یہ وقت کا تقاضہ ہے (شکیل رشید)

Bhatkallys

Published in - Other

04:16PM Sun 6 Sep, 2015
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ’دین دستور بچائو تحریک‘ شروع ہوگئی ہے۔ اس تحریک کی ہر سطح پر حمایت کی جانی چاہئے۔ حمایت آج کے اس ’یرقانی‘ دور میں مزید ضروری ہوگئی ہے۔ ’راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے سارے ملک پر اپناتسلط قائم کرنے کے لیے ہر محاذ سے لڑائی شروع کردی ہے۔ کبھی وہ اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کو فرقہ وارانہ تشدد کی وارداتوں سے ڈارتی ہے، کبھی پولس کی خاکی وردی کا خوف اس کے دلوں پر بٹھاتی ہے اور کبھی اسے بے وقوف بناکر اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے اسے تسلی دے کر جھوٹے وعدوئوں سے بہلاتی ہے۔ فریب اور دھوکہ دینے کے لیے اس کے ترکش میں جتنے بھی تیر ہیں وہ ان سب کے استعمال کو جائز سمجھتی ہے اور ہر تیر چلا رہی ہے۔ پہلے یہ سمجھیں کہ آر ایس ایس کے تسلط کا مطلب کیا ہے؟ آر ایس ایس کا تسلط یہی ہے کہ ہندوستان بھگوا یعنی زعفرانی رنگ میں رنگ جائے۔چونکہ کوئی رنگ اپنے طور پر برا نہیں ہوتا اس لیے ہم اسے یرقانی رنگ کہتے ہیں۔ تو آر ایس ایس یہ چاہتی ہے کہ سارا ملک اور ملک کے سارے شہری ’یرقانیت‘ کو ماننے لگیں۔ ’یرقانیت‘ کو ماننے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ شہری ملک کے جمہوری نظام کو ٹھکرادیں ، سیکولر اقدار کو رد کردیں اور آپسی بھائی چارہ کو طاق پررکھ دیں۔ صرف ایک خاص مذہب اور خاص تہذیب باقی رہ جائے اورباقی سارے مذاہب اور ساری تہذیبیں حاشیہ پر پہنچادی جائیں۔ سماجی، تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی شناختیں مٹ جائیں صرف ایک شناخت جسے ’ہندوتوا‘ کا نام دیا جاسکتا ہے باقی رہ جائے۔ اگر ہم ملک کے گزشتہ چودہ مہینوں کے حالات پر نظر ڈالیں تو یہ بات صاف صاف نظر آجائے گی کہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت اور وزرا اپنے اپنے طور پر یہی کوشش کررہے ہیں۔ ایک کوشش نصابی کتابوں کو مسخ کرکے کی جارہی ہے۔ تاریخ کی کتابوں کو مسخ کیاجارہا ہے۔ من مانی تاریخ بنائی جارہی ہے۔ من مانی تہذیب کا پرچار کیاجارہا ہے۔ دوسری کوشش سرکاری اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں ان افراد کی بھرتی کی شکل میں ہے جو مسخ تاریخ پڑھ کراور ایک مخصوص مذہب اور مخصوص تہذیب کو اپنے ذہن میںبساکر منظر عام پر آتے ہیں اور بھر پور کوشش کرتے ہیں کہ اہم عہدئوں پر جب متمکن ہوں تو دوسروں کے مذہب اور دوسروں کی تہذیب کو اپنے اعمال اور افعال اور اپنی سرگرمیوں سے ملیا میٹ کردیں۔ تیسری کوشش مسلسل اشتعال انگیزیوں اور فرقہ وارانہ تشدد کی وارداتوں سے کی جارہی ہے۔ ڈر اور خوف کا ایسا جال بُناجاتا ہے کہ کوئی نہ کوئی غریب ’گھر واپسی‘ کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ ایمان اور عقیدہ پر جو مضبوطی سے جما نہ ہو اس کے لیے دوسرے مذہب میں ’پناہ‘ لے لینا اس کے اپنے خیال میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔ ایمان اور عقیدے کو لوٹنے کے لیے اوربھی جال بُنے گئے ہیں، سنیما، ٹی وی، تفریحی کتابیں، تعلیمی ادارے، اور مسلسل جاری رہنے والا پروپیگنڈہ کہ اس ملک کو ’ہندو راشٹر ‘ میں تبدیل کردیاجائے گا۔ یہ وہ حالات ہیں جو مسلمانوں سے ایمان اور عقیدے کی حفاظت کے لیے ہر ممکنہ کوشش کا تقاضہ کرتے ہیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ، اس کے صدر حضرت مولانا سید رابع حسنی صاحب کی، کارگزار جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی کی اور حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی کی اور ان کے رفقاء کی یہی کوشش ہے کہ سنگھ پریوار نے یہ جو ایمان اور عقیدہ چھین لینے کی مہم شروع کی ہے اس پر ایک روک لگائی جائے۔ ’دین اور دستور بچائو تحریک‘ اسی کا ایک حصہ ہے۔ ہر مسلمان کو ، ہر مسلم لیڈر اور ہر مسلم تنظیم کو چاہئے کہ وہ اس تحریک کی حمایت کرکے اس کو عام کرے۔ یہ وقت کا تقاضہ ہے۔ (مضمون نگار بصیرت میڈیا گروپ کے گروپ ایڈیٹرہیں)