وہ خائن ،لیکن میں اس سے بڑا خائن (از: مولانا الیاس ندوی بھٹکلی)

Bhatkallys

Published in - Other

01:46PM Mon 19 Oct, 2015
از: مولانا الیاس ندوی بھٹکلی وہ شہر کے معزز ترین لوگوں میں سے تھا، اس کا شمار سمجھدار ،عقل مند،صاحب رائے اور دیندار ودین پسند زعماء میں ہوتاتھا، اداروں کی امانتیں اس کے پاس جمع رہتیں ،وہ خود بھی صاحب حیثیت و خوش حال ہی نہیں بلکہ ایک کامیاب تاجر بھی تھا، شاید اس نے ایک دن اپنی ذاتی جمع پونجی کے ساتھ ادارہ کا اپنے پاس موجود سرمایہ بھی کاروبار میں لگادیاجوشومئ قسمت سے خسارہ کی نذر ہوگیا، اس کو دینی نقطۂ نظرسے ایسا نہیں کرناچاہیے تھا اور نہ اس نے اس جمع پونجی کو تجارت میں لگانے کی اجازت اس ادارہ سے لی تھی، جب ضرورت کے پیش نظر اس رقم کو لینے کے لیے اس سے رجوع کیاگیاتو وہ اس کو واپس نہیں کرسکا، غالباً مشرق وسطی کے اس مالی بحران کا وہ بھی شکار ہوگیا جس نے کچھ سالوں قبل اچھے اچھوں کو آسمان سے زمین پر راتوں رات پہنچادیا اور صاحب حیثیت بھی دیکھتے ہی دیکھتے قلاّش ہوگئے ۔ پھر کیا تھا،نہ صرف اس ادارہ میں بلکہ پورے شہر اورقوم میں اس کا چرچہ ہونے لگا اور چندہی دنوں میں اس کو قوم کے ان تمام اداروں سے چلتا کردیاگیا جس میں وہ تھا، یقیناًقومی اداروں میں اس کی برقراری کا کوئی جواز بھی نہیں تھا،ان صاحب کا جب بھی مجھے خیال آتاہے بڑا رحم آتاہے، اس لیے کہ ان کا ماضی کوئی خراب پس منظر بھی نہیں رکھتاہے ،ان کو یہ دن کیوں دیکھنے پڑے یہ عقدہ آج بھی میرے لیے لاینحل ہے ،شاید انھوں نے اپنی زندگی میں کوئی ایسی غلطی کی ہے جس کا خمیازہ انھیں آج بھگتنا پڑاہے، انھوں نے غالباً کسی کا دل دکھایاہے یاکسی کو عار دلایاہے جو اللہ کو ناپسند ہواہے۔ اس واقعہ کے بعد مسلسل میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگاکہ تم تو اس سے بڑے خائن ہو ، فرق صرف یہ ہے کہ مالیات میں وہ خائن نکلا،تم تودین کالبادہ اوڑھ کرروز دینی امور اور شرعی معاملات میں اس سے بڑی خیانت کا ارتکاب کرتے ہو، اس کاعیب ظاہر ہوگیااور وہ رسواہوگیا،لیکن اس سے بڑے خائن ہونے کے باوجود اللہ تعالی نے تمہاری ستاّری فرمائی۔ میں نے ذاتی طور پر اپنی پچھلی زندگی کا جائزہ لیا تو ایک سے بڑھ کر ایک دینی خیانت ذہن کی اسکرین پر سامنے نظر آنے لگی یہاں تک کہ میں کسی کو منھ دکھانے کے قابل نہیں رہا،میں یہ سوچ سوچ کراب پریشان ہونے لگا کہ اس وقت میرا کیا حال ہوگا جب اللہ رب العزت کے یہاں میری پیشی ہوگی، اس وقت میں اپنی ان خیانتوں کا نہ انکار کرسکوں گا اور نہ اس کو جھٹلاسکوں گااور اللہ معاف نہ فرمائے تو اس کی سزا مجھے بھگتنی پڑے گی۔ دس بارہ سال پہلے میں ایک دن ایک ادارہ کی مشاورتی نشست میں حاضر تھا ، وہ ایک اصلاحی اور دعوتی ادارہ تھا، نئے عہدیداران کے انتخاب کا مسئلہ تھا، سب سے اہم منصب وعہدہ کے لیے ایک صاحب بہت موزوں تھے، اپنی اصابت رائے ، دینداری اور بہت ساری خوبیوں کی وجہ سے پیش کردہ تمام ناموں پر ان کا نام بھاری تھا،لیکن چونکہ وہ میرے ذوق ومزاج اور مشرب کے نہیں تھے ، اس لیے میں نے ان کے بجائے ایک ایسے شخص کا نام پیش کردیا جو ان سے اچھا اور ممتاز تو تھا ہی نہیں بلکہ ان کے برابر بھی نہیں تھا،لیکن میں نے اپنے پیش کردہ نمائندہ کی خوبیوں کو اس طرح بیان کیا کہ حاضرین مجلس بھی قائل ہوگئے ، حالانکہ میرا ضمیر خود اندر ہی اندر مجھے ملامت کررہاتھاکہ تم نے محض مبالغہ سے کام لیاتھا،تمھیں ایسا نہیں کرناچاہیے تھا ،نتیجہ کیا تھا ۔۔۔؟ ادارہ کااس کی سربراہی میں اگلی میعاد میں کام تو چلتارہا لیکن کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی اور بہت سارے امکانی خیر کے کام ہونے سے رہ گئے، میرا دل آج بھی ملامت کرتے ہوئے مجھے پکار پکار کرکہہ رہاہے کہ رائے دینے میں اپنی اس خیانت کی وجہ سے اس کا خمیازہ قیامت کے روز تجھے ہی بھگتنا پڑے گا،الا یہ کہ غفور ورحیم آقاکی طرف سے معافی کاپروانہ ملے۔ ایک اہم ادارے میں ایک صاحب منتخب ہوئے، وہ ہراعتبار سے موزوں تھے ،چونکہ میری ان سے بنتی نہیں وہ میری خوشامد نہیں کرتے اور اپنے ادارہ میں اکرام واعزاز کے ساتھ جلسوں میں مجھے مدعو نہیں کرتے، اس لیے میں ہرجگہ ہرمجلس میں ان کے انتخاب پر انگلی اٹھاتاہوں اور ان کو ناکارہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کرتاہوں ،یہاں تک کہ وہ شریف النفس انسان ایک دن اپنے منصب سے استعفی دے کر الگ ہوجاتے ہیں اور وہ ادارہ ان کی صلاحیتوں سے محروم ہوجاتاہے ،ظاہر بات ہے کہ ان کے خیر سے دینی ادارہ کے محروم ہونے کا ذریعہ میں بنا اور میں اپنی قوم کا سب سے بڑا خائن نکلا۔ مجھے اپنے ادار ے کے کام سے اکثر باہر جاناپڑتاہے ،ایک دن صرف دیڑھ سوکلومیٹر پر واقع بیرون شہر جانے کی ضرورت پڑی ، میں بس یا ریل سے جاسکتاتھا لیکن ’’ مالِ مفت دلِ بے رحم‘‘ کے پیشِ نظر میں نے کار سے جانے کا فیصلہ کیا ، چھوٹی کارکرایہ پر مل سکتی تھی ، میں نے Innovaگاڑی بک کی اور وہ بھی A/Cوالی ، جب کہ نہ میرے گھر میں A/Cہے نہ میرے آفس میں ،نہ میں اس کا عادی ہوں اور نہ مجھے اس کے بغیر کوئی تکلیف ہوتی ہے، ایک ہزار میں ہونے والا کام میں نے5500/-میں مکمل کیا ، ادارہ کا 4500/-کا نقصان کیا ہر ماہ مجھے ایک دو دفعہ اس طرح سفر کی ضرورت پیش آتی ہے ، میں نے حساب لگایا تو ہرماہ دس ہزار کے حساب سے ایک سال میں ایک لاکھ اور گذشتہ مسلسل دس سال اس ادارہ میں رہنے کے بعد میں نے دس لاکھ روپئے اپنے متعلقہ ادارہ کے اپنی اس دینی خیانت سے ضائع کئے، میرے گھر میں24گھنٹے صرف پنکھاچلتاہے ،لیکن مجھے اپنے آفس میں A/Cچاہیے تھی، A/C لگانے سے پہلے آفس کا الیکٹرک بل صرف1000/-تھا ، اب حال یہ ہوگیا ہے کہ جب بھی آفس آتاہوں تو میرا بٹن پہلےA/C آن کرنے کے لیے بڑھتاہے ، نتیجہ یہ ہے کہ الیکٹرک بل اوسطاً 2500/- ہوگیاہے، دس سال اگر میں زندہ بھی رہا تو دوڈھائی لاکھ روپئے میں نے محض اپنی لذت نفس اور تعیش کے لیے ادارے کے پیشگی ضائع کردئیے، خود اپنے لیے میں جب ترکاری یا فروٹ خریدنے بازار جاتاہوں تو دوکان در دوکان چکر لگاکرتھک جاتاہوں ، صرف یہ دیکھنے کے لیے 120/-روپئے کا سیب 110/-میں کس دوکان میں ملے گا،60/-کا مرچ 50/- روپئے میں کہاں دستیاب ہو گا،لیکن جب مجھے اپنے دفتر کے لیے فرنیچر کی ضرورت ہوئی تو شہر کی سب سے بڑی دوکان میں جاکر سب سے دلکش خوشنما اور چمکتی میز لے آیا تاکہ آنے والوں پرمیری شان اور آن بان کا اچھااثر قائم ہو۔ میرے گھرمیں جب مہمان آتے ہیں تو چائے اور شربت کے ساتھ مشکل سے بسکٹ پیش کرتاہوں ،لیکن میرے ادارہ میں آنے والوں کی خاطر تواضع ہمیشہ بادام ،پستہ ، اخروٹ اور ڈرائی فروٹ ہی سے ہوتی ہے ۔ میں جس آفس میں بیٹھتاہوں اس پر رکھے فون کا استعمال میرے ذاتی کام یا خانگی معاملہ کے لیے بھی دن میں کئی دفعہ ہوتاہے کاغذ،قلم،پنسل اور دوسری دفتری چیزوں کا محسوس یاغیر محسوس طریقہ پر اپنی ذاتی ضرورت کے لیے جو استعمال کرتاہوں اس کا تو حساب ہی نہیں اور نہ اس کو میں دور دور تک دینی خیانت سمجھتاہوں، میں آفس میں ادارہ کے پنکھے کے نیچے بیٹھ کر حسب ضرورت آنے والے مہمانوں کے ساتھ ذاتی کاروباری گفتگو بھی کرتا ہوں،اس کو آج تک میں نے گناہ بھی نہیں سمجھا،مجھے ادارہ کے کام سے بیرون ہند سفر پر جانا ہوتاہے تو Non Stopفلائٹ بک کرتاہوں ، حالانکہ اس کا کرایہ تیس ہزار روپیہ ہے جبکہ صرف دوگھنٹے کسی جگہ رک کر جانے والی فلائٹ اٹھارہ ہزار کرایہ میں دستیاب ہے ، اپنے گھر یا گاؤں میں روزانہ دو چارگھنٹے ضائع کرتاہوں ،لیکن بارہ ہزار ادارہ کی بچت کے لیے مجھے دو گھنٹے کسی درمیانی ایرپورٹ میں انتظار کرنے کے لیے رکنا برادشت نہیں ، میرے پاس اپنی گاڑی ہے ، دن بھر گھر میں استعمال ہوتی ہے، لیکن ادارہ میں حاضری کے لیے دفتر فون کرکے گاڑی منگواکر ہی آنے کی میری عادت ہے ، میں ادارہ کا ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے دوران میٹنگ صرف چائے بسکٹ پر اکتفا نہیں کرتا، قسمہاقسم کے میوے، فروٹ یا ذائقہ دار کھانے کا نظم کرنے کا میں دفتروالوں کو حکم دیتاہوں،گھر میں مرمت کا کام میں خود کھڑے ہوکر انجام دیتاہوں، لیکن ادارہ کے جزوی مرمتی یا اصلاحی کام کے لیے میرے پاس وقت نہیں ، میں اس جھنجھٹ میں پڑنا نہیں چاہتا،میں سب سے فخریہ کہتاہوں کہ میں اپنے ادارہ میں اعزازی کام کرتاہوں ، ماہانہ اعزازیہ بھی نہیں لیتا،لیکن مذکورہ بالا غیر شعوری مالی خیانتوں کا حساب لگاؤں تو سالانہ اس مدہی میں ایک تہائی اسٹاف کی تنخواہ میرے کئے ہوئے اس مالی نقصان وخسارہ سے اداکی جاسکتی ہے۔ غرض یہ کہ صبح سے شام تک روز مجھ سے دسیوں مرتبہ قومی وملی معاملات میں ایسی ہی خیانت ہوتی رہتی ہے جس کا خمیازہ قوم وملت کو بھگتنا پڑتاہے ، لیکن مجھے اپنی اس خیانت اور مالیات میں فراڈ کرنے والے مذکورہ شخص سے بڑے خائن ہونے کا احساس تک نہیں ،خیانت تو خیانت ہے ، چاہے وہ مال میں ہو یا دینی امور میں ،مذکورہ زید کی مالی خیانت کا اثر صرف چند لوگوں پر پڑا، لیکن میری اسی خیانت کے اثرات پوری ملت پر مرتب ہوئے اور میری وجہ سے پوری قوم کئی دفعہ امکانی خیر سے محروم ہوگئی۔ اس پورے تناظر میں اب مجھے یقین ہوگیا کہ زید اگر خائن تھا تو میں اس سے بڑا خائن تھا، فرق صرف اتنارہا کہ اس کو اپنے گناہ کا احساس ہوا، مجھے احساس نہیں ، اس کا عیب ظاہر ہوگیا ، لیکن مجھ پر اللہ کی رحمت سے ستّاری کا معاملہ ہوا۔ nadviacademy@hotmail.com