سفرحجاز۔۔۔(۳۵)۔۔۔ مکہ مکرمہ۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

09:32PM Thu 22 Jul, 2021

مکہ

                                                                                                                                                   مکہ کی آبادی شروع ہونے کے ساتھ ہجوم میں بھی اور اضافہ شروع ہوا یہاں تک کہ چلتے ہوئے اونٹوں کی رفتار رک گئی، اب قطار کی قطار رکی ہوئی کھڑی ہے اور ہر شخص طوعاً نہ سہی کرہاً رضا بہ قضا کی تصویر بنا ہوا! اور یہ ساری ”خوش انتظامی“ عین بیت الحکومت کے سامنے اور اردگرد، یعنی ولی عہد حجاز اور گورنر مکہ کے محل کے سایہ دیوار کے نیچے! گویا سعودی حکومت نے اپنے نفس پر لازم کر رکھا ہے کہ راستہ کے انتظامات اور مسافروں کی راحت رسانی میں اپنی انگلی تک نہ ہلائے گی، خیال یہ تھا کہ رباط حیدرآباد میں جگہ کی قلت ہے، اس لیے اب کی اپنے ذاتی قافلہ کو ہمراہ لے کر مدرسہ صولتیہ چلا جاؤں گا اور روانگی کے وقت تک وہیں قیام کروں گا لیکن مدرسہ تک پہونچنے کے لیے دو ایک فرلانگ اور چلنے کی ضرورت تھی، اتنی ہمت کسے تھی؟ معلم صاحب ہمراہ تھے، بولے کہ اس چپقلش میں اتنی دور چلنا سخت مصیبت ہے، بہرحال مولوی سلیم صاحب کی مہمان نوازیوں سے محروم رہنا مقدر ہوچکا تھا، مجبوراً محلہ مسفلہ ہی کو آئے، اور ۱۲/ ذی الحجہ کو رات کوئی دو ڈھائی گھنٹہ جاچکی ہوگی، اسی رباط حیدرآباد میں جہاں سے ۸/ ذی الحجہ کو روانہ ہوئے تھے پانچ دن کے سفر کے بعد بحمداللہ حج سے فراغت کرکے پھر آکر مقیم ہوگئے۔

مراسم حج سب ادا ہوچکے تھے۔اب صرف ایک طواف الوداع جو رخصت ہوتے وقت کیا جاتا ہے، کرنا تھا، اور جن لوگوں نے طواف فرض کے ساتھ سعی نہیں کی تھی، انھیں ایک سعی کرنی باقی تھی، بس ان دو چیزوں کے سوا اور کوئی شے اب اعمال حج کے سلسلہ میں باقی نہ تھی، ہاں نفل طواف اور مسجد الحرام میں نمازیں پڑھنے کے موقع تو ظاہر ہے کہ ہر وقت باقی تھے۔ کتابوں میں پڑھا تھا، اور لوگوں سے زبانی بھی یہی سنا تھا کہ مکہ میں متعدد مقامات و مکانات قابلِ زیارت ہیں، مولد النبی، مولد علی، دارِ خدیجہ، جبلِ ثور، غارِ حرا، مسجد الجن وغیرہ۔۔۔۔۔حقیقۃً زیارت گاہ بننے کے قابل تو اس پاک سرزمین کا چپہ چپہ اور ذرہ ذرہ ہے لیکن

یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جوان تھا!۔

اب زیارتوں کے موقع کہاں حاصل، دور سعودی میں یہ سب افسانہ پارنیہ ہے، کہیں سنتریوں کے پہرے ہیں اور کہیں ایک ایک اینٹ کھودکر ویرانہ بنادیا گیا ہے، بہرحال اب ان مقامات کی زیارت کا تو خیال بھی نہیں البتہ جنت المعلیٰ میں جس وقت اور جس صورت سے بھی ممکن ہوگا حاضری دینا ضروری ہے۔

جنت المعلیٰ کا نام آپ کے کان میں ضرور پڑ چکا ہوگا، مکہ معظمہ کے قبرستان کا نام ہے، مسجد حرام سے کوئی ایک میل کے فاصلہ پر منیٰ کے راستہ میں وادی محصب سے کچھ ادھر ایک بڑا وسیع میدان ایک طرف پہاڑ باقی ہر طرف سے کھلا ہوا، ایک حصہ چہاردیواری سے گھرا ہوا، لیکن اب تو چہاردیواری بھی ہر طرف سے شکستہ اور جابجا سربسجود، درمیان میں ایک سڑک نکلی ہوئی، اس لیے اور بھی بے قید، اس کے انوار و برکات کا کیا بیان ہو! کوئی ایک دو بزرگ یہاں مدفون ہوں تو ان کے نام لیے جائیں، جہاں بے حساب آفتاب اور بے تعداد ماہتاب پیوندِ خاک ہوں، وہاں کس کس کے نام گنائے جائیں، اور کن کن کے فضائل و مناقب کا پیمانہ ہاتھ میں لےکر ناپا جائے، نبی کریم ﷺ کے اجداد کرام، ایک روایت کے بموجب خیرالبشر کی والدہ ماجدہ، ام المومنین خدیجۃ  ؓ الکبریٰ، سیدنا قاسم بن نبی ﷺ، حضرت  عبداللہ بن عمرؓ، حضرت  عبدالرحمٰن ؓ بن ابی بکرؓ، حضرت  عبداللہ بن زبیرؓ، امام ابوالقاسم قشیریؒ، خواجہ عثمان ہارونیؒ (مرشد خواجہ اجمیری) امام نسفیؒ۔ (صاحب کنز)۔ اور فخر المتاخرین مرشد دوران حضرت  حاجی امداد ؒ اللہ مہاجر مکی، اندازہ کے لیے ہر قرن اور ہر دور کے یہ چند نام کافی ہیں ۔”جنت“ ۔عربی محاورہ میں قبرستان کو بھی کہتے ہیں لیکن اگر اس بقعہ ۔”جنت“۔کے وہی معنی لیے جائیں جو عربی اور اردو میں اس کے عام اور مشہور معنی ہیں تو کس کو انکار ہوسکتا ہے؟ ان مقدس ہستیوں کی فیض باریوں اور نور پاشیوں پر اس سفرنامہ کے راقم کا ایک ذاتی تعلق اس جنت خاکی کے ساتھ مزید برآں والدِ ماجد مرحوم و مغفور مولوی عبدالقادر پنشر ڈپٹی کلکٹر اضلاع اودھ نے مع والدہ ماجدہ، مدظلہا ۔(”مدظلہا“ اس وقت تھیں اب مرحومہ و مغفورہ)۔ و دیگر اعزہ کے۔ ۱۹۱۲ء مطابق ۱۳۳۰ھ میں سفرِ حجاز اختیار کیا اور بیت اللہ کا جوار پسند آیا کہ حج سے فارغ ہونے کے معاً بعد ۱۱/ ذی الحجہ کو شب میں منیٰ میں ہیضہ میں مبتلا ہوئے اور قبل اس کے کہ دوبارہ دنیا کی آلودگیوں میں مبتلا ہوں ۱۴/ ذی الحجہ کو صبح صادق کے وقت  مکہ معظمہ میں سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے اور اسی قبرستان میں مدفون ہوئے۔

کوئی ہندوستانی حکومت، حکومت ِ برطانیہ کا کتنا ہی وفادار ہوا، خواہ ہو، ذرا اسے ریل کے اونچے درجوں میں  دو چار بار سفر کرلینے دیجئے ہم سفر انگریزوں کا برتاؤ دیکھ لینے کے بعد ممکن نہیں کہ اس کے جذبات وفاداری و ہوا خواہی بدستور قائم رہ جائیں اور بجائے ان کے اس کے قلب میں بغاوت و عداوت کے جذبات حرکت میں نہ آنے لگیں۔ (خیال رہے کہ یہ ساری عبارت ۲۹ء کی لکھی ہے، ہندوستان کے دورِ ”آزادی“ سے بہت قبل کی) ٹھیک ایسا ہی حال سلطان ابن سعود کے معاملہ میں جنت المعلیٰ اور جنت البقیع کا ہے۔ عہدِ سعودی کے امن و امان کی ساری برکتیں ایک طرف اور جنت البقیع ہی کی طرح جنت المعلیٰ کی ویرانی و پامالی دوسری طرف!۔ ممکن نہیں کوئی غیرت مند صاحب احساس مسلمان اس وقت جنت المعلیٰ کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور دیکھ کر اپنے اوپر قدرت رکھ سکے، خیال یہ تھا کہ مولانا شفیع الدین صاحب مدظلہ العالیٰ کی معیت میں جنت المعلیٰ کی زیارت کے لیے جائیں گے ۔(ممدوح بلاناغہ بعد نمازِ فجر، منہ اندھیرے جنت المعلیٰ اپنے مرشد حضرت  حاجی صاحب کے مزار پر حاضر ہوتے رہتے ہیں) ۔لیکن ممدوح ۱۳/ کی صبح تک منیٰ سے واپس تشریف نہیں لائے تھے، اس لیے مجبوراً ہم لوگ تنہا بغیر کسی رہبر و رہنما کے روانہ ہوئے، قبرستان پہونچتے ہی نہ پوچھیئے کہ آنکھوں کو کیا کیا دیکھنا پڑا، اب تک تو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ جنت البقیع سے زیادہ ابتر حالت اور کہاں کی ہوسکتی ہے لیکن آہ کہ جنت المعلیٰ میں جو کچھ اس سے بھی فزوں تر تھا، آہ! ۔کہ جو سرزمین اس قابل ہے کہ اولیاء و صالحین و اتقیاء کاملین بھی اگر وہاں قدم رکھیں تو لوازم ادب اور آداب احترام کے ساتھ، وہاں آج بے ادبیوں اور بے حرمتیوں  کا کوئی دقیقہ اٹھ نہیں رہنے پاتا! انسان تو انسان جانور تک یہاں بےحرمتی کے لیے آزاد ہیں!  اونٹوں کی قطار کی قطار حدودِ قبرستان کے اندر اپنی منزل بنائے ہوئے کئی دن قبل منیٰ جاتے وقت دکھائی دی تھی، آج دیکھا کہ جابجا اونٹوں کی مینگنیاں اور پیشاب پڑا ہوا! ۔ہر طرف غلاظتوں کے انبار سے لگے ہوئے، کیسے کتبے، اور کہاں کے مزارات!  یہ پتہ ہی نہیں چل سکتا تھا کہ کون صاحب کہاں مدفون ہیں!۔ والد مرحوم کے متعلق سنا تھا کہ سیدنا عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؒکے پائیں میں مدفون ہیں، اس پتہ پر ان کی تربت کو تلاش کرنے کا ارادہ تھا، یہاں سرے سے حضرت  عبدالرحمٰؒن ہی کی تربت کا پتہ نشان نہیں! ۔کسی دوسری تربت کا پتہ ان کے پتہ سے کیا چلایا جائے، بہرحال چارہ کیا تھا، اندازہ سے اور اپنے ہی جیسے ناواقف عوام کی رہنمائیوں میں مختلف مقامات پر کھڑے ہوکر فاتحہ پڑھ لیا گیا، اور بس ۔۔۔۔۔فاتحہ تنہا ان اہلِ قبور ہی پر نہ تھا۔۔۔

۱۴/ ذی الحجہ ڈاکٹر عبدالرحمٰن۔ (بہاری)۔ کا ذکر مدینہ منورہ کے سلسلہ میں آچکا ہے، یہاں بھی وہ اسی رباط کی ایک دوسری منزل میں مقیم ہیں، یہ تو معلوم تھا کہ شیخ سنوسی اعظم عرصہ سے مکہ معظمہ ہی میں مقیم ہیں مگر یہ نہ معلوم تھا کہ کہاں مقیم ہیں اور نہ ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا کوئی خیال تھا۔آج صبح ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ شیخ موصوف کی طبیعت کچھ عرصہ سے ناساز ہے اور ڈاکٹر صاحب ہی کا علاج ہورہا ہے۔ یہ سن کر طبیعت میں قدرۃً اشتیاق پیدا ہوا اور تھوڑی دیر کے بعد جب ڈاکٹر صاحب وہاں چلنے لگے تو ہم لوگوں کو بھی ہمراہ لے لیا، حرم سے کچھ دور ایک بہت بلند ٹیلہ جبل ہندی کے نام سے ہے۔ راستہ باب الصفا سے ہوکر گیا ہے، شیخ وہیں مقیم ہیں، صبح آٹھ، ساڑھے آٹھ کا وقت ہوگا جب ہم لوگ روانہ ہوئے اور جس طرح پہاڑوں پر چڑھتے ہیں، بلندیاں اور بلندیوں کے بعد پھر بلندیاں طے کرتے کرتے شیخ کی منزل گاہ تک پہونچے، یہ تو ایک اچھا خاصا قلعہ ہے۔ بڑی وسیع لق و دق عمارت، بلکہ ایک مجموعہ عمارات!۔ اخبارات میں شیخ کا نام آج سے نہیں کم از کم ۱۵، ۲۰ سال سے سنتے چلے آرہے ہیں، طرابلس میں اطالیوں کے خلاف جہاد، اور اس کے بعد سے خدا معلوم کتنی بار جہاد و غزاہی کے سلسلہ میں شیخ کا نام سننے میں آچکا تھا، دل خوش ہورہا تھا، بلکہ خوشی سے اچھل رہا تھا کہ آج اپنے زمانہ کے مجاہدِ اعظم کا دیدار نصیب ہوگا، شیخ کوئی تارک الدنیاز زاہد گوشہ نشین نہیں، ماشاءاللہ مع پورے خدم و حشم کے یہاں مقیم ہیں، رئیسانہ بلکہ شاہانہ سازو سامان، اپنی ضرورت کی ہر شے الگ موجود، یہاں تک کہ مسجد بھی موجود، مختلف درجوں اور منزلوں میں متعدد خدام اور دربان ملتے رہے۔ سب سے سلام علیک ہوتی رہی اور کسی میں نجدی سپاہیوں کی سی درشتی اور خشونت نہ ملی، یہاں تک کہ سب سے اوپر کی منزل میں پہونچنے، اور ایک کمرہ میں تھوڑی دیر انتظار کرنے کے اور شیخ کے سامنے طلبی ہوئی۔

کمرہ سامان آرائش و نمائش سے خالی، سادگی کی ایک تصویر بنا ہوا، وسط میں تکیہ لگائے ہوئے چہرہ سفید بال، سفید کپڑے اور ان ساری سفیدیوں سے کہیں بڑھ چڑھ کر شیخ کی نورانیت!۔ باطن کے نور اور قلب کی نورانیت کی خبر تو خدا کو لیکن چہرہ کی نورانیت کا یہ عالم کہ نظر سے نظر ملانی مشکل!۔ طریق ولایت پر راہ سلوک طے کرنے والے اچھےاچھے بزرگ نظر سے گزرچکے تھے، اس وقت اس شیر مرد کا سامنا تھا جو راہِ سلوک، طریقِ نبوت پر طے کررہا ہے، تسبیح و سجادہ، حلقہ و خرقہ والے بہت سے بزرگوں کی زیارت کی سعادت نصیب میں آچکی تھی، آج اس بزرگ کی حضوری حاصل ہورہی تھی، جو صحابہ کرام خصوصاً خلفائے راشیدین رضی اللہ عنہم کے نمونہ پر، صاحب دل بھی ہے اور صاحب سیف بھی! ۔خانقاہ کے اندر بیٹھ کر ذکر شغل کرنے والا بھی اور میدان میں نکل کر اعدا اللہ سے غزا و قتال کرنے والا بھی! ۔صوفیہ نے جہاد کی دو قسمیں قرار دے رکھی ہیں، جہاد اصغر، جہاد اکبر، اس گھڑی مواجہہ اس ذات کا تھا جو جہاد اصغر و جہاد اکبر دونوں کی جامع ہے، قبل اس کے کہ شیخ کی زبان سے ایک لفظ بھی نکلے محض چہرہ پر نظر پڑتے ہی دل اپنے پہلو سے  غائب تھا، اور جس وقت شیخ نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا، اور ان کے دست پاک سے اپنا دست ناپاک مس ہوا جسم میں ایک تھرتھری سی پڑگئی، اور یہ معلوم ہوا کہ آنکھوں کے سامنے ایک بجلی سے کوند گئی، آنکھیں پرنم تھیں، دل اندر سے بھرا چلا آتا تھا اور جی بےاختیار یہی چاہ رہا تھا کہ شیخ کے قدموں پر آنکھیں ملیئے اور خوب رو رو کر دل کی بھڑاس نکالیے :۔

اے ہلال ماخم ابروئے تو!۔

جلالت فاروقی کے متعلق مثنوی معنوی میں ایک شعر مدت ہوئی پڑھا تھا:۔

ہیبت حق است ایں از خلق نیست

ہیبت ایں مرد صاحب دلق نیست

اس ”ہیبت حق“کے معنی ایک بار ہندوستان میں روشن ہوئے تھے،۔ (اشارہ ہے حکیم الامت حضرت  مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں پہلی بار کی حاضری کی طرف) ۔اور دوسری بار آج جاکر روشن ہوئے! ۔جب نسبت فاروقی رکھنے والوں کی ہیبت و جلال کا یہ عالم ہے تو خود فاروقِ اعظم کی ہیبت و جلالت کا اندازہ اس زمانہ کے ضعیف القوی کیا اور کیونکر لگاسکتے ہیں۔

شیخ کا سن کچھ ایسا زائد نہیں معلوم ہوتا، اور قویٰ تو ماشاءاللہ قابلِ رشک ہیں، اللہ اس کی عمر اقبال میں برکت دے اور اس کی سپاہ کو نصرت و فتح نصیب کرے کہ اس بیسویں صدی کے دور یاجوجی میں جہادِ اسلامی اور غزائے شرعی کا نام روئے زمین پر اگر کہیں زندہ ہے تو اسی کے دم سے، ورنہ ہمارے روشن خیالوں نے تو حالات موجودہ میں اس کے صرف ناقابل عمل ہونے ہی پر بس نہیں کی بلکہ سرے سےاس کی عدم ضرورت ہی کا اعلان فرما رکھا ہے۔شیخ گفتگو صرف عربی میں فرماسکتے ہیں اور عربی ماشاءاللہ خوب فصیح و شستہ بولتے ہیں، گفتگو مختصر فرماتے ہیں لیکن ایک ایک فقرہ درد و اثر میں ڈوبا ہوا۔مولانا مناظر صاحب نہ صرف اپنی طرف سے گفتگو کررہے تھے بلکہ مجھ جیسے بےعلم و بےزبان کے ترجمان بھی وہی بنے ہوئے تھے۔ موضوع گفتگو کیا تھا؟۔ وہی مسلمانان عالم کی پستی اور بدبختی، وہی کلمہ گویان اسلام کی بےحسی اور بےبسی۔ ہندوستان کا ذکر آیا، ہندوستان کے مجاہدوں کا ذکر آیا، خلافت کمیٹی کی جدوجہد کا ذکر آیا، محمد علی و شوکت علی کی سرفروشیوں کا ذکر آیا، جانشیں شیخ الہند کا ذکر آیا۔آخر میں شیخ نے جس وقت دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہیں تو ہم لوگ تو بہرحال انسان تھے، معلوم یہ ہوتا تھا کہ کمرہ کے اندر بےجان چیزوں کے بھی جان پڑگئی ہے اور در و دیوار سقف و فرش کا ایک ایک ذرہ ان دعاؤں پر آمین کہہ رہا ہے۔

سلوک بطریق نبوت، ہندوستان کے لیے کوئی بالکل نئی اور نامعلوم چیز نہیں، ابھی بہت زمانہ نہیں ہوا کہ اودھ ہی کے ایک خاندان سے ایک سید اٹھا اور سرحد پر سکھوں کے مقابلہ میں اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹاکے اور اپنے آپ کو مٹاکے دنیا کو دکھادیا کہ ہندی مسلمان بھی جہاد و غزا کے معنی سے ناآشنا نہیں۔

ناقل: محمد بشارت نواز