بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں

از: حفیظ نعمانی
یہ اس وقت کی بات ہے جب ملک کی تقسیم کا مسلم لیگ مطالبہ کررہی تھی اور کانگریس جس میں ہندؤں کے ساتھ کافی تعداد میں مسلمان اور بڑے بڑے عالم بھی تھے اس کی مخالفت کررہے تھے۔ اس وقت دہلی سے مسلم لیگ کے اردو کے ۲ ؍اخبار نکلتے تھے۔ جنگ اور انجام۔ جنگ مسلم لیگ کا سرکاری اخبار تھا اور انجام کی یہ حیثیت نہیں تھی۔ انجام بھی شاید ۶ صفحات ہی کا تھا۔ اس کے صفحہ ۳ پر اوپر ہمیشہ ایک کارٹون ہوا کرتا تھا جس کا عنوان ہمیشہ ع ’’بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں‘‘ ہوا کرتا تھا اور کارٹون میں ہمیشہ گاندھی جی کو گاؤ تکیہ لگا کر بیٹھا ہوا اور ان کے منہ میں بہت بڑے حقہ کی ’’نے‘‘ دبی ہوتی تھی۔ اور حقہ کی چلم کسی بڑے عالم دین جیسے مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی یا مولانا آزاد کا چہرہ ہوتی تھی اور نیچے باریک لائن میں ان کے بیان کا کوئی ٹکڑا ہوتا تھا ۔جیسے ’’مسلمانوں کو یہ دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کے معنی لاالٰہ الا اللہ بتانے والا دین پر خود کتنا عمل کرتا ہے؟‘‘ (مولانا عطاء شاہ بخاری)
اخبار مسلمانوں کو صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ ہر وہ بات جو کوئی عالم دین کہہ رہا ہے وہ گاندھی جی ان سے کہلارہے ہیں۔ یہ بات تو اس وقت بھی سب سمجھتے تھے اور اب تو بہت زیادہ سمجھنے لگے ہیں کہ وہ صرف سیاسی اختلاف تھا اور جو کہہ رہا تھا وہ اپنی بات کہہ رہا ہوتا تھا۔ لیکن اس وقت ہم جیسوں ک و یہ معلوم نہیں تھا کہ ع ’’بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں‘‘ کا مظاہرہ واقعی ہوگا اور جسے مرکز میں اور ریاست کے ہر مرکزی شہر میں مسلسل دیکھنے کا موقع ملے گا؟
ہمارے سامنے اس وقت پارلیمامنٹ کے بجٹ اجلاس کی وہ تقریر ہے جو صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے ۳۱ جنوری کو پڑھی بھی۔ یہ پوری تقریر وزیر اعظم کے مختلف مقامات پر دئے گئے بیانات کے ٹکڑوں کا مجموعہ ہے، جسے لڑی میں پروکر صدر کا خطاب بنا دیاگیا ہے۔ وزیر اعظم اور صوبوں کے وزیر اعلیٰ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے سیاسی مشیر ہوتے ہیں ا ور وہ موقع اور ہر جگہ کے لیے اشارے تیار کردیتے ہیں کہ ان کی روشنی میں کہنا ہے۔ صدر جمہوریہ پورے سال میں دو بار یا کبھی تین بار خطاب کرتے ہیں۔ ان کے اوپر جو ہزاروں کروڑ روپیہ خرچ ہوتا ہے اس میں یہ گنجائش نکالی جاسکتی ہے کہ ایک بہت ماہر ملک کی صورت حال پر ا ن کے لیے ایسی تقریر تیار کرے جو حکومت کی پوری ترجمانی بھی کرے اور متراف الفاظ سے ایسے الفاظ کو لیا جائے جس کا مفہوم تو وہ ہو جو وزیر اعظم کہتے رہتے ہیں لیکن وزیر اعظم کے بولے ہوئے الفاظ سے کسی حد تک مختلف ہوں۔
صدر صاحب نے جو خطبہ پڑھا اور اس میں میری حکومت کہا جبکہ نہ جانے کتنے لیڈر اسے مودی سرکار کہہ چکے ہیں، سے ایسا محسوس ہوا کہ وہ ایک ہی مشیر ہیں جو وزیر اعظم کے لیے بھی تیار کرتے ہیں اور وہی ہیں جن کے ذمہ صدر کا کا خطبہ تیار کرنا بھی ہے۔ ضرورت اس کی تھی کہ نوٹ بندی سے جو ملک کے شہریوں کو خاص طور پر غریب عوام کو تکلیف ہوئی ہے اس کے لیے وہی الفاظ کہ ’’حال ہی میں کالے دھن کے خلاف لڑائی میں غیر معمولی صبر و تحمل کا مظاہر کیا‘‘ یہ سراسر جھوٹ استعمال نہ ہوتے بلکہ الفاظ بدل دئے جاتے۔
وزیر اعظم نے یہ الفاظ کہے تو کہے صدر صاحب کے منہ سے کچھ اور کہلانا چاہیے تھا اس لیے کہ جو کروڑوں آدمی بینک کی لائن میں مجبوراً لگے ان میں سے ایک بھی کالے دھن کے خلاف لڑائی میں نہیں کھڑا تھا۔ وہ صرف اپنی بھوک کا علاج کرنے آئے تھے اور حکومت کو ان میں سے ۹۸ فیصدی براکہہ رہے تھے اور بعد میں گالیاں دے رہے تھے اور یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے۔
وزیر اعظم نے اگر ان ۱۲۵ شریف انسانوں کی موت کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور ان کی جان کا معاوضہ نہیں دیا اور ان کے گھر جانے کی بھی ہمت نہیں کی تو کم از کم صدر صاحب کے منہ سے چند کلمات کہلادئے ہوتے۔ یہ انتہائی بے رحمی اور طوطاچشمی کی بات ہے کہ ان کے متعلق یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہ کالے دھن کے خلاف لڑائی میں حکومت کے ساتھ تھے اور جب اس میں جان قربان کردی تو حکومت ان سے منہ چھپائے گھوم رہی ہے اور نہ ان کروڑوں غریبوں کے لیے کوئی اعلان کررہی ہے جو ۸؍ نومبر کو اچھے خاصے کسی کارخانہ میں کام کررہے تھے اور۹؍ نومبر کو وزیر اعظم نے انہیں بیکار کردیا۔
اپنے خطاب میں صدر صاحب نے ہر سال دو چار صوبوں میں الیکشن کے عمل کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ اس سے ترقیاتی کام رُک جاتے ہیں اور عام زندگی درہم برہم ہوجاتی ہے۔ انھوں نے لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے پر زور دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ شاید دنیا کے بڑے ملکوں میں ہندوستان ایسا اکیلا ملک ہے جہاں ہر سال میلہ لگتا ہے۔لیکن اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ ایک مرتبہ سب کے الیکشن کرائے جائیں۔ یہ تو 1967میں ہوا تھا لیکن کانگریس کی جو حکومتیں دو چار ووٹوں کی اکثریت سے بنی تھیں ان کے لیے حکومت کو قابو میں رکھنا مشکل ہوگیا اور وہ کچے مکانوں کی طرح گرگئیں۔ معمولی اکثریت والی حکومت وہ بھی تھی جو اٹل جی کی تھی اور وہ بھی تھی جو 2009سے 2014تک رہی۔جس میں جو بدعنوانیاں ہوئیں وہ صرف اس لیے کہ کانگریس کی اکثریت نہیں تھی۔
ایک با ر اگر ہر صوبہ کی اسمبلی ختم کرکے لوک سبھا کے ساتھ الیکشن کرا بھی دیا جائے تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ سال دو سال کے بعد اسمبلی کی حکومتیں نہ گریں اور جب گرجائیں گی تو صدر راج کیسے ۴ سال برداشت ہوگا؟ یہ اس وقت ممکن ہے جب پارٹیوں پر پابندی ہو۔ ہمارے ملک میں پارٹی بنانا تو شادی کرنے سے بھی زیادہ آسان ہے اور جب تک اس پر پابندیاں نہیں لگیں گی اس مسئلہ پر بات تو کی جاسکتی ہے لیکن اس مرض کا علاج نہیں ہوسکتا۔
صدر کے خطبہ میں سرجیکل اسٹرائک پر بھی خوشی کا اظہار کیا گیا ہے۔ بیشک یہ ہماری فوج کا کارنامہ ہے اور ہم نے تو اس سے آگے کا بھی مشورہ دیاتھا اور اگر ضرورت ہو تو رعایت نہ کرنا چاہیے اس لیے کہ سرحد کے پار سے جو دہشت گرد آتے ہیں وہ نہ حکومت کے ہیں نہ فوج کے یہ سب سعید اور اظہر یا صلاح الدین جیسے ناپاک لوگ ہیں جو غریبوں اور جاہلوں کو جنت کے لیے قربان کردیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب انجام بد مصرعہ لکھ کر کارٹون بنایا تھا اس وقت تو یہ صرف مسلم لیگ کی مجبوری تھی لیکن آج جو ہمارے صدر اور صوبوں کے گورنر اپنے ضمیر اور اپنے موقف کے خلاف حکومتوں کے تیار ہوئے سبق سنارہے ہیں۔یہ صرف وہ غلامی ہے جوانگریزوں سے ملک کے لیڈروں نے لی ہے کہ یا تو گھر جاؤ ورنہ پنجرے میں بند طوطے کی طرح وہ بولتے رہیں جو کھانا دینے والا بولنے کو کہے۔