آتشِ نفس کی یاری نے مجھے خاک کیا۔۔۔ از: حفیظ نعمانی

ہمارے ملک میں جو پارٹی بنتی ہے وہ بنتے ہی آل انڈیا ہوجاتی ہے۔ 2012 ء کے صوبائی الیکشن سے پہلے ایک ڈاکٹر جو مشہور سرجن تھے ان کو نہ جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے مسلمانوں کی ایک پارٹی بنالی اور نام رکھا پیس پارٹی اور پوری طرح الیکشن میں کود پڑے یہاں تک کہ شیخ چلی کی طرح اپنے کو وزیر اعلیٰ بنا لیا اور ایک ہندو کو وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعلیٰ بنانے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے وہ راستہ اختیار کیا کہ جو مایاوتی کرتی ہیں کہ ٹکٹ اس اعلان کے ساتھ دیتی ہیں کہ 20 فیصدی دلت ووٹ بھی ان کو ملیں گے۔ ڈاکٹر صاحب جن کا نام محمد ایوب ہے انہوں نے بھی اعلان کیا کہ وہ ان سیٹوں پر جہاں مسلمان کم ہیں ہندو کو ٹکٹ دیں گے اور وہاں کے مسلم ووٹ ٹکٹ کے ساتھ انہیں مل جائیں گے۔
ٹکٹ لینے والے تو اندھے ہوتے ہیں یہ بات سب جانتے ہیں۔ اور پورے اُترپردیش میں انہوں نے ٹکٹ دیئے شہرت یہ ہوئی کہ انہوں نے مایاوتی کی طرح پیسے بھی لئے لیکن نہ ہم نے دیکھا نہ دیئے تو ہم کیسے کہہ دیں؟ لیکن ڈاکٹر ایوب نے الیکشن اتنی ہی طاقت سے لڑایا جتنی طاقت سے ملائم سنگھ اور مایاوتی نے لڑایا۔ اور وہ ہیلی کاپٹر سے پورے اُترپردیش میں گھومتے دیکھے گئے۔ لیکن نتیجہ یہ آیا کہ وہ خود تو جیت گئے اور تین ممبر بھی جیت گئے جو سنا ہے کہ تھوڑے دنوں کے بعد ان کو چھوڑکر بھاگ گئے۔
2017 ء میں وہ پچھلے الیکشن سے زیادہ دھوم دھام سے آئے ان کا سارا زور صرف اشتہار پر رہا اور دو مہینے تک گرماگرم بیان دیتے رہے جس میں کبھی دلت شامل ہوجاتے تھے اور کبھی خلیل آباد کی قسمت چمکانے والے ان کے بیٹے اور آخر میں مشہور صحافی عزیز برنی اپنے فوٹو کے ساتھ آئے اور انہوں نے سارا زور اسدالدین اویسی کو مسلمانوں کا دشمن قرار دینے اور ڈاکٹر ایوب کی قصیدہ خوانی میں گذاردی اور ڈاکٹر ایوب کو قائد اعظم بنا دیا۔ یہ اب تک نہیں معلوم ہوسکا کہ ڈاکٹر ایوب نے ان کو کتنا دلایا۔ یا کتنا دیا؟
اسی زمانہ میں ڈاکٹر ایوب کے بارے میں ایک بات اٹھی کہ ان کے اوپر کسی نے الزام لگایا ہے کہ اس کی بہن کو ڈاکٹر ایوب نے اپنے ساتھ رکھا اس کی آبروریزی بھی کی اور بعد میں اسے کوئی مہلک دوا دے دی جس سے اس کی موت ہوگئی۔ الیکشن کے زمانہ میں ایک دوسرے کے خلاف ہر طرح کے الزام لگائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ایوب نے بھی وہی کہا کہ میری مقبولیت سے گھبراکر میرے سیاسی مخالفوں نے یہ گندہ الزام لگایا ہے اور ہم نے بھی یہ سمجھا کہ ہوسکتا ہے کہ رائی کا پہاڑ بنا دیا ہو۔ ڈاکٹر بھی پورے الیکشن میں یہی کہتے رہے کہ الیکشن ختم ہوجائے تو میں جواب دوں گا۔
2017 ء کے الیکشن میں پورے اُترپردیش میں اویسی تو مسلمان ووٹوں کے لئے مسلم امیدوار کھڑے کرتے نظر آئے لیکن ڈاکٹر ایوب صرف نوٹ گنتے رہے کہیں سے بھی یہ سننے میں نہیں آیا کہ ان کے اور اویسی کے امیدواروں میں کہیں مقابلہ ہے؟ لیکن اس لڑکی کے مقدمہ کی خبر اور زور سے آنے لگی۔ ڈاکٹر صاحب نے شاید یہ سوچا ہوگا کہ حکومت تو بظاہر بی جے پی کی ہی بنے گی اور انہوں نے ان کی اتنی خدمت کی ہے کہ ان کو حکومت اپنے اثرات سے نکال لے گی۔ لیکن وہ برا دن آہی گیا کہ وہ جو قائد اعظم بنے تھے اور ڈاکٹر فریدی مرحوم کی مسلمانوں میں جگہ لینا چاہ رہے تھے وہ ایک لڑکی کی آبروریزی کے الزام میں گرفتار ہوکر جیل گئے۔ سیاست میں جیل جانا ایک ڈگری ہوتا ہے صحافت میں بھی ہر دوسرا قدم جیل میں ہوتا ہے اور ہم خود جو جیل میں نو مہینے گذار چکے ہیں اس ڈگری کی وجہ سے ملت کے محبوب ہوچکے ہیں۔ لیکن آبروریزی جسے لونڈیا بازی کہا جاتا ہے وہ اتنی ذلیل دفعہ ہے کہ جیل میں بھی جب کوئی دفعہ 376 میں جاتا ہے تو جیل کی بیرک میں اسے چور، ڈاکو، راہزن انتہا یہ ہے کہ گرہ کٹ بھی آواز دیتے ہیں کہ بھیجو سالے کو پاخانے کے پاس جو بیرک کے سب سے آخری کنارہ پر ہوتا ہے جیل میں جو ملزم جاتا ہے اس کا نام اور وہ دفعہ ہر وقت نام کے ساتھ پکاری جاتی ہے۔ اور رات بھر اسے وہ آوازیں آتی ہیں جن کو سن کر کوئی سو نہیں سکتا۔
لڑکی کے بھائی کا کہنا یہ ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ 2012 ء سے تھی اس کا تعلیم یافتہ ہونا اس خبر سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ پہلے ہاسٹل میں تھی۔ ڈاکٹر کے پاس نرسیں اور صفائی کرنے والی لڑکیاں ہوتی ہی ہیں لیکن پولیس نے جو تحقیق کی ہے وہ یہ ہے کہ 184 بار لڑکی نے ڈاکٹر ایوب کو فون کیا تھا اور 128 بار ڈاکٹر نے لڑکی کو فون کیا تھا۔ لڑکی اگر مریضہ تھی تو اس کا فون کرنا سمجھ میںآتا ہے جیسے ہم کہ 27 سال پہلے ڈاکٹر ایس کے دویدی نے ہمارے پیس میکر لگایا تھا اور انہوں نے ہی اپنا موبائل نمبر ہمیں دیا تھا کہ اچانک کوئی بات ہو تو صرف ہمیں فون کریں اس کے بعد 2013 ء میں ڈاکٹر دویدی نے ہی تیسرا پیس میکر لگایا ہے۔ اس دوران ہم نے درجنوں فون ان کو کئے ہیں۔ لیکن صرف ایک بار جب 2005 ء میں ہماری ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی تو ہم نے سحر نرسنگ ہوم سے ان کو فون کیا۔ اس کے بعد جواب میں انہوں نے کہا کہ آپریشن اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک میں اجازت نہ دوں۔ اور تین دن میں انہوں نے کئی ٹیلیفون کئے اور چوتھی رات کو اجازت دی کہ اب آپریشن کرالو۔ اس کے بعد سے آج تک پھر ان کا فون نہیں آیا۔ آپریشن سے پہلے وہ ٹسٹ کراتے رہے کہ خون گاڑھا ہوا یا نہیں؟
اگر وہ لڑکی نرس تھی یا ملازمہ تھی تو دو چار بار تو سمجھ میں آتا ہے 128 فون کوئی ڈاکٹر کسی جوان لڑکی کو کرے تو وہ صرف عیاشی ہے اور کچھ نہیں۔ ہم ڈاکٹر ایوب کو بس اتنا ہی جانتے ہیں جتنا انہوں نے اپنے اوراپنے خاندان کے بارے میں بتایا ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ ان سے پہلے ان کے گھر میں تعلیم کا نام بھی نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ اس ماحول کے لڑکوں کی ایسے ہی ماحول کی لڑکی سے شادی ہوجاتی ہے اور جب وہ وہاں پہونچتا ہے کہ ایک آپریشن کے 20 ہزار لینے لگتا ہے اور لہراتی ہوئی جوانیاں اس کے سامنے آتی ہیں تو وہ بھول جاتا ہے کہ میرے ہاتھ میں ہتھکڑی اور پاؤں میں بیڑی اسی دن ڈال دی گئی تھی جب ڈاکٹر اور سرجن کی ڈگری دی گئی تھی۔ اس کے باوجود جو انہوں نے کیا وہ بغاوت ہے۔ اور انہوں نے لڑکی یا لڑکیوں کی ہی آبرو تار تار نہیں کی انہیں تو ملت کی آبرو بھی تار تار کرتے بھی شرم نہیں آئی اور مسلمان اور اسلام کے نام کو اپنے نام اپنے بیان اور اپنی صورت سے تار تار ہی نہیں کیا بلکہ گجرات کے اس سابق وزیر داخلہ کے قدموں میں ڈال دیا جسے وزیر داخلہ ہوتے ہوئے جیل میں ڈال دیا گیا تھا اور ہر جگہ اس کی ضمانت ٹھکرادی گئی۔ پھر سپریم کورٹ نے ضمانت دی تو اس شرط پر کہ گجرات میں قدم نہیں رکھوگے۔ ایک اتنا بڑا مسلمان ڈاکٹر اور اتنی گندی حرکت کے جرم میں جیل جائے کاش اس دن سے پہلے پروردگار اُسے اُٹھا لیتا۔
Mobile No. 9984247500