سچی باتیں۔ انسانوں میں تفریق۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

07:29PM Mon 23 Aug, 2021

1927-04-25

ایک وکیل صاحب آپ سے ملنے کو تشریف لاتے ہیں، آپ اُن کی تعظیم کے لئے اُٹھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایک ڈپٹی صاحب آپ کے ہاں کبھی کبھی کرم فرماتے ہیں، آپ اس کو اپنی انتہائی عزت افزائی سمجھتے ہیں، اوراُن کے لئے فرش راہ بن جاتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر صاحب کبھی آپ کے مکان کی جانب رُخ کردیتے ہیں، آپ اُن کی ہرطرح کی خاطرداریوں میں لگ جاتے ہیں۔ ضلع کے کلکٹر صاحب کے بنگلے پر باربار حاضری دیتے رہناآپ اپنے فرائض میں داخل سمجھتے ہیں، اور راستہ گلی میں جب کبھی وہ مسکراکر آپ کا سلام نیاز قبول کرلیتے ہیں، توآپ اسی کو اپنے فخروشرف کے لئے کافی سمجھ لیتے ہیں۔ ایک طرف آپ کے وسعت اخلاق کی، آپ کے تواضع وانکسار کی یہ حالت ہے، دوسری طرف یہ منظر ہے، کہ آپ ہی کے محلہ میں ایک بوڑھے میر صاحب اپنے مکان کے کھنڈر میں اکیلے پڑے رہتے ہیں، آپ اُن کی طرف کبھی بھولے سے بھی رُخ نہیں کرتے۔ آپ کی حویلی سے چند ہی قدم کے فاصلہ پر ایک نابینا بیوہ رہتی ہیں، ان کی دہلیز پر آپ عید، بقرعید بھی قدم نہیں رکھتے۔ آپ کے مکان کے زیر سایہ کچھ کُنجڑے اور دُھنئے آباد ہیں، اُن کے ہاں بیماری وموت کے سخت سے سخت واقعات میں بھی آپ کو شرکت کا اتفاق نہیںہوتا۔ آپ کی ڈیوڑھی سے کچھ ہی فاصلہ پر چند چماروں کے گھر ہیں، اُن کے سلام کے جواب میں زبان ہلانا یا ہاتھ اُٹھانا الگ رہا، سرسے اشارہ کرنے میں بھی آب تکلیف نہ سہی، تو تکلّف ضرور محسو س کرتے ہیں!

غرض، جس شہر یابستی میں آپ رہتے ہیں، وہاں کی آبادی کو آپ نے دو طبقوں میں تقسیم کرلیاہے۔ ایک میں وہ خوش نصیب افراد ہیں، جنھیں آپ اپنے سے بڑا یا کم سے کم اپنے برابر تسلیم کرتے ہیں، ان کے ہاں آتے جاتے ہیں، ان کے ہاں تحفہ تحائف بھیجتے ہیں، ان کی دعوتیں کرتے ہیں، اور اُن کی عزت وتعظیم کرتے ہیں۔ دوسرے طبقہ میں وہ بدنصیب ہستیاں ہیں ، جنھیں ان سارے حقوق سے آپ محروم کرچکے ہیں۔ وہ صرف اس واسطے ہیں، کہ آپ کی خدمتیں کریں، آپ کو جھُک جھُک کر سلام کریں۔ وہ اگر دعوت کریں توا ُس کے قبول کرنے میں آپ کی کسر شان! اُن کے ہاں شادی ہو، مَوت ہو، اُن کے دروازہ تک جانا آپ کی عزت وشرافت کی توہین! یہ ’’شریفوں‘‘ اور ’’رذیلوں‘‘ ، ’’برابری والوں‘‘ اور ’’کمینوں‘‘ ، ’’ہمسروں‘‘ اور ’’نیچ لوگوں‘‘ کی جو تفریق آپ نے، اور آپ کے بزرگوں نے پشتہاپشت سے قائم کررکھی ہے، اُس کے مٹانے کی درخواست ہرگز نہیں کی جاتی۔ آپ کو اختیار ہے کہ اسے بشوق تمام قائم رکھیں۔ گزارش صرف اتنی ہے ، کہ یہ تفریق آخر کس بنیاد پر قائم کی گئی ہے؟ اللہ کے کسی حکم پر؟ رسولؐ کے کسی فرمان پر؟خلفائے راشدینؓ، ائمہ فقہؒ، اکابر صوفیہؒ کے کسی ارشاد پر؟ اخلاق کے کسی فتویٰ پر؟ عقل کے کسی اصول پر؟

اللہ کے ہاں عزت کا حقدار، وہ لاکھوں روپئے کی جائداد رکھنے والا، بڑا تعلقدار ہے، جس کی آمدنی کا ہر جزو شرعی حیثیت سے مشکوک ، مشتبہ و ناقابلِ اطمینان ہے، یا وہ سرپر ٹوکری رکھ کر پھیری کرنے والا کُنجڑا، جسے آپ اپنے پاس بٹھانے کے بھی روادار نہیں ہوتے؟ جائز آمدنی اُن سیٹھ صاحب کی ہے، جو مسلمان ہوکر، دھڑلّے سے سُودی کاروبار میں روپیہ لگائے ہوئے ہیں، یا اُس کہارکی، جو صبح سے شام تک ڈولیاں ڈھوڈھوکراپنی مشقت سے شام کو مزدوری کماکرلاتاہے؟ بستی کے لئے اُس چمار کا وجود زیادہ ضروری ہے ، جو آپ کا جُوتا گانٹھتاہے، یا اُن وکیل صاحب کا، جن کا کام صرف یہ ہے، کہ بڑی سے بڑی فیس اپنی جیب سے رکھ کر مقدمہ بازی کی آگ کواور ہوادیتے رہیں؟ بستی میں اگر کوئی جُلاہا نہ رہا، توآپ زیادہ نقصان وتکلیف محسوس کریں گے ، یا اس سے کہ آبکاری کے انسپکٹر اور افیون کے داروغہ رخصت کردئیے گئے؟ عقبیٰ وآخرت کا نام باربار آنے سے آپ کے ذہن کو وحشت ہوتی ہے، تو جانے دیجئے، خالص اسی مادی دنیا کے نفع ونقصان کے لحاظ سے غور فرمائیے، کہ عزت وشرافت کا کیسا جھوٹا معیار آپ نے قائم کررکھاہے، اور ضروری ومفسد مشغلوں کے مقابلہ میں غیر ضروری اور نمائشی پیشوں کو کیسی بے محل وقعت واہمیت آپ نے دے رکھی ہے!