یہ نشریہ لکھنو ریڈیو اسٹیشن سے 18اپریل 1939ء کی شام کو نشرہوا ۔ اس میں مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے کلام مجیدکی خصوصیات ،تعلیمات اور افادیت کا ذکر بہت ہی جامع، اپنے خاص انداز، اور ۱۵ منٹ کے محدود وقفہ میں کیا ہے۔ تحریرکی شگفتگی، اسلوب کی ندرت اور چاشنی دل موہ لینے والی ہے۔ تحریر میں فنی خوبیاں؛ تشبیہ، استعارہ اور کنایہ کی بہترین مثالیں جا بہ جا بکھری ہوئی ہیں، لفظی اور معنوی صنعتوں کی ایسی کثیر خوبصورت ترکیبیں موجود ہیں کہ جنھیں پڑھ کر ان کی توصیف و خوبی کا حسن ذہن پر نقش ہو جاتا ہے ۔ ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
رات کاوقت ہے ،تارے آسمان پرچھٹکے ہوئے ،دنیااندھیرے کی چادرمیں لپٹی ہوئی،خلقت خوابِ غفلت میں مدہوش، ایک خداکابندہ ہے کہ اس وقت بھی ہوشیار، بصارت اوربصیرت دونوں بیدار۔ یکایک آسمان کے ریڈیوسے مکّہ کی سرزمین پرنشرشروع ہوجاتاہے ۔ سب سے پہلی لہر جوکرہ زمین کی فضا میں براڈ کاسٹ ہوتی ہے اس کا عربی تلفظ ہے اقرأ ۔ یعنی پڑھ۔قرآن بھی اسی مادہ سے بناہے ۔ اس کے معنی ہیں وہ چیز جوپڑھی جائے، وہ چیزجوپڑھنے کے لیے ہے۔ سنہ شمسی مسیحی سے حساب لگائیے تو بات آج سے ۱۳۲۹ سال قبل ۶۱۱ءکی ہے اورسنہ قمری اسلامی کونگاہ میں رکھیے تو ۱۳۸۵ھ میں ۱۳ سال اورجوڑکر ۱۳۷۱ کی مدّت اسے گزرے ہوئے سمجھ لیجیے
قرآن آسمان سے لکھالکھایا ایک دن میں اک بارگی نہیں اترآیا۔ کل مدّت کوئی ۲۲۔۲۳سال کی لگی کبھی کوئی ایک آدھ آیت نازل ہوتی تھی کبھی اکٹھی بہت سی آیتیں ۔کبھی نزول بہت جلدجلد ہوتا، کبھی درمیان میں لمبے لمبے وقفےہوجاتے ۔ اس غیبی ریڈیوکے اناﺅنسر کہناچاہیے کہ مشہور ومعزز فرشتہ جبرئیل امین تھے اورعرشِ الٰہی سے اٹھنے والی لہروں کو قبول کرنے والی پلیٹ حضرت محمدمصطفیﷺ کے قلبِ مبارک کی لوحِ باصفاتھی۔
قرآن کاسب سے پہلا وصف جوقرآن کے شروع ہی میں بیان ہواہے یہ ہے کہ وہ ایک کتاب ہے،ایک ضبط تحریرمیں آئی ہوئی وحی الٰہی ہے، محض زبانی یادداشتوں کا مجموعہ نہیں اوراس کی کتابت ایسی ہے کہ اس کے سارے اوصاف سے زیادہ نمایاں ۔ یہاں تک کہ آج اس کے سامنے دنیاکی کسی اور کتاب کو کتاب کہنا ہی مشکل ہے ۔ یہ خوش عقیدگی نہیں اظہار واقعہ ہے ۔ خیال کرکے دیکھیے آج روئے زمین کے مختلف حصّوں میں مسلمان ۴۰کروڑ آبادہیں۔ان میں نمازی اگرسومیں پانچ فرض کیے جائیں جب بھی نمازیوں کی تعداد دوکروڑ نکلتی ہے اورجتنے نمازی ہیں سب قرآن کاکچھ نہ کچھ حصّہ ضرور ہی یادسے پڑھتے ہیں۔ نفلوں کوچھوڑیے جونمازمیں فرض ہیں وہی پانچ مرتبہ روزانہ ہیں اورقرآن ہر رکعت میں پڑھاجاتاہے اورسال کے پورے ایک مہینہ رمضان میں قرآن کا دور رات کی نمازوں میں جو ہوتا رہتا ہے وہ اس کے علاوہ ۔ اورقرآن کے حافظوں یعنی ان کاجنہیں قرآن اوّل سے آخرتک ازبرہوتا ہے کوئی شمار ہی نہیں! مصر، شام، فلسطین، عراق وغیرہ میں یہودیوں اورمسیحیوں کو جوسورتیں پرسورتیں یاد ہیں وہ الگ اورپھردنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں قرآن جوعربی ادب کے نصاب میں داخل ہے وہ ان سب پر مستزاد ۔ حکم "اقرأ" کی تعمیل اورکتاب کی "پڑھائی" کی ایسی مثال اس پردہ زمین پراورکہاں ملے گی؟ جب ہی تو یہ شہادت ایک مسلم نہیں غیرمسلم فاضل کی زبان سے قرآن کے حق میں ادا ہوئی ہے کہ:
۔MOST WIDELY READ BOOK IN EXISTENCE ۔وہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی موجودکتاب ہے۔
اسلام کا عقیدہ یہ نہیں کہ رسولِ اسلام ﷺ بندہ یا بشرہونے کے علاوہ کچھ اوربھی تھے ۔ وہ محض انسان تھے جیسے ہم سب ہوتے ہیں ۔البتہ اپنی صفائے قلب، پاکیزگی ضمیر، بلندی روح کے لحاظ سے ہم سب کے سرور و سردار تھے۔ قرآن آپ کے قلب پر نازل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ادھرکلام الٰہی فرشتہ کی زبان سے سن کر آپ دہراتے جاتے اور ادھر وہ کلام آپ کی لوح قلب پرنقش ہوتا جاتا اور اس کے بعد آپ دوسروں کوپڑھ کر سنادیتے ۔ عرب کاحافظہ ضرب المثل کی شہرت رکھتاہے، ان کی قومی تاریخ کا دارومدار ان کے حافظہ ہی پرتھا۔ بڑے بڑے طویل نسب نامے انھیں نوکِ زبان رہتے۔
نسب نامے اپنے ہی نہیں، اپنے جانوروں تک کے ! شاعروں کے دیوان کے دیوان ، انھیں ازبررہتے۔ یورپ خودعرب کی قوّت حفظ پر حیرت کررہاہے اور پھریہاں تو اس فطری قوّت حفظ کے ساتھ دلی عقیدت وشیفتگی بھی جمع ہوگئی تھی، جوکچھ بھی سنتے، سب نقطہ وشوشہ، زیروزبر کے رکھ رکھاﺅ کے ساتھ صفحہ دل پر اس طرح اتارلیتے کہ گویا پتھر پر لکیر بن گئی ۔
حفاظت قرآن کے لیے حافظہ خود ہی کیاکم تھا۔ اس کوکمک یوں پہنچی کہ قرآن عین اسی زمانہ سے نمازمیں پڑھنافرض ہوگیا۔ کوئی یہ سورت پڑھ رہاہے کوئی وہ ۔فلاں فلاں آیتیں اس نماز میں دہرائی جارہی ہیں فلاں فلاں اس نماز میں۔ یہ ہروقت کادوراورتکرار تو ایسی چیز ہے کہ کمزورحافظہ والوں کوبھی بات بھولنے نہیں دیتی چہ جائے کہ جب یہ عمل عرب جیسی زبردست حافظہ والی قوم شروع کردے۔ رسولﷺکے ایک صحابی تھے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، قرآن کی کل ۱۱۴ سورتوں میں سے ۷۰ تو اکیلے انھیں کو یادتھیں لیکن اتنے پربھی بس نہیں حفاظت قرآن کاسامان کافی کے حدودسے کہیں زائد۔ رسول کے ایک نہیں کئی ایک رفیقوں یعنی صحابیوں نے مختلف سورتوں کولکھنا بھی شروع کردیا۔ حدیث میں ان صحابیوں کے نام تک دیے ہوئے ہیں۔ کاغذ کا کام اس زمانہ میں عمدہ باریک چمڑے سے لیا جاتا تھا۔ کچھ قرآن اس پرلکھ دیاگیا۔ کچھ کھجور کے پتّوں پر اتارا گیا۔ کچھ لکڑی کی تختیوں پرنقش کر لیا گیا۔ غرض اس طرح کئی متفرق طورپر کئی کئی نقلیں قرآن کی رسولﷺ کے زمانہ مبارک ہی میں ہوگئیں تھیں۔ حضرت زیدبن ثابتؓ ان سب لکھنے والوں کے سردار اورکہنا چاہیے صاحب قرآن کے باضابطہ سیکریٹری تھے۔ حدیث میں ان کا نام کاتب الوحی آتا ہے۔یہ تفصیل اس غرض سے بیان کی گئی کہ قرآن کی محفوظیت کا نقشہ نظرکے سامنے آجائے اور یہ اسی اہتمام کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمان جہاں کہیں بھی آبادہیں چاہے وہ برازیل ہو یا چین ، فرانس ہو یا ہالینڈ ،بورنیو ہو یا جاپان ، جاوا ہو یا فن لینڈ۔ اورخواہ کسی فرقہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں سب کاقرآن بہرحال ایک ہی ہوگا۔ وہ بات بات پر آپس میں لڑیں گے اوراکثر بغیر کسی بات کے بھی۔ لیکن یہ نہ ہوگاکہ ایک فرقہ کا ایمان ایک قرآن پر ہو اور دوسروں کے ہاتھ میں کوئی دوسرا ہو۔ قرآن کے بے گنتی اوربے شمار نسخوں میں اختلاف، سورتوں کا اور آیتوں کا توخیربڑی چیزہے، کوئی فرق اگر لفظوں کا،حرفوں کا، شوشوں کا بھی نکالنا چاہیے تویہ حسرت دل ہی میں لیے دنیاسے رخصت ہوجائے گا۔
اورپھر حافظوں کا وہ عجیب وغریب نظام جو دنیاکے عجائب میں شمارہونے کے قابل ہے۔ آج سے نہیں اول روز سے قرآن کا لفظ لفظ اورحرف حرف اس کثرت سے لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہے کہ آج خدانخواستہ سارے ہاتھ کے لکھے ہوئے اورمطبع میں چھپے ہوئے قرآن دنیا سے ناپید ہوجائیں تو محض ان زندہ اورمتحرک قرآنوں کی مددسے سارا قرآن اول سے آخرتک بلا دقّت لکھا جاسکتا ہے۔ خود اس تقریر کے سننے والوں میں آج خدا جانے کتنے حافظ موجود ہوں گے۔ مجھ سے اگرقرآن کی کسی آیت کے پڑھنے میں غلطی ایک لفظ کی نہیں ایک حرف کی، ایک حرف کی بھی نہیں محض اس کے زیرزبر کی ہوجائے تو سیکڑوں آوازیں ٹوکنے والی اپنی اپنی جگہ پر اک بارگی بلند ہوجائیں۔ قرآن کایہ وصف وہ ہے جس کا اقرار جتنا ماننے والوں کوہے اسی قدرمنکروں کوبھی۔ جرمنی کے نولڈیکی اوربرطانیہ کے مارگیولیتھ معتقد ومومن نہیں نکتہ چین وحرف گیرہیں اورقرآن کوکلامِ الٰہی نہیں زور و شور سے کلام بشرقراردینے والوں میں سے ہیں لیکن اتنا بہرحال کہے جاتے ہیں کہ یہ ہے وہی کلام جوساڑھے تیرہ سو سال قبل مکہ اورمدینہ کی گلیوں میں اوّل اوّل صاحب قرآن کی زبان سے ادا ہوا تھا۔
قرآن پڑھائی کی سہولت کے خیال سے ۳۰ برابرحصّوں میں تقسیم کردیا گیاہے، ہرحصّہ ایک پارہ کہلاتاہے ۔ لیکن اصلی تقسیم رسول اللہﷺ کی فرمائی ہوئی پاروں میں نہیں سورتوں میں ہے۔ سورة وہی چیز ہے جسے ہم دوسری کتابوں میں باب کہتے ہیں ۔ کل سورتیں ۱۱۴ہیں۔ آیت کو عام بول چال میں جملہ سمجھیے اوربائبل کی اصطلاح میں درس ۔ جب کوئی آیت نازل ہوتی تو رسولِ خداﷺ فرماتے اس کوفلاں سورت میں لکھ لو۔ اب فلاں سورت ختم کرو۔ اس طرح سارا قرآن آپﷺ اپنے سامنے مرتب فرماگئے ۔آپ کے بعد جب بہت سے حافظ جہادمیں شہیدہوگئے توطے یہ پایا کہ سارا قرآن ایک جگہ مرتب کرکے لکھ لیا جائے ۔چنانچہ لکھ لیاگیا، اس کے بعد تیسرے خلیفہ حضرت عثمانؓ نے اپنے زمانہ میں یہ کیا کہ اپنی نگرانی میں دوسرے ماہرین قرآن صحابیوں کی مددومشورہ سے ایک مکمل صحیح نسخہ قرآن کانقل کردیا اور پھراس صحیح ومستند نسخہ کی نقلیں دوسرے مرکزی شہروں میں بھجوادیں کہ اغلاط کتابت کابھی ڈرنہ رہے۔ آج دنیامیں جتنے قرآن ہیں سارے کے سارے گویا اسی چراغ سے دوسرے چراغ برابر جلتے چلے آرہے ہیں۔
آیاتِ قرآنی کی کل تعداد '۶۶۱۶' ہے اور الفاظ قرآنی کی '۷۷۹۳۴' اوربعض نے ہمت کرکے حروفِ قرآنی کوبھی گن ڈالا ہے اور ان کی میزان"۳۲۳۷۶۰" بتائی ہے ۔قرآن کی شرحیں جنھیں تفسریں کہتے ہیں عربی میں بڑی کثرت سے لکھی گئیں اور اب تک لکھی جارہی ہیں۔ ہرشارح نے قرآن کو اپنے فہم و مذاق کے مطابق سمجھنا اورسمجھانا چاہا ہے اورچونکہ ہردورکی معلومات اوربصیرتیں دوسرے سے مختلف ہونا لازمی ہیں، اس لیے تفسیروں کاباہمی اختلاف نہ تعجب خیزہے نہ قابلِ اعتراض ، ترجمے بھی متعددزبانوں میں ہوچکے ہیں اورروزبروز ہوتے جارہے ہیں۔ فارسی کا پہلاترجمہ شیخ سعدیؒ کی جانب منسوب ہے،جاپانی میں ترجمہ ہوچکاہے اورچینی زبان میں ایک نہیں متعدد موجودہیں۔ ہندوستان میں ہندی تلنگی اور تامل زبان میں ترجمے کم ازکم ۲۰۔۲۵کی تعداد میں ضرور موجود ہیں۔ پرانے ترجموں میں شہرت استناد کے سب سے بڑے حصّے دار شاہ عبدالقادر دہلویؒ اور شاہ رفیع الدین دہلویؒ ہیں،حال کے حضرات کی کاوشوں کا بہترین نمونہ مولانا اشرف علی تھانویؒ کاترجمہ اورمولانا شبیراحمدصاحبؒ کاحاشیہ ہے۔
یورپ نے اسلام اورمسلمانوں کوسب سے قریب سے ، پہلے پہل گو دشمن کی حیثیت سے، کہیں بارہویں صدی عیسوی میں کروسیڈس(حروب صلیبی) کی تقریب سے دیکھا اور کہتے ہیں کہ لاطینی زبان میں پہلاترجمہ رابرٹ آف رٹینا کے قلم سے ۱۱۴۲ءمیں ہوا۔ ۱۵۲۲ءمیں بیلنڈرنے اس ترجمہ کو اٹالین زبان میں شائع کیا۔ پھرمتعدد ترجمے فرنچ اورلیٹن میں ہوئے۔ ۱۶۴۸ءمیں پہلا انگریزی ترجمہ فرنچ کے واسطہ سے الگزنڈرراس کے قلم سے ہوا۔ سراکی کے لیٹن ترجمہ نے ۱۶۹۸ءمیں دھوم مچادی، جارج سیل کا انگریزی ترجمہ۱۷۳۴ءمیں نکلا اور اس نے انگریزی ترجموں کی راہ کھول دی۔ لین، راڈول،پامر اور سب سے آخر میں بل۔ یہ سب مسیحی مترجمین تھے۔ نومسلم انگریز پکتھال کے قلم سے ترجمہ نکلے ہوئے ابھی چندسال ہی ہوئے ہیں ۔ اس جماعت کا تازہ ترین شاہ کار عبداللہ یوسف علی کاترجمہ ہے ، ڈچ اورجرمنی زبانوں میں ترجمے لاہورکی انجمن اشاعت الاسلام کی طرف حال ہی میں ہوئے ہیں۔
قرآن محض کتاب العقائد نہیں۔ ایمانیات ،عبادات ،معاملات، فقہ، قانون سب کاجامع، زندگی کا ایک مکمل دستورالعمل ہے۔ اوراس لحاظ سے سرڈینی سن راس کایہ لکھنابالکل برحق ہے کہ قرآن کی حیثیت مسلمانوں کی نظرمیں اس سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے جوبائبل کی مسیحیوں کی نظرمیں ہے۔ قرآن کی اعلیٰ اورمرکزی تعلیم توحید ہے ۔سیکڑوں کیاہزاروں آیتوں میں اسی ایک مضمون کو دہرایاہے۔ ہر ہر ڈھنگ سے کہ خدا ایک ہے۔ اس کاکوئی شریک نہیں نہ ذات میں نہ صفات میں، سب اس کی مخلوق، سب اس کے بندے، کوئی نہ اس کا مظہر نہ اس کابیٹا۔ قدیم صرف اس کی ذات، باقی سب حادث وفانی ، روح و فرشتہ و پیمبر سب اس کے محتاج ، وہ خود سب سے بے نیاز، سب اسی کے اشارے پر نیست سے ہست ہوئے۔ وہی سب کو عدم محض سے وجودمیں لایا بغیر روح ، مادہ یا کسی سہارے کے ۔ وہی سب کاخالق وہی سب کارازق ، وہی جلاتاہے وہی پالتاہے وہی مارتاہے، وہی قدرت والا، علم والا، حکمت والاہے ، نہایت درجہ شفیق وحلیم ، کریم و رحیم، بندوں کو نیک و بدپوری طرح سمجھاکردونوں راہیں ان کے سامنے کھلی چھوڑ دی ہیں۔ اب جوچاہے فہم وقوت ارادہ کے صحیح استعمال سے راہ راست اختیارکرے ،جس کانتیجہ راحت ہی راحت ہے اور جو بدبخت چاہے اپنی بدفہمی اورکج روی سے ٹیڑھے راستہ پر پڑے جس کاانجام مصیبت ہی مصیبت ہے ۔خدا ظالموں کو ان کے عمل کی سزابھگتائے گا اوریہ اس کاغضب و انتقام ہے، لیکن کوئی مجبوری و پابندی اس پر اس باب میں نہیں جس کوچاہے معاف بھی کرسکتاہے۔
اس کی صفت عدل کے پورے ظہور کے لیے لازمی ہے کہ اس "آج" کا ایک کل بھی ہو۔ اس لیے اس سلسلہ کائنات کے خاتمہ پر قیامت قائم ہوگی، اس وقت ہرچیز غیب سے نکل کر مشاہدہ میں آجائے گی، آج جوپردہ پڑا ہوا ہے وہ سب کی آنکھوں سے ہٹ جائے گا، اوریہ حقیقت اپنی شکل میں ہرایک کو نظرآجائے گی۔ عمل وعقیدہ کے جو بیج آج پڑچکے ہیں کل سب پورے درخت ہوکر نمایاں ہوں گے۔ اچھوں کے لیے جواخروی اور ابدی آرام گاہ ہے اس کانام جنّت ہے ، جہاں کی نعمتوں کی نہ کوئی حدہے نہ انتہا ۔ بدوں کے لیے جودائمی جیل خانہ ہے اس کانام دوزخ یاجہنم ہے ۔ جن بدنصیبوں نے اپنی روح میں جنت کی نعمتوں کے قبول کرنے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رکھی ہے ان کے لیے اس قیدخانے سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے گوبرکاکیڑا عطردان کے اندرزندہ رہ ہی نہیں سکتا۔ خدانے عقل وفہم سے بڑھ کر ایک اورنعمت انسان کودی ہے اس کانام وحی ہے۔ اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے ہرملک اور ہرزمانہ میں وہ اپنے کسی بندہ کو اپناخاص پیام بھیجتا رہتا ہے ، اسے وحی کہتے ہیں۔ ایسے بندہ کو پیمبر یا رسول ۔ پیمبروں پرکتابیں نازل ہوتی رہی ہیں۔ خدا اور خاک کے بنے ہوئے رسول کے درمیان ایلچی کا کام ایک نوری مخلوق سے لیا جاتاہے،جسے ملک یا فرشتہ کہتے ہیں۔ ساری حکومت الٰہی میں قانونِ الٰہی کانفاذ بھی ان ہی فرشتوں کے ذریعے سے ہوتا رہتاہے ۔ بس اس کے سوا فرشتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ کارخانہ قدرت میں بجائے خودکوئی دخل، تصرف اوراختیار انھیں مطلق حاصل نہیں۔ کتابوں کے سلسلہ میں سب سے آخری کتاب کا نام قرآن ہے۔ زندگی کے اس مکمل ومحفوظ دستورالعمل کے بعد اب قطعاً کسی دوسرے ہدایت نامہ کی دنیاکو ضرورت نہیں، اور پیغمبروں کے سلسلہ کے خاتم محمدمصطفیﷺ ہیں جن کا لایا ہوا قانون شریعت اتنا جامع ومفصل اورتمام ضروریات وحالات بشری کا اس طرح کفیل ہے کہ اب گنجائش نہ کسی نبی جدید کی، نہ کسی نبوّت مزیدکی۔ آئندہ بھی جتنی ضرورتیں پیش آئیں گی سب کے حل اسی عالم گیر شریعت کے کلیات سے نکلتے رہیں گے۔
قرآن کے بتائے ہوئے اہم وبنیادی عقائدبس اسی قدرہیں ۔اصلاح عقائد کے بعد قرآن کا سارا زور اصلاحِ عمل پرہے۔ عبادات کے سلسلہ میں اس نے سب سے پہلے نمازکو پیش کیاہے۔ صبح تڑکے قبل طلوع اور بعد دوپہر سہ پہر کو اورشام کو اورکچھ رات گئے، پانچ وقت ہرمسلمان عورت و مرد پرفرض ہے کہ چہرہ اور ہاتھ پیرکو ایک خاص طریقہ پر دھو کر جس کووضوکرناکہتے ہیں ، کعبہ کی طرف منہ کر کے ایک خاص طریقہ پرکھڑے ہوکر اور جھک کر اورزمین پرگرکر اپنے معبود کو یادکرے، اور اس سے زائد باربھی کرسکے توبہترہے۔ مردوں پرلازم ہے کہ نمازمسجدمیں جاکرحتی الامکان جماعت کے ساتھ ادا کریں ۔ دن میں پانچ پانچ مرتبہ ایک خاص وقت پرایک خاص سمت رخ کرکے بڑے اورچھوٹے، امیرو غریب، عالم وعامی سب کا ایک ساتھ ہاتھ باندھنا ، ایک ساتھ جھکنا اورگرنا اور اٹھنا، ایک ساتھ عرض معروض کرنا، اپنے اندر جو ذخیرہ روحانی ومادی اسرارکا رکھتاہے ان کی جانب اگر اشارے بھی کیے جائے تویہ تقریر اپنی پاﺅ گھنٹے کی بندھی ہوئی مدّت سے کئی گنی بڑھ جائے۔
نماز کے بعد دوسرا فرض رمضان کے روزے ہیں۔ چاندکے سال میں جب نویں مہینہ کاچاند دکھلائی دے اس وقت سے ہر مسلمان مردعورت پر فرض ہوجاتاہے کہ ایک مہینہ کی مدّت تک صبح تڑکے سے لے کرغروب آفتاب تک اپنے کوبھوک پیاس وغیرہ جائز جسمانی خواہشوں سے روکے اور ان لذّتوں سے اپنے کومحروم کیے رکھے ۔ سال کے بارہویں حصّہ میں یہ مسلسل مجاہدہ یا انگریزی اصطلاح میں ڈسپلن اگر اپنے شرائط کے ساتھ پوراکرلیاجائے تویہ ایک عجیب وغریب روح مادّی و روحانی دونوں حیثیتوں سے اُمّت اسلام میں پھونک دیتاہے۔ تیسرا رکن عبادات اسلامی کا زکوٰة اورچوتھاحج ہے۔ قرآن میں نیک کاموں میں خرچ کی انتہائی ترغیب دی گئی ہے، لیکن اس کے علاوہ خوش حال لوگوں پر ان کے مال کاچوتھائی حصّہ کارِخیرمیں دیتے رہنا لازمی کردیاہے اس کا نام زکوٰة ہے۔ سونا چاندی غلّہ جانوروں وغیرہ کے لیے الگ شرحیں ہیں۔ اس خدائی ٹیکس کی دنیوی مصلحتوں اورحکمتوں کا حال آج کسی ماہر معاشیات سے پوچھ دیکھیے ۔ حج نام ہے اس سالانہ اجتماع کا جو مرکز اسلام مکّہ میں خانہ کعبہ کے اردگرد اسلامی سال کے آخری مہینہ ذی الحجّہ کی ۸تاریخ سے لے کر ۱۲۔ ۱۳ تک ہوتا رہتا ہے۔ اس میں شرکت ،طواف، احرام وغیرہ کے ساتھ دنیا کے ہرگوشہ کے صاحب قدرت مسلمان پر فرض ہے۔ یہ بین الاقوامی کانگریس روحانی پہلوکو چھوڑیے ملی منافع کے اعتبارسے بھی بس اپنی نظیرآپ ہے۔ امریکہ کے ایک صاحب نظرمفکّر ڈینٹسن نے سائیکالوجی (نفسیات) اور سوشیالوجی(اجتماعیات) پرایک بلندپایہ تصنیف۔ Emotion as the basis of civilization۔کے نام سے ابھی کچھ روز ہوئے شائع کی ہے۔ اس میں ضمناً وتفصیلاً ذکر ان چاروں ارکان کا آگیاہے ۔ مصنف نے چاروں کی داددل کھول کردی ہے اوریہ ایک نام توصرف نمونہ کے طورپرآگیاہے ورنہ آنکھیں تو بہتوں کی اسی طرح کھل چکی ہیں۔
عبادات کارخ براہ راست خالق کی طرف ہوتاہے ۔کردارانسانی میں جہاں سابقہ ایک مخلوق کادوسری مخلوق سے رہتاہے ان حصّوں کا نام اخلاق اورمعاملات ہے۔ اس میں انسان کا برتاﺅانسان کے ساتھ ، بیوی کے ساتھ ، ماں کے ساتھ، محکوم کے ساتھ، ہم سفر کے ساتھ، خوداپنے نفس کے ساتھ، غرض سب ہی کے ساتھ آجا تا ہے۔ قرآن نے زندگی کے ان سارے شعبوں سے متعلق ایک ہمہ گیر ضابطہ عمل پیش کیاہے۔ معاملات کو عبادات کے حکم میں داخل کیاہے اور اپنے پیروﺅں کو ہرگز آزاد و بے قید نہیں چھوڑاہے کہ جوچاہیں کھائیں پئیں ، جس طرح چاہیں رہیں اورجس سے جس طرح جی آئے ملیں جلیں۔
قرآن کے نقشہ زندگی میں شراب اور اسی طرح کے نشے قطعی منع ، بعض گندے جانور(مثلاًسور) حرام، اورکوئی سابھی جانور ہو جب تک خدا کا نام لے کر اسے نہ ذبح کیا جائے حلال نہیں ۔سودکالین دین، شرح ہلکی سی ہلکی سہی، بہرصورت حرام ۔ جوئے کی اجازت قطعاً نہیں۔ مرد و عورت کے آزادانہ خلاملاکی ساری راہیں بند۔ بدنظری پر پہرا بیٹھا ہوا۔ گندی نظمیں، گندے کھیل تماشے، ناٹک سوانگ ، گندی تصویریں الگ رہیں قرآن ایسے تذکروں اور چرچوں کابھی روا دارنہیں ۔ غیبت ، جھوٹ، بہتان، دل آزاری، بد عہدی، تجارتی دھوکا دھڑی، سب کی روک تھام کے لیے سخت سے سخت سزائیں اور وعیدیں موجود۔ ایک سے زائدشادی کرنے اورطلاق دینے کے باب میں نہ اتنی تنگی کہ کسی حال میں اورکسی ضرورت سے بھی ان کی گنجائش ہی نہ نکلے اورنہ اتنی آزادی کہ جب جس کاجی چاہے بغیرکوئی ذمہ داری محسوس کیے کرگزرے ۔ دینِ فطرت کے دستورالعمل میں فطرتِ بشرِی کے مطابق ہرجگہ مناسب قیود، ہرقدم پر مصلحت وحکمت کے حدود۔ عورت کونہ اتنا دبایاکہ بیوی کوباندی بنا کر چھوڑا، نہ اتنا چڑھایا کہ شوہروں پر دھوکا زن مردیدوں اور زن پرستوں کا ہونے لگے۔ ان کے حقوق ان کے اوپر ، ان کی ذمہ داریاں ان کے سر۔ ہرمعاملے میں زور حق سے کہیں زیادہ فرض پر۔ خرچ میں نہ اسراف کی اجازت نہ بخل کی حمایت۔ ہرچیز نقطہ اعتدال پرنہ افراط یا زیادتی کی لعنت، نہ تفریط یا کمی کی شامت۔ کوئی چوری کرے تو اپنے ہاتھ سے ہاتھ دھوبیٹھے ۔ نکاح کے دائرہ سے قدم باہرنکالے توجیتا بھی نہ بچنے پائے ۔ ماں باپ کی خدمت کی تاکید شدید، عزیزوں، مسکینوں، پڑوسیوں، ہمسایوں سب کے حقوق ادا کرنے واجب ۔ بلاضرورت اوربغیرمقصد صحیح کسی مخلوق پربھی ہاتھ اٹھانا جائز نہیں۔ اور جب شریعت کے مطابق ضرورت آپڑے توپھر خداکی راہ میں بندہ بڑھ بڑھ کر اپنی جان دے اور دوسرے کی جان لے۔
قرآن کی حکومت اگرکسی خطہ زمین پرقائم ہوجائے توآب کاری کامحکمہ شریف تو اسی دن تخفیف میں آجائے۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں پینے پلانے کی دوکان بڑھ جائے ، شرابیوں، افیونیوں، چانڈو بازوں کے ہوش ٹھکانے آجائیں۔ تاڑی خانوں، سیندھی گھروں میں جھاڑوپھر جائے۔ قمارخانوں میں قفل پڑجائیں، ناچ گھراجڑجائے، فحش و بے حیائی کے اونچے اونچے بالاخانوں پرخاک اڑنے لگے ۔ ایکٹروں اور ایکٹریسوں کا بازار سرد ہوجائے۔ "ہالی ووڈ" میں نوبت فاقہ کشی کی آجائے۔ سنیما اورتھیٹروں کے پردوں پر ہمیشہ کے لیے پردہ پڑجائے ۔ عدالتوں کی رونق اور وکالت کی جان دروغ حلفی جاتی رہے۔ سودی بینکوں اورمہاجنی کوٹھیوں میں کتے لوٹنے لگیں ۔ لاٹریاں پڑنا، دیوالے نکلنا، جائدادوں کا نیلام قصّہ کہانی بن جائے۔ مجرموں کی، مجنونوں کی، خودکشی کرنے والوں کی تعداد گھٹتے گھٹتے صفرتک آجائے ۔ چوروں ، رہزنوں ، قاتلوں پر دنیا تنگ ہوجائے ، ڈپلومیسی کے لقب سے عزّت پانے والی مکاریاں اور آرٹ اورفائن آرٹ کے پردہ میں چمکنے والی بے حیائیاں سب اس جہاں کو داغ مفارقت دے جائیں۔