سفر حجاز۔۔۔(۱۸)۔۔۔  چل چلاؤ ۔۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

06:52PM Sat 17 Jul, 2021

دن گزرتے دیر نہیں لگتی، دیکھتے دیکھتے روانگی کا زمانہ آن لگا۔اور یہ تو خیر چند ہفتوں کا زمانہ تھا، جلد کٹ جانے والا تھا ہی ساری کی ساری عمریں ایسی ہی تیزی اور روانی کے ساتھ گزر جاتی ہیں، اور پتہ بھی نہیں چلنے پاتا کہ بچپن کے کھیل کب کھیلے، جوانی کی نیند کب سوئےاور ضعیفی کے گوشہ تنہائی میں کب بیٹھنے پر مجبور ہوئے! ۔۔۔۔ایک دن وہ تھا کہ مدینہ آنے کی آرزوئیں تھیں!کیسے کیسے منصوبے باندھے جارہے تھے۔کیا کیا خیالی پلاؤ پک رہے تھے، ذوق و شوق کی کسی کیسی امنگیں دل میں اٹھ رہی تھیں۔لب پر کیا کیا دعائیں تھیں اور ایک دن یہ آگیا (اور گو آیا اپنے وقت ہی پر لیکن ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یک بیک آگیا) کہ کوچ کی گھنٹی بج گئی۔اب چل چلاؤ کی تیاریاں ہورہی ہیں،بستر لپیٹے جارہے ہیں۔سامان باندھا جارہا ہے،سواریوں کی فکر ہے،اور ایک ایک سے مل کر زبان پر الوداع  و الفراق!

آئے تھے کیا کرنے اور کیا کر چلے!

غفلت و شامت نے یہاں بھی ساتھ نہ چھوڑا ،اور وقت کی بےبہا دولت اتنی تمناؤں اور آرزؤں کے بعد نصیب میں آئی تھی وہ اس بے پروائی ،بیداری کے ساتھ ضائع کی گئی،کہ شاید دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا مسرف بھی اس کا مقابلہ نہ کرسکے۔

جو پرستش گنہم روز حشر خواہد بود

تمسکات گناہان خلق پارہ کنند!

بہرحال جو کچھ ہونا تھا ہوکر رہا۔تسکین و تسلی کا اگر کوئی ذریعہ اور کچھ سہارا ہے تو صرف یہ کہ دربار رحمتہ للعالمین کا تھا،اور سابقہ اس سے پڑنے والا ہے جو رحمن و رحیم ہے۔

عصیان ما و رحمت پروردگار ما

ایں رانہایئے   ست نہ آن رانہایتے

مدینہ منورہ کا بڑا تحفہ یہاں کی کھجوریں ہیں،قافلہ کی ہر شخص نے ان کی ایک ایک اچھی خاصی مقدار وطن کے عزیزوں اور دوستوں کے واسطے خرید کی۔اور نیت کسی بھی نہ بھری ،ٹین کے ایک کنسٹر میں تقریباﹰ ۱۳ سیر کھجوریں آتی ہیں ،محض بار برداری کی دقتوں کے خیال سے ایک ایک دو دو ٹین کے کنسٹر بھرکر ہر شخص نے لیں،ورنہ جی تو یہی چاہتا تھا کہ اتنی مقدار میں لیجئے کہ کھانے والوں اور دیکھنے والوں سب کا جی بھر جائے ،بعض صاحبوں نے جانمازیں ،رومال،عبائیں ،تسبیحیں ،خاک شفا کی ٹکیاں روضہ انور کی جلی ہوئی موم بتیاں ،اور ہر طرح کے تبرکات بھی خرید لیے ،جانمازیں مدینہ کیا معنی حجاز بھر میں سے کہیں کی بھی بنی ہوئی نہیں ہوتیں نہ ان کا کپڑا حجازی ،نہ کپڑے کا سوت کاتنے والے حجازی نہ جانماز بنانے والے حجازی ،سب کی سب فرنگی کارخانوں کی بنی ہوئی عبائیں بھی عموماً باہر کی بنی ہوئی ملتی ہیں،تلاش سے عراق و شام کی بھی مل جاتی ہیں،لیکن بہرحال مدینہ کے بازاروں کی ہوا تو انھیں لگ ہی چکی ہے۔اور خوش عقیدگی کی آنکھ میں محبوب بنادینے کے لیے اس قدر نسبت بھی بس ہے۔یہ سارا سامان سب کئی دن قبل سے اونٹوں پر لاد کر جدہ اپنے وکیل کے ہاں بھیجوادیا گیا اور یہ سارا انتظام مولانا سید احمد مدظلہ کی معرفت بہ سہولت و بہ کفایت ہوگیا۔ورنہ موٹر پر اپنے ہمراہ یہ سارا سامان لاد کر چلنا بڑی زحمت کا باعث تھا،اتنے بوجھ کے لیے مستقل لاریاں الگ کرنی پڑتیں،اور خدا جانے کتنا صرف کرنا پڑتا،مکہ معظمہ میں قیام اب بہت مختصر ہی ممکن تھا،اس لیے ساتھ کے لیے صرف بالکل ضروری سامان رکھا گیا،اور باقی سامان اونٹوں پر جدہ روانہ کردیا گیا۔

چلنے سے قبل ایک فکر یہ ہوئی کہ مکہ معظمہ میں ٹھہرنا کہاں ہوگا،گرمی کی شدت،حاجیوں کا ہجوم عظیم،بوڑھوں ،کمزوروں اور عورتوں کے ساتھ،فکر صرف یہی نہ تھی کہ ٹھہرنا کہاں ہوگا بلکہ یہ بھی تھی کہ آرام و آسائیش کے ساتھ کہاں ٹھہرنے کو ملے گا۔اللہ کے گھر جارہے تھے،اللہ کے حکم سے،اللہ کے مہمان ہورہے تھے،چاہیئے یہ تھا کہ مہمان داری کی ساری فکر صاحب خانہ اور میزبان ہی  پر چھوڑ کر خود بالکل بے فکر رہتے،لیکن ایسا صرف اللہ والے ہی کرسکتے ہیں۔زبان سے کہہ دینا آسان ہے لیکن عمل ہم جیسے آرام طلب ،تن پرور اور پست ہمت دنیا طلبوں کے لیے ممکن نہ تھا۔حاجیوں کے اتارنے اور ٹھہرانے کی ذمہ داری ضابطہ سے معلم کے سر ہوتی ہے،لیکن بہ نظر احتیاط مناسب یہ معلوم ہوا کہ معلم سے بے نیاز ہوکر بھی کوئی معقول انتظام قیام کا ہو رہے مکہ کا مدرسہ صولتیہ مشہور مدرسہ ہے۔مولانا رحمتہ اللہ ہندی مہاجر کا قائم کیا ہوا اس کے مہتمم مولانا محمد سعید صاحب ہم لوگوں کے ہندوستان سے چلتے وقت اپنے وطن  (کیرانہ ضلع مظفر نگر) میں تھے۔انھوں نے ایک تعارف نامہ اپنے صاحبزادہ اور قائم مقام مولوی محمد سلیم صاحب کے نام دے دیا تھا۔وہ تعارف نامہ اپنے خط کے ہمراہ مدینہ سے مولوی صاحب موصوف کے نام روانہ کردیا گیا۔ڈاک کی واپسی کے ساتھ ہی جواب آیا ،ایک ایک لفظ اخلاق و اخلاص ،شوق و اشتیاق میں ڈوبا ہوا لکھا تھا کہ مدرسہ کی جدید و وسیع عمارت میں متعدد کمرے،بہ مسرت تمام خالی رہیں گے،لوگ کہتے ہیں کہ مکہ میں رہ کر اخلاق میں خشکی اور خشونت آجاتی ہے۔لیکن اگر اسی کا نمونہ مولوی سلیم صاحب کی تحریر کو قرار دیا جائے تو خدا کرے کہ ایسی خشکی اور خشونت سب کو نصیب ہو،سرکار نظام کی طرف سے بھی تین رباطیں مکہ معظمہ میں ہیں۔مولانا شروانی اور اختر مینائی صاحب کی عنایت سے ان کے مہتمم داروغہ حبیب اللہ صاحب کے نام بھی خطوط مل گئے تھے،ان انتظامات کے بعد قیام کی طرف سے دل مطمئن ہوگیاتھا۔

مدینہ سے واپسی کے وقت ایک بڑا مرحلہ سواریوں کے دستیاب ہونے کا ہوتا ہے،خصوصاً اس وقت جبکہ زمانہ حج قریب آجائے،اونٹ ہوں خواہ موٹر ،دونوں کی فراہمی میں بڑی دشواریاں پیش آتی ہیں اور اپنی پسند کے لائق اچھی سواری کا بہم پہونچ جانا تو محض ایک خداداد نعمت ہے۔اتنے بڑے ہجوم میں قابل اطمینان انتظام قائم رہنا آسان ہے بھی نہیں،کئی کئی دن مسلسل کوشش کرنی پڑتی ہے،جب کہیں جاکر سواری کا ٹھیک ہوتا ہے۔اور بڑے بڑے پختہ وعدے بار بار ٹوٹ لیتے ہیں جب جاکر روانگی کی نوبت آتی ہے۔بعض عارفوں نے کہا ہے کہ حج ایک عبادت عشقیہ ہے۔اس کے تمام ارکان و اعمال میں عاشقوں اور دیوان کے سے کام کرنا پڑتے ہیں۔یہ اگر صحیح ہے تو اس کے آثار اس سفر کے ہر جرمو میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں،اور جن کو اپنے اوقات کی خوش نظمی اور اپنے پروگرام کی پختگی پر ناز رہتا ہے ان تک کو اپنے نظام اوقات کو بار بار بدلتے رہنے پر مجبور ہو ہوجانا پڑتا ہے۔اللہ کے گھر کا سفر اللہ ہی کے ارادہ تکوینی کے مطابق طے ہوتا ہے،اور بندہ کو ہر ہر لمحہ یاد دلایا جاتا رہتا ہے کہ کم سے کم اتنی دیر کے لیے تو اپنے ارادہ کو مغلوب کرکے اپنی بندگی ،بیچارگی اور بےبسی کو محسوس کرنا سیکھ لے!

اونٹوں کے متعلق تو کوئی ذاتی تجربہ حاصل نہیں ہوا۔یہ جگ بیتی صرف سنتے ہی رہے ،البتہ لاریوں کے سلسلہ میں "جگ بیتی" بھی گزری۔اور "آپ بیتی" بھی جدہ میں جتنی موٹر کمپنیاں مدینہ منورہ کے لیے ہیں سب کے چھوٹے چھوٹے دفتر مدینہ میں موجود ہیں،اور تار اور ٹیلیفون کے ذریعہ سے جدہ اور مدینہ برابر ہمکلام رہا کرتے ہیں،ہم نے جدہ سے جو لاریاں کی تھیں ایک مہینے کے لیے کی تھیں،اور حسب قاعدہ پورا کرایہ پیشگی دے چکے تھے،پہلی ذیقعدہ کو داخل ہوئے تھے ذیقعدہ کے آخری ہفتہ کی ابھی ابتدائی تاریخیں تھیں کہ بعض فیسوں نے چلنے کی عجلت شروع کی،ان کا کہنا تھا اور یہ کہنا واجبی تھا کہ عین وقت کے وقت مکہ پہونچنے سے حج میں بے لطفی رہے گی۔

نے ماشاءاللہ لاری پر سوار ہوکر پوری قوت سے مقابلہ کیا۔اور گو اس معرکہ میں اتنے زخمی ہوئے کہ ہاتھ سے خون جاری ہوگیا۔لیکن سعودی پولس کے ہنٹروں کی اعانت سے بالآخر کامیاب رہے۔غرض ایک لاری پر جوں توں قبضہ ہوا، لیکن اس کے بعد اب دوسری لاری عنقا تھی۔گھنٹہ دو گھنٹہ، چار گھنٹہ، دوپہر سے سہ پہر، اور سہ پہر سے شام ہوگئی، ظہر کے بعد عصر اور عصر کے بعد مغرب کی نماز بھی ختم ہوگئی۔لیکن دوسری لاری کا انتظار ختم نہیں ہوا۔گویا مدینہ  سے رخصت ہوکر پھر بھی مدینہ ہی میں ہیں مسجد نبوی ﷺ یہاں سے میل ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر ہے۔گنبد خضرا تع دکھائی نہیں دیتا، البتہ مسجد نبویﷺ کے مینار نظر آرہے ہیں۔اور دور ہی سے دل کو تسلی دے رہے ہیں۔

ہر تھوڑی دیر کے بعد نگاہ ان کی طرف بےساختہ اٹھ جاتی ہے! عشاء کی نماز کے بعد یہیں میدان میں بستر لگائے گئے۔ایک میلہ کی سی کیفیت ہے۔عراقی، خراسانی، ہندی، مصری، سینکڑوں پردیسی یہاں سے وہاں تک بستر جمائے لیٹے ہیں۔۴ /ذی الحجہ کی صبح سے پھر انتظار شروع ہوا۔نو دس بجے کے قریب خدا خدا کرکے دوسری لاری ملی۔مگر اس کے شوفر صاحب غائب تھے! گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے مزید انتظار کے بعد وہ تشریف لائے۔تو اب ضابطہ کی کاروائیاں شروع ہوئیں۔خلاصہ یہ کہ عین دوپہر کو ٹھیک نماز ظہر کی اذان کے وقت لاریوں کو روانگی کی اجازت ملی۔اور شہر مدینی پاک کے پھاٹک سے قدم باہر ہوئے۔

ذی قعدہ کی پہلی تھی جب اس پھاٹک سے اس نور و برکت والے شہر میں داخل ہوئے تھے۔ذی الحجہ کی چوتھی کو اسی پھاٹک سے اس رحمت و مغفرت والے شہر سے باہر نکلے، جہاں ایک دن کا بھی قیام اگر میسر آجائے تو تقدیر کی یاوری اور ابرار و متقین کی نصیبہ وری ہے۔وہاں ایک دن نہیں، دو دن نہیں اکٹھے ۳۳ دن کی حاضری ایک تباہ کار نامہ سیاہ کو نصیب ہوگئی! شان کریمی کے بھی عجیب عجیب انداز ہیں، جس مفلس کو چاہیں، دم بھر میں مالا مال کردیں، جس تہی دامن کو چاہیں ایک پل میں نوازدیں، جس ریگستان کو چاہیں آن کی آن میں گلزار بنادیں۔جس آتشکدہ میں چاہیں چشم زدن میں پھول کھلادیں۔نہ کریم کا دست کرم کوتاہ ہونے والا ہے، نہ بخششوں کا خزانہ کبھی خالی ہونے والا ہے!ز

اے مبدل کردہ خاکے رابہ زر

خاک دیگر رانمودہ بوالبشر

کار تو تبدیل اعیان و عطا

کارما سہوست و نسیان و خطا

اے کہ خاک شورہ راتو نان کنی

دے کہ نان مردہ را تو جان کنی

اے کہ جان خیرہ را رہبر کنی

دے کہ بے رہ را پیغمبر کنی

یہ داستان درد اس وقت نہ سنئے کہ وقت کی یہ پیش بہا گھڑیاں ضائع کس بیدردی کے ساتھ ہوئیں۔سوال اس وقت یہ نہیں کہ اپنے سے کیا بن پڑا، بلکہ صرف یہ ہے کہ ادھر سے کیا کیا نوازشیں اور کیسی کیسی سرفرازیاں ہوتی رہیں! یہ نعمت کچھ کم ہے کہ حضوری کی توفیق اتنے عرصے تک نصیب کردی گئی۔عصر حاضرہ کے شیخ المشائخ حضرت  حاجی امداد اللہ صاحب سے ایک مرید نے شکایت کی کہ طائف میں چلہ باندھ کر روزانہ سوا لاکھ مرتبہ اسم ذات کا ذکر کرتا رہا اور کچھ ثمرات و انوار ظاہر نہ ہوئے، حضرت  نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ "ارے میاں یہ دولت کچھ کم ہاتھ رہی کہ چالیس دن تک اللہ پاک کا نام سوا لاکھ مرتبہ روزانہ زبان سے نکلتا رہا" بہرحال جو کچھ ہوا، وہ اپنے حوصلہ اور مرتبہ سے کہیں بڑھ کر!۔

اعتراف ہے کہ آنکھوں نے جس مدینہ کو دیکھا۔وہ بیسویں صدی عیسوی کا مدینہ تھا۔پہلی صدی عیسوی کے ربع اول کا مدینہ نہ تھا۔صدیقؓ و فاروقؓ عثمانؓ و علیؓ کا مدینہ نہ تھا۔صحابہ و تابعین کا مدینہ نہ تھا۔مجتہدین و آئمہ تصوف کا بھی مدینہ نہ تھا۔۔۔۔خزاں میں موسم گل کی توقعات ہی کسی چمن سے کیوں قائم کی جائیں؟ لیکن بایں ہمہ پھر مدینہ تھا۔آج نہ سہی کبھی تو اللہ کے پیارے اور اس پیارے کے پیاروں کا شہر رہ چکا ہے۔

اس دور یاجوجیت میں اگر کہیں کوئی جگہ بھی پناہ کی ہے تو بجز اس آستان پاک کے اور کہاں ہے؟ آج رخصتی اس دربار سے تھی! آج کوچ اس جنت اراضی سے تھا! آج فراق اس دیار حبیبﷺ کے گلی کوچوں سے ہورہا تھا! آدم جس طرح جنت سے جدا ہوئے ہیں، اس قصہ سے سب واقف ہیں۔لیکن ابن آدم کو جب فخر آدم و فخر نسل آدم کی گلیوں کو چھوڑنا پڑتا ہے  تو اس وقت اس کے دل پر کیا گزرتی ہے، یہ داستان کون سنائے اور کس کو سنائے؟