نشست اور شکست کا تلفظ --- تحریر : اطہر ہاشمی

کئی الفاظ ایسے ہیں جن کا تلفظ پریشان رکھتاہے۔ ان الفاظ میں’نشست اور شکست ‘ بھی شامل ہیں۔کئی لوگوں سے ان کا تلفظ مختلف ہی سنا ۔کوئی ’ن‘ اور ’ش‘ پر زبر لگاکر بولتا ہے اور کوئی انہیں زیر کردیتا ہے ۔جب کہ ’’نَشَست‘‘ میں ’ن‘ اور ’ش‘دونوں برابر ہے (بالفتح) ۔یہ نَشَستن کا حاصل مصدر ہے۔دوسری طرف ’’شِکَست ‘‘ ہم قافیہ تو ہے لیکن یہاں ’ش‘ بالکسر اور ’ک‘ پر زبر ہے ۔یعنی ’’شِکَست‘‘۔ شاید امانتؔ کے اس شعر سے نَشَست کا تلفظ واضح ہوجائے:
اس سے بہتر کوئی پہلو نہیں ملتا سرِدست
تن کی کرسی پہ عجب پائی ہے مونڈھوں نے نشست
یعنی سرِدست اور نشست ہم قافیہ ہیں ۔
کچھ لکھنے والے ’فی الواقعی‘یا فی الواقعہ ‘ لکھتے ہیں۔صحیح ترکیب ’فی الواقع ‘ہے یعنی اصل میں ،حقیقۃً۔صاحبِ نوراللغات کے مطابق خواتین فی الوقعی بولتی ہیں۔’فی‘ کا مطلب ہے :بیچ میں۔ جیسے فی کس ،فی من۔یہ حرف ِجار ہے۔’فی‘ کے مطلب :نقص ،کمی ، غلطی،عیب ،کھوٹ بھی ہیں۔داغؔ کا شعر ہے:
سمجھنے والے سمجھتے ہیں پیچ کی تقریر
کہ کچھ نہ کچھ تری باتوں میں فی نکلتی ہے
اسی طرح ’امر واقع‘ ہے۔اسے بھی کچھ لوگ ’امر واقعی ‘لکھ جاتے ہیں۔یہ غلط ہے۔
ممبئی سے جناب سلمان غازی کا خط عبدالمتین منیری کی معرفت ملا ہے ۔لکھتے ہیں’’اطہر ہاشمی نے ایک جملہ لکھا ہے ’’ چنانچہ لغت سے رجوع لائے‘‘۔اس سے قبل بھی کسی کالم میں انہوں نے رجوع لانا ہی لکھا تھا۔ہماری معلومات کے مطابق صحیح محارورہ رجوع کرنا یا رجوع ہونا ہے اور یہی ہم بچپن سے سنتے اور استعمال کرتے آئے ہیں۔ رجوع لانا پہلی بار پڑھا۔ اطہر صاحب محقق ہیں اس لیے اس سلسلے میں مزید کچھ تحقیق فرماکر مطلع فرمائیں تو ممنون ہوں گا۔۔‘‘۔
بھائی سلمان غازی ،پہلے تو ہماری الٹی سیدھی تحریر پڑھنے اور سراہنے کا شکریہ۔لیکن ہم پر محقق ہونے کا الزام نہ لگائیے۔ہم تو اِدھر اُدھر سے خوشہ چینی کرکے اپنا کام چلا رہے ہیں۔جہا ں تک ’’رجوع لانا‘‘ کا تعلق ہے تو کئی لغات حتیٰ کہ فرہنگ آصفیہ بھی دیکھ ڈالی لیکن رجوع لانا نہیں ملا۔ برسوں پہلے ہم نے ایک خبر میں یہ لکھ دیا تھا جسے حرف چیں یا پروف ریڈر نے ’’ صحیح ‘‘ کردیا۔ہمارے پاس کائی محکم دلیل تو نہیں ہے البتہ نو عمری میں ابن صفی کے نا ول میں پڑھا تھا ۔ا ن کا معروف کردار علی عمران اپنے ساتھی صفدر سے کہتا ہے ’’برخوردار صحیح تلفظ رجوع کر نا نہیں ،رجوع لانا ہے‘‘گوکہ ابن صفی کا حوالہ بطور دلیل نہیں دیا جاسکتا ،لیکن اُن کی اردو معتبر تھی اور ہم نے بھی اُن کے ناول پڑھ کر اردو سیکھی ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک بار لاہور کے عجائب گھر جانا ہوا۔ وہاںپرانی اور نادر کتابیں شوکیس میں کھول کررکھی گئی ہیں۔ اتفاقاًایک کتا ب پر نظر پڑی تو اس میں ’’رجوع لانا‘‘ لکھا ہوا تھا۔یہ تو یاد نہیں کہ کتا ب کون سی تھی ۔لیکن اسے دیکھ کر یہ اطمینان ہوا کہ رجوع لانا غلط نہیں ہے۔ اب چونکہ لغات میں یہ ترکیب نہیں ملی اس لیے ہم بھی رجوع لیتے ہیں ۔البتہ مزید تحقیق کی کوشش کریں گے۔ سلمان غازی صاحب کا ایک بار پھر شکریہ اور عبدالمتین منیری کا بھی۔
گزشتہ پیر (۱۵ مئی) کو سندھ اسمبلی کی نائب اسپیکر محترمہ شہلا رضا مخالفت کرنے والوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں ’’آپ غلط ہو‘‘۔’آپ‘ کے ساتھ ’ہیں‘ آنا چاہیے ،یا ’آپ ‘ کی جگہ ’تم‘۔ شاعری کی اصطلاح میں اسے ’’شتر گربہ‘‘ کہتے ہیں۔یعنی احترام کے لفظ آپ جناب کے ساتھ تم یا تُو استعمال کرنا۔
مثلاً قادر الکلام شاعر فیض احمد فیض کا یہ شعر:
خیر، ہیں اہلِ دیر جیسے ہیں
آپ اہلِ حرم کی بات کرو
دوسرے مصرع پر یہ اعتراض کیا گیا کہ ’آپ بات کرو‘ صحیح اندازِ بیان نہیں۔ ’آپ ‘ کے ساتھ ’بات کیجیے‘ یا ’تم بات کرو‘ کہنا چاہیے تھا ۔فیض تو خیر بڑے شاعر تھے اور شہلا رضا ادیب نہ شاعر ،لیکن معروف معنیٰ میں اہلِ زبان تو ہیں۔
’اب کے ‘ اور ’اب کی‘ کبھی کبھی الجھن میں ڈال دیتے ہیں کہ’کے ‘استعمال کیا جائے یا ’کی‘ ۔ یہ دونوں ہی صحیح اور مستعمل ہیں۔ اس بارے میں رشید حسن خان لکھتے ہیں کہ ’’ مفرد صورت میں’اب کے‘ لکھا جائے گاجیسے ’اب کے تم آؤ گے تو ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے ‘۔یا ’اب کے گئے نہ جانے کب آؤ گے‘۔
یہ مصرع دیکھیے:
اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے
اب کے بہار آئی تو سمجھو کہ ہم گئے
جب اس کے بعد کوئی لفظ اس سے متعلق ہو کر آئے گا، اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ وہ لفظ مذکر ہے یا مونث۔ وہ لفظ اگر مذکر ہے تو اس کے ساتھ ’اب کے‘ آئے گا جیسے ’اب کے برس‘ ،’اب کے سال‘۔اگر وہ تلفظ مونث ہے تو ’اب کی‘ آئے گاجیسے ’اب کی بات‘ ۔ایک مثل ہے ’’اب کی بات اب کے ساتھ ،جب کی بات جب کے ساتھ ‘‘۔ ایک اور مثل یاد آگئی ’’ اب کی مار کے دیکھ‘‘۔
برس مذکر ہے جیسے ’ایک برس گزر گیا‘۔ اس کی جمع ’برسوں ‘ بنے گی جیسے’مرے گھر وہ آئے تھے بر سوں کے بعد‘۔اس کی جمع ’برسیں‘ نہیں بنے گی ۔ ہم اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ سال کہ جمع ’’سالوں ‘‘ خواہ درست ہو لیکن اس سے گریز کیا جائے ورنہ ’’ سالے‘‘ ناراض ہو سکتے ہیں ۔ اس کی جگہ یا تو ’برسوں ‘لکھیں یا ’کئی سال ‘جیسے’ میں اسے کئی سال سے جانتا ہوں‘۔
’سنہرا‘اور ’ سنہری‘ دونوں لفظ استعمال میں آتے ہیں۔ یہ اسم صفت ہیں۔قاعدہ یہ ہے کہ موصوف مذکر ہوگا ’سنہرا‘ لکھیں گے جیسے ’سنہرا رنگ‘ ’’روپ بجلی کا سنہرا ،ر پہلا بادل‘‘۔ موصوف مونث ہوگا تو ’سنہری ‘ لکھیں گے جیسے ’سنہری رنگت ‘،’سنہری جوتی‘۔’’تاکتا ہے تُو ثریا کی سنہری بوتل‘‘۔
سید مسعود حسن رضوی (مرحوم )مشہور ادیب اور اردو دان تھے ۔ڈاکٹر محمدحسن نے ایک مضمون میں مرحوم کا ایک واقعہ لکھاہے:
’’ایک بار جوش ملیح آبادی نے ،جو خود زبان داں تھے اور لفظ لفظ کی صحت کا خیال ر کھتے تھے،اپنی مشہور نظم پڑھی جس کا ٹیپ کا مصرع تھا:
رواں دواں بڑھے چلو، رواں دواں بڑھے چلو
داد سے چھتیں اڑگئیں۔جلسے کے بعد چائے پر مسعود صاحب نے جوش ملیح آبادی کو الگ بلا کر بڑی نرمی اور شائستگی سے کہا ’’جوش صاحب!جب یہ نظم شائع کریں تو یہ نوٹ ضرور دیجیے گا کہ ’’رواں دواں‘‘یہاں لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے ، محاورے کے اعتبار سے نہیں‘‘جوش صاحب چوکنا ہوگئے، بولے’’محاورے میں اس کا کیا مفہوم ہے؟‘‘مسعود صاحب نے بتایا ’’رواں دواں کا محاورے کے اعتبار سے وہ مفہوم ہے جو صفی لکھنوی نے یتیموں کے بارے میں اپنی نظم میں ادا کیا ہے: رواں دواں ہیں،غریب الدیار ہیں ہم لوگ ۔رواں دواں یعنی مارے مارے پھرنے والے بے سہارا لوگ۔‘‘
شاید اسی لیے کہتے ہیں’’ کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے ‘‘ ۔لیکن اب تو جو آتی تھی وہ بھی جاتی ہوئی نظرآتی ہے۔ہم نے اپنے ساتھیوں کے لیے کئی بار لکھا کہ ’’سب سے بہترین ‘‘غلط ہے اور پیر ۱۵ مئی کی جسارت کی شہ سرخی میں’’سب سے بہترین‘‘رکھا ہوا ہے ۔ شاید صحافی حضرات اچھی تو کیا،صحیح اردو لکھنے پر بھی آمادہ نہیں۔