لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی

Bhatkallys

Published in - Other

03:14PM Tue 15 Nov, 2016
از: حفیظ نعمانی بات زیادہ دن پرانی نہیں صرف ۱۹ مہینے پرانی ہے کہ نریندر بھائی مودی نے بالکل اسی انداز ، اسی لہجے اور اتنی ہی لجاجت سے قوم سے کہا تھا کہ مجھے حکومت دے دو اور صرف سو دن دے دو تو میں وہ لاکھوں کروڑ کالادھن دنیا کے بینکوں سے نکال کر لاؤں گا جو نہرو گاندھی پریوار اور ان کے ساتھیوں نے ۴۰ برس میں جمع کیا ہے۔ پھر دیکھنا کہ ہر کسی کے نام کے کھاتے میں ۱۵ لاکھ روپے آجائیں گے اس لیے کہ یہ روپیہ سرکارکا نہیں آپ کا ہے۔ اور اس سے بھی 20مہینے ہوئے ہیں کہ ایک سنیاسی بابا رام دیوکے پاس ایک موٹا تھیلا ہوتا تھا۔ اس میں فائلیں تھیں جنھیں کھول کر وہ سبق سنایا کرتا تھا کہ کتنا کتنا کس کس بینک میں ہے اور کس کس نے جمع کیا ہے؟ او ر یہ بابا ہی کہا کرتا تھا کہ مودی مجھے اس لیے پسند ہیں کہ ان کی جورو نہ جاتا وہ روپیہ لے کر کیا کریں گے؟ وہ بھی ایک سادھو ہیں۔ اور کہا کرتا تھا کہ اگر وہ روپیہ آگیا تو ہمارے ملک کے روپے کی قیمت ڈالر نہیں پونڈ کے، برابر ہوجائے گی جو آجّ ۸۰ روپے کا ہے اور پھر ملک میں ڈھونڈے کوئی غریب نہیں ملے گا۔یہ دو آوازیں تھیں جنھوں نے ملک کو اندھا کردیا اور ہر کسی نے آنکھ بند کر ووٹ دے دئے اور ہر ایماندار ہندو اور مسلمان اس کی سزا بھگت رہا ہے۔ ۱۹مہینے کی حکومت میں وزیر اعظم نے دکھادیا کہ ۲۰۱۴ء میں جو کچھ انھوں نے کہا تھا وہ جانتے تھے کہ نہیں ہوگا مگر انھوں نے کہا جیسے مہنگائی جیسے داغی ممبر پارلیمنٹ سال بھر کے اندر جیل میں ہوں گے،جیسے اچھے دن، جیسے نوجوانوں کو روزگار اور۲۰۲۳ء تک ہر کسی کو پکا گھر۔ جسکا مطلب یہ ہے کہ وہ جان بوجھ کر دھوکہ دیتے ہیں۔ ہم نے ان کے فیصلہ کی تعریف کی تھی اور کہا تھا کہ ’’مگر مخالف پارٹیاں کہیں گی کہ اپنی پارٹی کے پیٹ بھردئے ہوں گے اور ثبوتوں کے ساتھ کہا جارہا ہے کہ مودی کے آدمیوں کو معلوم تھا اور کئی جگہ نوٹ بند ہونے سے پہلے دو ہزار کے نئے نوٹ ہاتھوں میں دیکھے گئے۔ مودی صاحب کے بارے میں تجربہ بتاتا ہے کہ وہ بھروسہ کے قابل نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ۱۰ مہینے کی تیاری کے بعد یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ ۱۰ مہینے کی تیاری یہ ہے کہ ۵ دن کے بعد اخبار چھاپ رہے ہیں کہ ۵سو کا نیا نوٹ آگیا ۔یعنی ۵ دن پورے ملک کے سو کروڑ آدمیوں نے بغیر ۵ سو کے نوٹ کے زندگی گذاری۔ بینک سے جس نے نوٹ بدلے وہ اس دو ہزار کے نوٹ کو باہر آکر دکھارہا ہے کہ میں اس کا کیا کروں؟جو چیز خریدنے جاتاہوں وہ ٹوٹے روپے کہاں سے لائے۔ جبکہ ۵ سو کا نوٹ پہلے آنا چاہیے تھا۔ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ اگر نہیں جانتے کہ سرکاری ملازم سے زیادہ حرام خورمخلوق دنیا میں دوسری نہیں ہے تو انہیں حکومت کا کیا حق ہے؟ انھوں نے حکم دے دیا کہ بینک آٹھ بجے کھل کر ۸بجے بند ہوں گے۔ لائن لگانے والوں نے ۶بجے آکر لائن لگائی۔ ۱۰بجے بینک کھلا تو جواب دیا کہ بیوی بچوں کو چھوڑ کر ذ را وزیر آکر دکھائیں؟ دن میں نوٹ بدلے جیسے بدلے وہ بھی ملک نے جان لیا۔ ۵؍ بجے بند کرکے کہہ دیا کہ کیش ختم ہوگیا۔ ATMمشینیں یاخراب یا نوٹوں سے خالی۔ وزیر خزانہ بے شرمی سے کہہ رہے ہیں کہ دو لاکھ مشینیں ہیں مگر نئے نوٹوں کا سائز دوسرا ہے۔ وہ فٹ نہیں ہورہے ۔ ڈاکخانہ نے جواب دیا کہ ہمارے پاس نوٹ نہیں آئے۔ نہ جانے کتنے پرائیویٹ بینکوں نے کہا کہ تھوڑے تھوڑے آتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں۔ ۴۸ گھنٹے صبر کرلیا گیا ۔ لوگ تعریف کرتے رہے اور لائنوں میں کھڑے رہے اور جب یہ دیکھا کہ لائنیں لمبی ہوتی جارہی ہیں اور ۵سو کے نوٹ نہیں ہیں اور ہر جگہ یہ ہورہا ہے کہ کیش ختم ۔ کیش نہیں ہے۔ اب کل آئے گا۔ تب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور کہا گیا کہ جب حکومت کرنا نہیں آتی تو کیاشوق ہے حکومت کرنے کا؟ اور پھر گالیاں شروع ہوئیں ماں کی بہن کی اور جتنی جس کو آتی تھیں اتنی اس نے دے دیں۔ جگہ جگہ پتلے پھونکے جانے لگے۔ وہ بھارت جس کے ذرہ ذرہ سے مودی مودی کی آوازیں آیا کرتی تھیں ان ہی ذروں سے تری ماں کا اور تری بہن کا اور یہ کہ ملک چھوڑ کر کیوں بھاگ گیا؟ کی آوازیں آنے لگیں۔ یہ وہی ادا ہے جو اندراگاندھی کی تھی کہ بارود کے ڈھیر میں آگ لگائی اور امریکہ چلی گئیں۔ دھون جو اب دیتے دیتے رودیتے تھے۔ اتنے اہم معاملہ کے بعد کیا حق تھا جاپان جانے کا یا ملک چھوڑ کر بلٹ ٹرین اور ہواٹرین کے سودے کا؟ وہ صرف یہ دکھانا چاہتے تھے کہ نوٹوں کا بند کرنا کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے۔ معمولی بات ہے جسے جیٹلی دیکھ لیں گے جبکہ یہ اتنی بڑی چوٹ ہے کہ جن کو دھنّا سیٹھ وہ کہہ رہے ہیں ان کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ وہ واقعی روٹی نہیں ملے گی تو کیک کھا لیں گے۔ سب سے بڑی پریشانی ان کی ہے جو غریب ہیں، مزدور ہیں اور خوش حال بھی ہیں اور سفید پوش ہیں، شریف ہیں اور ان کے پاس یا بینک میں جو بھی ہے وہ دودھ اور چاندی کی طرف سفید ہے لیکن ان کی دکانوں میں مکھیاں بھن بھنا رہی ہیں اور ان کی بہو بیٹیاں زندگی میں پہلی بار سیکڑوں ، ہر طرح کے مردوں کے درمیان لائن میں گھنٹوں سے کھڑی ہیں اور جب ان کا نمبر آتا ہے اور وہ ۱۰ ہزار کا چیک دیتی ہیں کہ یہ دے دیجئے تو جواب ملتا ہے کہ چار چار ہزار والوں کی لائن جب ختم ہوجائے تب آنا۔ اور وہ مودی کی بات دہراتی ہیں کہ ایسے لوگ ہفتہ میں ۱۰ ہزار دو بار نکال سکتے ہیں تو جواب ملتا ہے تو پھر مودی سے ہی لے آؤ۔ اگر مودی صاحب نے ۲۰۱۴ء میں جو جو کہا تھا وہ کردکھایا ہوتا اور سو دن میں کالا دھن لا کر دکھادیا ہوتا تو ہم کہتے کہ 55دن دے دئے جائیں لیکن انھوں نے ایک بات بھی کرکے نہیں دکھائی تو ۵۰دن دینے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اپنے خلاف تلواروں پر دھاررکھنے کا موقع دیا جائے جو خوکشی سے بد تر ہے۔ انھوں نے جس دن اعلان کیا تھا اسی دن قوم سے ۵۰ دن کیوں نہیں مانگے؟ اور ۴۸ گھنٹے کی افراتفری سے ڈر کر ۷۲ گھنٹے پرانے نوٹ چند مقامات پر چلنے کا گھبراکر اعلان کیوں کیا؟ انھیں نہ اس وقت اندازہ تھا، نہ ۷۲ گھنٹے کے بعد اندازہ ہوا اور نہ ۵۰ دن کے بعد کے حالات کا انہیں ا ندازہ ہے۔ نریندر مودی صرف وزیر اعظم نہیں ہیں، وہ بی جے پی کی ریل کے انجن بھی ہیں۔ اگر وہ صوبائی انتخاب میں فریق نہ بنتے ہوتے تب بھی کہا جاسکتا تھا کہ وہ ملک کے لیے کررہے ہیں۔ اب کیسے کہہ دیں کہ وہ ایماندار ہیں۔ انھوں نے مخالفوں کو کمزور کرنے اور اپنی فوج کو طاقت ور بنانے کے لیے وہ سب کیوں نہیں کیا ہوگا جو وہ کرسکتے ہیں؟ اگر مودی نے لوک سبھا کا الیکشن لڑتے باقی الیکشن پارٹی پر چھوڑ دیتے تو گنجائش تھی کہ ایماندار مان لیا جائے۔ ہر سیاسی آدمی سمجھ رہا ہے کہ اترپردیش کا الیکشن ۲۰۱۴ء کے الیکشن کے برابر اہم ہے۔ اگر مودی اسے نہیں جیت پائے تو ہمارے سپنوں کا نہیں اپنے سپنوں کا بھارت نہیں بناپائیں گے۔ جس میں ہندتّو کا راج ہوگا۔ مودی صاحب جذباتی ہوگئے یا مودی صاحب رودئے اب ایسی نوٹنکیوں کا اثر کسی پر نہیں ہوگا۔ وہ جن کو للکار رہے ہیں وہ نہ سونیا کے ہیں نہ لالو اور ملائم کے اور نہ مایا اور ممتا کے وہ اقتدار کے کتے ہیں جو پہلے سونیا کے سامنے دم ہلاتے تھے اور اب مودی کے سامنے دم ہلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے لائن میں ایک بھی نہیں۔