ابھی تک تن اردو ہی میں پڑے ہوئے ہو ۔۔۔۔ تحریر : ندیم صدیقی

جامعہ ملیہ اسلامیہ (دہلی) کے پروفیسر خالد محمود معروف ہی نہیں ایک امتیازی تشخص کے حامل ادیب و شاعر ہیں۔ اخبار کےلئے ان سے ایک گفتگو ہو رہی تھی تو انہوں نے ایک افسوس ناک بات ہمیں سنائی۔ کہنے لگے:’’ جب میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا تو میرے کمرے میں اُردو کی کتابیں بکھری ہوئی تھی کہ اسی دوران ہمار ے ہاں ایک بزرگ رشتے دارخاتون کا آنا ہوا، اتفاق سے وہ میرے کمرے میں تشریف لائیں اور جب اُنہوں نے میرے اِرد گرد اُردو کی کتابیں بکھری ہوئی دیکھیں تو اُن کے منہ سے برجستہ جو جملہ نکلا وہ میرے لئے ناقابلِ فراموش ہے۔ کہنے لگیں: ابھی تک تم اُردو ہی میں پڑے ہوئے ہو؟‘‘ اس جملے کے پیچھے اپنی زبان ، اپنے ادب وغیرہ کے تعلق سے کس درجہ احساسِ کمتری ہے۔۔۔ اُردو کے مشہور جدید شاعر زیب غوری نے ایک جگہ لکھا تھا کہ وہ نو عمری میں بڑے خوش گلو تھے۔ اُن کے والد اور علامہ ثاقب کانپوری آپس میں دوست تھے، جب علامہ ثاقب اپنے دوست کے گھر جاتے تو اکثر اوقات زیب مرحوم سےسراج اورنگ آبادی کی مشہورِ عالم غزل(۔۔ جو رہی سو بے خبری رہی) سنتے تھے اور سَر دُھنتے تھے۔ یہاں ہم اپنا بھی ایک واقعہ رقم کرتے چلیں کہ 1964 یا1965 کی بات ہے کہ ہم اپنے کسی سینئر دوست کے ساتھ بیکن گنج(کانپور) میں واقع کسی باذوق شخص کے گھر ہونے والی شعری نشست میں گئے تھے جہاں شریفؔ متھراوی ترنم سے غزل سنا رہے تھے اور ایک نہایت وجیہ اورقد و قامت کے حامل شخص ان کے ایک شعر ( کل شب کی تاریک فضا میں شہر کے کچھ زرداروں نے÷ ایک فقیر کو لوٹ لیا ہے ، آؤ چل کر دیکھیں تو) پر رونے لگے اورشریف متھروای سے اُنہوں نے وہ شعر کم از کم تین چار بار تو سناہوگا۔ ہم اس وجیہ شخص کے رونے سے بڑے حیران ہوئے کہ یہ صاحب ہیں کون کہ انہیں اس شعر پر گریۂ شدید طاری ہوگیا تو ہمارے دوست نے بتایا کہ یہ مشہور شاعر زیبؔ غور ی ہیں۔ زیب غوری کا گِریہ ہم آج تک نہیں بھولے جب ان سے کئی برس بعد باقاعدہ ملاقات ہوئی تو ہم نے ان کو یہ واقعہ سنایا تو وہ پھر افسردہ ہوگئے اور کہنے لگے کہ ’’ میاں! میں کیا کروں کہ میری طبع ہی اللہ میاں نے ایسی بنائی ہے ۔‘‘ زیب مرحوم سے کئی ملاقاتیں رہی ہیں کانپور میں بھی اورممبئی میں بھی۔ ہم نے محسوس کیا کہ وہ قلبِ رقیق اور دلِ درد مند کے حامل شخص تھے۔ کلاسیکل شاعری کا ان کامطالعہ اچھا خاصا تھا وہ کلاسیکی شاعری پرگفتگو بھی کر لیتے تھے سچ تو یہ ہے کہ ہماری پروفیسر مخلوق کے افراد تو ان کے اس مطالعے کے سامنے طفلِ مکتب بھی نہیں کہے جاسکتے۔ یہاں اس تذکرے سے مراد یہ ہے کہ زیب غوری کے زمانےمیں ہمارا معاشرہ زبان و ادب کی کس منزل پر تھا۔!! ہم اپنے بزرگوں کے مقابلے میں بظاہر خاصے ترقی یافتہ کہے جاتے ہیں اُس زمانے میں موبائیل، انٹر نیٹ یا فیس بک کا تصور تک نہیں تھا جو تھا وہ اخبارات و رسائل اور کتابیں ہی تھیں۔ فون بھی کسی کسی کے پاس ہوتا تھا۔ یاد آتا ہے کہ جب کراچی میں زیب غوری کا 1985 میں انتقال ہوا تو کانپور کے لوگ کئی دن تک اس سانحۂ ارتحال سے بے خبر رہے۔ کہنا یہ ہے کہ اُس دور تک ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا نام کی کوئی چڑیا تھی ہی نہیں مگر لوگ اپنی زبان و ادب اور تہذیب سے خوب خوب واقف ہوتے تھے ۔ اب یوں ہے کہ ہماری ہم عمر اور کچھ نئی نسل کےلوگ کاغذ کی کتابیں نہیں بلکہ اپنے موبائیل یا کمپیوٹر پر ڈاؤن لوڈ کی ہوئی کتابیں پڑھ رہے ہیں۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ زیب کے والد اور ثاقب کانپوری جیسے بزرگوں کو تو جانے دِیجیے، زیب غوری جو جدید تعلیم سے بہرہ وَر تھے ،اگر آج زندہ ہوتے اور ان سے کہا جاتا کہ زیبؔ صاحب! آپ بھی کتابیں ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھا کیجیے تو یقین ہے کہ وہ ہمیں جاہل سمجھتے اور کہتے کہ ’’ میاں !یہ ڈاؤن لوڈ کیا ہوتا ہے۔؟ ‘‘ زیب مرحوم کے دو دوست اور ثاقب صاحب کے فرزندگان میں ابوالحسنات حقی اور ابوالبرکات نظمی بہ حمد للہ حیات ہیں ہمیں نجانے کیوں یقین ہے کہ یہ ’’ ڈاؤن لوڈ‘‘ والی چڑیا کا، ہو سکتا ہے نام تو جانتے ہوں مگریہ حضرات ڈاؤن لوڈ کی ہوئی کتابیں پڑھنا تو کجا دیکھتے بھی نہ ہونگے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ پڑھنے لکھنے کے شعبے سےمتعلق ہیں ان میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو باقاعدہ ان اصطلاحوں اور ان سہولتوں سے مستفید ہو رہے ہیں مگر ان میں سے اکثر کا یہ عمل اُس طرح نہیں ہوگا جس طرح کل لوگ کتابیں ہاتھ میں لے کر سونے سے پہلے بستر پر یا کرسی پر بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ ہمارے پڑھنے والوں میں ایسے کئی افراد ہونگے جنہوں نے کتابوں کے تعلق سے مشہور شاعر گلزارؔ کی وہ نظم ضرور سنی ہوگی جو اسی کاغذی کتابوں کا مرثیۂ جدید ہے۔ حیرت تو ہمیں اس وقت ہوئی تھی جب آڈیٹوریم میں گلزار کو سننے والوں میں نئی نسل کے افراد کی تعداد خاصی دیکھی اور انہوں نے گلزار کی نظم کے کلائمکس پر جس طرح سے تالیاں بجائی تھیں وہ منظر کم از کم ہماری آنکھوں کو ضرور نم کر گیا۔ ہمارے کرم فرما اور مشہور صحافی ،شاعر و ادیب نصرت ظہیر نے اسی موضوع پر ہماری گزشتہ تحریروں پر، ماضی کے آموختے سے کچھ اختلاف سا کیا ہے اور کہا ہے کہ اب نئے دَور کی ایجادوں سے ہمیں سمجھوتہ کرلینا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ نصرت صاحب جو کہہ رہے ہیں وہ صائب مشورہ ہو ، چلیے ہم نے قبول کیا مگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس سمجھوتے کے عوض کن کن چیزوں کی قربانی دینی ہوگی۔ !! ہر چند کہ نصرت ظہیر صاحب نے اپنے میل کے اختتام پر جو کچھ لکھا ہے وہ بھی ہماری ہی کیفیت کا مظہر بنا ہوا ہے کہ ’’ پھر بھی یار، کتاب کا لمس، اور اس لمس سے پیدا ہونے والی ہم رشتگی، اور اس رشتے سے جنم لینے والا قرأت کا جمالیاتی حظ وہ چیزیں ہیں جو اِن ڈجیٹل کتابوں میں مفقود ہیں۔ ‘‘ یہ تو ہم بھی سمجھتے ہیں’ راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا‘۔۔۔ مگر ہمیں اپنی سنہری روایتوں کا تذکرہ تو کر لینے دِیجیے بھائی۔ شاید یہ بھی کل کسی کے کام کی چیز بن جائے۔ اب ایک خبر اور سُن لیجیے۔ معروف شاعر اور صحافی مقصود بستوی نے مطلع کیا ہے کہ کوئی اٹھارہ برس سے زائد مدت گزر رہی ہے جب وہ کانپور میں تھے اور بیکن گنج کے مشہور بازار جہاں زیب غوری رہا کرتے تھے۔ ’’ اسی بازار سے زیب کی کتابیں ایک کباڑ ی سے پچاس روپے میں خریدی تھیں اس میں سیپ،نیا دَور(کراچی) جیسے رسائل کے خصوصی نمبر بھی شامل تھے اور ان کتب ورسائل پر زیب غوری کے دستخط تھے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کتابیں کباڑی تک کیسے پہنچیں ۔؟‘‘ یہ باتیں تو اٹھارہ برس پرانی ہیں، اس مدت میں ہماری نئی نسل نے تو بہت ترقی کر لی ہے مگر اپنے بزرگوں کی روایات اور ادب و آداب میں یہ کتنے آگےیا کتنے پیچھے ہے؟ کیایہ بات سوچنے کی نہیں ہے۔؟؟