آنگ سانگ سوچی اور روہنگیا مسلمانوں کی اُمیدیں!

Bhatkallys

Published in - Other

11:50AM Tue 28 Jun, 2016
برما کی حکومت کے کام پر بات کی جائے تو ایک بات واضح ہے کہ کوئی خاص پیش رفت روہنگیاکے عوام کے لیے دیکھنے میں نہیں آئی۔ مغرب نے نئے ہونے والے انتخابات کو بڑی مسرت کے ساتھ دیکھا تھا جس میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (NLD) کی سربراہی آنگ سانگ سوچی نے کی تھی (جو کہ نوبل انعام یافتہ ہیں)۔ مگر مغربی ریاست اراکان کے مسلمانوں کے لیے جنہیں اقوام متحدہ نے ’’ دنیا کی سب سے زیادہ ظلم کا شکار اقلیت ‘‘ کہا ہے، برما کا نیا دور مایوس کن حالات سے دو چار کچھ نیا نہیں ہے، جس کے مزید بدتر ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ روہنگیا کے مسلمانوں نے برسوں سے تشدد، اخلاقی اقدار کی پامالی کو برداشت کیا ہے جو کہ برما کی سابقہ فوجی حکومتوں کے ہاتھوں کی گئی، (جسے نسل کشی بھی کہا جا سکتا ہے)۔ سب جانتے ہیں کے میانمارکی نئی راہنما بھی ان کی حالت زار کی جانب کوئی خاص توجہ نہیں دے رہی۔ اس نے تو ا ن کو اپنے ناموں سے پکارنے سے بھی انکار کردیا، اس ڈر سے کہ کہیں اسلام مخالف بدھ مت اکثریت جو کہ آخری انتخابات میں ایک بڑی طاقت تھی، ناراض نہ ہوجائے۔ مگر یقیناً یہ ۱۹۶۰ء کے بعد سے برما کی پہلی عوامی حکومت ضرور ہے، جو کہ خونی اور جابر جرنیلوں سے بہتر ہے۔ مئی میں ایک خبر آئی تھی کہ برما کے وزیر خارجہ (جو کہ اب آنگ سوچی کے ماتحت ہیں)نے امریکا کے قونصل خانے سے درخواست کی تھی کہ روہنگیاکی اصطلاح استعمال نہ کی جائے کیونکہ یہ ایک متنازعہ معاملہ ہے اور ’’ایسے الفاظ کا استعمال ریاستِ اراکان کے مسئلے کو مزید الجھا دے گا ‘‘۔ امریکانے اس درخوست کو رد کردیا کیونکہ یہ درخواست ناقابل قبول تھی۔ اراکان کے لوگ روہنگیاکو ’’بنگالی‘‘ کہنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں، اس طرح وہ انہیں غیر قانونی بنگالی مہاجرین قرار دیتے ہیں۔اسی طریقے سے انہیں میانمار کے مرکزی دھارے سے باہر رکھا جاتا ہے۔ جان کیری (سیکرٹری اسٹیٹ امریکا) کے دورے کے بعد سوچی اپنے موقف کی طرف پلٹ گئیں اور بیان دیا کہ ان کی حکومت اس بات پر اتفاق کرتی ہے کہ ایسی اصطلاحات استعمال نہ کی جائیں، جو فساد کا سبب بنیں۔مگر جو دیکھا اور محسوس کیا گیا اس کے مطابق انہوں نے کسی کو اس پر عمل درآمد کے لیے نہیں کہا (نہ بدھ راہبوں کو، نہ سپاہیوں کو اور نہ ہی قانون ساز طبقے کو )۔ روہنگیا کے مسلمان اس بات سے بھی مایوس ہوئے ہیں کہ امریکی صدر اوباما نے حال ہی میں برما کے خلاف پابندیوں میں نرمی کا اعلان کیا ہے تاکہ وہ جمہوریت کے دعویدار ہونے کا ثبوت دے سکیں۔ مگر انہوں نے روہنگیا مسلمانوں سے زیادتی کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ روہنگیا مسلمانوں کو امن مذاکرات سے نکال دیا جائے گا کیونکہ نئی حکومت ملک کی دیگر نسلی اقلیتوں کو ساتھ کرلے کر چلے گی، جس میں کاچین،چن،کیرن اور شان ریاستیں شامل ہیں۔ یہ طریقہ کار سابقہ حکومت کے صدر Thein Sein سے لیا گیا اور اس کا مقصد تھا کہ دیر پا امن و سکون کو قائم کیا جاسکے جو کہ برطانیہ سے ۱۹۴۸ء میں آزادی کے بعد حاصل کیا تھا سوچی نے ایک اور pang-long طرز کی امن کانفرنس کا کہا ہے، اس بات کو دوبارہ اجاگر کرنے کے لیے جو ان کے والد جنرل اونگ سینز نے ۱۹۴۷ میں اپنے قتل سے پہلے فسادات کرنے والے چند گروہوں سے کی تھی۔ حالیہ امن مذاکرات میں صرف ان گروہوں کو شریک کیا جارہا ہے جو ۱۹۸۲ء کے متنازعہ فوجی ایکٹ کی روشنی میں مقامی افراد کہلاتے ہیں، ’’روہنگیا‘‘ اس ایکٹ کے تحت مقامی شہری نہیں ہیں، اس لیے ان کو اس امن عمل سے باہر رکھا جائے گا۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکومت صرف روہنگیا کے مسئلے کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ برما کے نئے صدر’’ ہیٹان کیاؤ ‘‘نے اراکان ریاست میں امن و امان اورترقی کے لیے ایک کمیٹی بنائی ہے، جس کا نام ’’مرکزی کمیٹی برائے امن و ترقی، ریاستِ اراکان‘‘ ہے، جو کہ ۲۷؍ارکان پر مشتمل ہے جس میں بیورو کریسی اور ریاست اراکان کے نمائندے بھی شامل ہوں گے،اس کی سربراہی آنگ سوچی خود کریں گی۔ لیکن روہنگیا مسلمانوں کو اس بات کا خطرہ ہے کہ یہ صرف بیوروکریسی کی ایک چال ہے تاکہ کوئی موثر فیصلہ نہ کیا جاسکے، اور انہیں ڈر ہے کہ ان کے معاملات کو زیر غور لایا ہی نہیں جائے گا۔ دوسری طرف حکومت اس بات کے لیے بھی کوشاں ہے کہ وفاقی طرز کا آئین مرتب کیا جائے جو کہ دیگر نسلی اقلیتوں کو مطمئن کرسکے۔ حکومتی جماعتNLD میں اقلیتوں کے لیے نرم گوشہ تو موجودہے جو کہ صرف Kachin, Karen کے لیے تو مفیدہے مگر روہنگیا کے لیے ان کے ہاں ہمدردی کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ NLD میں روہنگیا کی کوئی ترجمانی بھی نہیں ہے۔بلکہ پچھلے کئی سالوں میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ انتخابات کے بعدسے اب تک ملک میں کوئی ایک بھی مسلم قانون ساز موجود نہیں، حالانکہ مسلمانوں کی تعداد برما میں ۳ملین سے بھی زیادہ ہے۔ آنگ سانگ سوچی جانتی ہیں کہ برما میں کوئی سیاسی حلقہ روہنگیا کی مدد کے لیے نہیں آئے گا اور ان کا کوئی مسلح گروہ بھی نہیں ہے۔ خدشہ اس بات کا ہے کہ اس موضوع کو دبانے کا بھاری نقصان ہوسکتا ہے کیونکہ حالات ویسے ہی مخدوش ہیں۔ آبادی سے جدا کرکے انہیں ویسے ہی پناہ گزین کیمپ میں محدود کردیا گیا ہے، ان کے روزگار چھین لیے گئے ہیں۔ Ambia Parveen، روہنگیا سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر جو جرمنی میں کام کر رہی ہیں، ان کے اندازے کے مطابق ۹۰فیصد روہنگیا کے افراد بنیادی صحت کی ضروریات سے محروم ہیں۔ محمد سعد محمود (ہارورڈ یونیورسٹی) نے اپنے حالیہ تحقیقی مطالعہ میں بتایا ہے کہ اراکان اور روہنگیا کے درمیان بڑے پیمانے پر تفاوت موجود ہے۔ یہاں ایک لاکھ ۴۰ ہزار افراد پر صرف ایک معالج ہے، مگر اراکان ریاست میں ۶۸۱؍ افراد پر ایک ڈاکٹر موجود ہے۔ غذائی قلت ۲۶ فیصد لوگوں کو متاثر کرتی ہے جبکہ یہی تعداد اراکان میں ۱۴ فیصد ہے۔ اگرروہنگیا نے کسی بھی معاملے میں حکومت کا ساتھ دینا چھوڑ دیا، تو وہ پھر دوبارہ کشتیوں کا رُخ کریں گے اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں پناہ ڈھونڈیں گے۔ اندرونی اور بیرونی دباؤ کی عدم موجودگی میں مسئلہ کیسے حل کیا جاسکتا ہے؟؟ اب یہ امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ سوچی پر دباؤ ڈالیں اور معاملے کو حل کروائیں۔ مغربی طاقتوں نے وسیع پیمانے پر نہ صرف اس حکومت کی مدد کی بلکہ حکومتی جماعت کی بھی مدد کی، تاکہ سوچی کی جمہوری حکومت کامیاب ہو سکے۔ مگر اس سب کے باوجود یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ ایک ملین روہنگیا مسلمان بھی جمہوریت کا حصہ ہیں۔ اور اگرچہ وہ موجودہ آئین کے تحت’’شہری‘‘ نہیں بھی ہیں مگر پھر بھی حکومت کو انہیں بتدریج مرکزی دھارے میں لانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ اگر حکومت انہیں شہریت دے دیتی ہے تو کم ازکم آمریت کا قائم کردہ نام نہاد ’’ نسل اور مذہب کا حفاظتی قانون‘‘ ختم کیا جاسکتا ہے (جو کہ ۲۰۱۵ ء میں پاس ہوا تھا)۔ یہ قانون قوم پرستوں اور انتہا پسند بدھ راہبوں کی تحریک سے متاثر ہوکر بنایا گیا تھا، جس کا مقصد مسلمانوں کی آزادی کو سلب کرنا تھا۔ اگر اس قانون کو جبراً نافذ کیا گیا تو مزید تناؤ پیدا ہوگا۔ NLD جب اپوزیشن میں تھی تو انہوں نے اس قانون کی مخالفت کی تھی مگر اب جب وہ حکومت میں ہیں تو انہیں اس کو ختم کرنا چاہیے، تاکہ واضح طور پر اعلان کیا جاسکے کہ روہنگیا بھی ان کے ملک کا حصہ ہیں۔ ملک کی دیگر اقلیتوں کو بھی اس موقف کی حمایت کرنا چاہیے۔ ان سب میں جغرافیائی اور سیاسی طور پر بہت دوریاں موجود ہیں، ان فاصلوں کو کم کرنا ہو گا۔حالیہ سالوں میں روہنگیا کا معاملے جس طرح پوری دنیا میں اٹھایا گیا ہے، اتنا شاید اپنے ملک میں بھی اجاگر نہیں کیاجا سکا۔ بجائے اس کے کہ روہنگیا مسلمان حالات کے بہتر ہونے کا انتظار کریں، انہیں چاہیے کہ دیگر اقلیتوں کے ساتھ رابطہ استوار کریں تاکہ ان کامعاملہ مزید مضبوط موقف اور حمایت کے ساتھ ابھر سکے۔ جب تک برما کے اندرونی سیاسی معاملات صحیح نہیں ہوں گے، تب تک حالات کا تبدیل ہونا ممکن نہیں۔ (ترجمہ :عبدالرحمن) “Aung San Suu Kyi Is in Power. So Why Is She Ignoring Her Country’s Most Vulnerable People?”. (“Foreign Policy”. June 9, 2016 )