے آرہے ہیں۔ یہ یادرہے، کہ اِن کی صدارت کیونکر عمل میں آئی تھی؟ انھوں نے خود اپنا نام پیش کیاتھا، یا اپنے دوستوں سے پیش کرایاتھا؟ یاد نہ رہاہو، تو ذرا حافظہ کو تازہ کرلیجئے۔ یہ اجلاس ۲۹ء کا تھا، جواہر لالؔ کا نام اس سے بھی ایک سال قبل   ۲۸ء کی کانگریس کی صدارت کے لئے مختلف صوبوں کی کانگرس کمیٹیوں کی طرف سے پیش ہونا شروع ہوگیاتھا ، اور قریب تھا کہ سب کا اس پر اتفاق ہوجائے۔ گاندھی جیؔ کی مصلحت شناسیاں راہ میں حائل ہوئیں، اُنھوں نے بیٹے کی جگہ باپ کا نام پیش کیا، اور سب کا اتفاق موتی لالؔ پرہوگیا۔   ۲۹ء آیا، تو ہرطرف سے، ملک کے گوشہ گوشہ سے، ہرہر صوبہ سے زور پڑنا شروع ہوا، کہ ابکی سال خود گاندھی جی صدارت کریں۔ درخواستیں، عرضداشتیں، اخباری مضامین، زبانی اصرار، سب ہی کچھ ہوا، اور ہوتارہا، لیکن گاندھی جیؔ کا انکار قائم رہا۔ اپنے بجائے جواہر لال ؔ کو پیش کیا، اور کہا کہ’’ان کی صدارت عین میری صدارت ہے‘‘۔ سب نے سنا، اور سب نے قبول کرلیا۔

میدان ’’مقابلہ‘‘ میں دو فریق موجود۔ لیکن کیسے دوفریق؟ ایک دوسرے کی بات بنانے والے، ایک دوسرے کی عزت کو اپنی عزت سمجھنے والے۔ ہر حریف، دوسرے کا حلیف۔ ایک طرف سے ادب واحترام، دوسری طرف سے شفقت ومحبت۔ نہ یہ اُس کی عزت کا خواہاں، نہ وہ اِس کی آبرو کے درپے۔ نہ پمفلٹ بازی نہ اسٹیج آرائی۔ نہ مجادلہ نہ مباہلہ۔ نہ مضحکہ نہ تالیاں۔ نہ گالیاں نہ لاٹھیاں۔ شریفوں کی رواداری، انسانوں کی مروت، دوستوں کی عالی ظرفی، ایک ’’بڑے‘‘ کا نام پیش ہوا، اور بہ اصرار تمام پیش ہوا۔ وہ ’’بڑا‘‘ فرطِ انکسار سے، یا کسی قومی مصلحت سے پیچھے ہٹا، اور تاج اُٹھاکر ایک ’’چھوٹے‘‘ کے سرپر رکھ دیا……چشمِ فلک نے اِس منظر کو دیکھا، دنیا نے ’’ڈسپلن‘‘ اور تنظیم کے اس نمونہ کو نظارہ کیا، سوال یہ ہے، کہ سات کرور مسلمانوں نے بھی اُسے دیکھا؟

صدارت کے بھوکے، اور نظامت کے پیاسے، مسلمانوں نے اِسے دیکھا؟ عہدہ پر جان دینے والے، اور ممبری پر کٹ مرنے والے مسلمانوں نے اسے دیکھا؟ مسلم لیگؔ نے اور خلافت کمیٹی ؔ نے، جمعیۃ العلماءؔ نے، اور اہل ’’تنظیمؔ‘‘نے، محمودآبادؔ نے اور سلیم پورؔ نے، زمیندارؔ نے اور الامانؔ نے، اسے دیکھا؟ ……صحابہ کرام کا خلوص، اور اولیاء کاملین کا ظرف، ہم میں باقی نہیں رہا ، نہ سہی۔ دوسروں کو درسِ ہدایت دینے کی قابلیت ہم سے سلب ہوگئی ، یہ بھی سہی۔ پر یہ گمان کسے ہوسکتاتھا ، کہ اپنے زمانہ کے منکروں اور ملحدوں سے سبق لینے تک کی اہلیت ہم سے رخصت ہوجائے گی؟