اُردو زبان  کا پہلا صحافی۔ منشی پیارے لال شاکر میرٹھی... عابد رضا بیدار

Bhatkallys

Published in - Other

07:45AM Sat 29 Dec, 2018

اس مراسلہ میں ہم ایک نیا تحفہ پیش کرتے ہیں۔ یہ ایک تعارف ہے اردو زبان کے سب سے پہلے صحافی کا۔ ان کا نام تھا منشی پیارے لال شاکر میرٹھی۔ انہوں نے کئی صحافتی جریدوں پر کام کیا تھا اور پوری عمر اسی کام میں صرف کی ۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے میرٹھ  (اُتر پردیش) کے رہنے والے تھے اور مذہباً عیسائی تھے۔ یہ مضمون جو یہاں تعارف کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے یہ انکے گزشتہ پرچے العصر کی پانچ سالہ اشاعت کا نچوڑ ہے۔ العصر لکھنؤ سے شایع ہوتا تھا کیونکہ شاکر میرٹھ سے لکھنؤ منتقل ہو گئے تھے اور العصر کی اشاعت کے دوران لکھنؤ ہی میں رہے۔ اس انتخاب کی اشاعت بہت بعد کی معلوم ہوتی ہے۔ جیساکہ اردو اشاعت کا طریقہ رہا ہے، اس میں تاریخ اشاعت کہیں درج نہیں ہے۔ اشاعت  خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ کی کی ہوئی ہے۔

پڑھیے، لطف اُٹھائیے اور تبصرہ بھی کیجیے۔

شکریہ۔

مخلص۔ سید محسن نقوی ۔ شیکاگو

پیش گفتار

پیارے لال شاکرؔ میرٹھی باشندہ میرٹھ۔ شاگرد حضرت شوکت میرٹھی، مذہباً عیسائی۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔  مدتوں منشی راے نظر سے دوستی اور رفاقت رہی اور کلام میں بھی ان سے مشورہ کرتے رہے۔

پیدائش میرٹھ میں ۱۳ مارچ ۱۸۸۰ ء کو ہوئی، ۲۰ فروری ۱۹۵۶ء کو وفات پائی۔ قبر پہاڑ گنج دہلی کے مسیحی قبرستان میں ہوئی۔

جوانی اور ادھیڑعمر لکھنؤ میں رہے اور آخری عمر دہلی میں دریا گنج دہلی کے محلہ کلاں محل میں واقع مسیحی بستی میں گزری۔ (اس انتخاب میں لکھنؤ کے العصری عہد کی ایک تصویر کے ساتھ آخر عمر کی ایک تصویر مسٹر ٹامس کی عنایت سے شایع کی جا رہی ہے)

انگریزی، اردو، فارسی پر عبور تھا اور سنسکرت اور ہندی سے واقف تھے۔ میگھ دوت کا ترجمہ ان کی یاد گار ہے۔آ ّخر میں مسیحی لٹریچر کی طرف توجہ تھی اور پادری اسٹیورڈ کے ساتھ مدتوں یہ خدمت انجام دیتے رہے ۔ بہت سے مضامین لکھے، بہت سے ترجمے مسیحی دعاؤں اور نغماتِ حمد کے بھی کیے۔ ایک رسالہ "کوہکن ہند" بھی نکا لا تھا۔ اور میتھیوز لائل کے ساتھ مل کر ایک رسالہ "زندگی" بھی مدت تک نکالتے رہے۔

اولاد میں ایک بیٹا مہندر کمار تھا، جو بچپن ہی میں گھر سے نکل گیا تھا اور پھر اسکا کچھ پتا نہیں چلا[1]۔ ایک بیٹی پریم لتا ہیں، یہ پونا کے مسٹر اے ۔ڈبلیو ٹامس کی بیبی ہیں۔ بڑی بیٹی پربھا وتی کی شادی بمبئی میں ماسٹر علی بخش سے ہوئی تھی[2]۔ ان کی تین لڑکیاں تھیں، خورشید، مینا کماری اور مدھو۔

الہٰ آباد کا ماہنامہ "ادیب" اور لکھنؤ کا ماہنامہ "العصر"، اردو کے دو چوٹی کے رسالے تھے، جن سے شاکر کا نام وابستہ ہے۔ "ادیب: انڈین پریس الہٰ آباد کا پرچہ تھا۔ یہ جنوری ۱۹۱۰ء میں نکلا اور ساڑھے تین سال چل کر جون ۱۹۱۳ء کا پرچہ نکل کر بند ہو گیا۔ ایک سال چار ماہ نوبت راے نظرؔ اس کے ایڈیٹر رہے۔ ان کے بعد، ایک سال آٹھ ماہ پیارے لال شاکرؔ نے مرتب کیا اور آخری چھ مہینے حسیر عظیم آبادی نے۔

انڈین پریس کی ملازمت چھوڑنے کے بعد شاکرؔ نے "العصر" کے نام سے اپنا ذاتی پرچہ نکال کر "ادیب" کی پیاس بجھائی۔ مارچ ۱۹۱۳ء میں اس کا پہلا شمارہ نکلا۔ اور دسمبر ۱۹۱۷ء میں آخری۔ کاغذ ، کتابت اور طباعت کے ساتھ ساتھ مشتملات کا وہ اعلیٰ معیار جو "ادیب" کو چھوڑ کر کسی اور دوسرے اردو پرچہ میں کم ہی مل سکے گا، ذاتی پرچہ ہونے کے باوجود "العصر" نے برقرار رکھا۔ یہ غیر معمولی بات ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مضامین کا تنوع اور خالص ادب کے ساتھ ساتھ سماجی اور سائنسی علوم پر متوازن زور بھی اسی انداز پر قائم رہا۔

یہ "العصر" کے اٹھاون شماروں کا انتخاب ہے، جو پانچ سال (مارچ ۱۳ء تا دسمبر ۱۷ء) پر پھیلا ہوا ہے۔ اس انتخاب میں ۳ تحریریں "العصر" کے تعارف کے طور پر، ۳۲ مشاہیر کی نادر عکسی تصویریں،  ۹   مشاہیر کی تحریریں (ابو الکلام آزاد، عبداللہ عمادی، ندرت میرٹھی، رشید احمد صدیقی، عبدالماجد دریا بادی، شرر، نادر کاکوروی اوراقبال اور حالی) ۱۳ مشاہیر پر تفصیلی مضامین اور ۶ نظمیں، ۱۵ مضامین اور ۶ نظمیں، ۱۵ مضامین اور تین نظمیں اردو زبان کے مسائل پر، ۵ تحریریں غالب کے بارے میں، ۴ مضامین اسلام، ہندو مت، پارسیت کے تحت علمی و فنی ترقیوں، تین مضامین علوم و فنون پر، تین تاریخ ہند پر، پانچ ایسے[3]، پانچ مضامین مذہبی عقائد و افکار پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ۱۸ مضامین فلسفہ و سائنس اور صنعت و حرفت پر ہیں۔

یہ سب وہ تحریریں اور تصویریں جو "العصر" کے سوا شاید کہیں اور نہ ملیں گی۔ تصاویر میں:پیارے لال شاکر، مظہر الحق، رابندر ناتھ ٹیگور، گھشال، تعشق، اوج گیاوی، رشید احمد ارشد، فیروز الدین مراد، اور مانی جائسی کی یہ تصاویر کسی دوسری جگہ مشکل ہی سے ملیں گی۔ ابوا لکلام آزادؔ کے یہ مضامین کسی دوسری جگہ شایع نہیں ہوئے۔ عبداللہ عمادی، ندرت میرٹھی اور رشید احمد صدیقی کے مضامین  اپنے مصنفوں کی طرف نسبت کے سبب اہمیت رکھتے ہیں۔ ایشور چند وِدّیا ساگر پر اردو میں اتنا طویل مضمون کسی دوسری جگہ اتفاق ہی سے مل سکے گا۔ عماد الملک، نصیر حسین خیال، حالی، تعشق لکھنوی، بیان و یزدی میرٹھی، مضطر خیر آبادی، نظر لکھنوی اور نولکشور کے وارث پراگ نرائن کے بارے میں معاصرانہ شہادت کی اہمیت رکھنے والی ایسی تحریریں کسی دوسری جگہ کم ملیں گی۔ اردو زبان کی ترقی کے مسائل اور اردو صحافت کے بارے میں ۱۹۱۴ء کے آس پاس کی صورت حال پر یکجا اتنا مواد خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ مرزا غالبؔ کے بارے میں اس رسالے میں منظوم و منثور جو بھی کام کی چیز نظر آئی انتخاب میں لے لی گئی ہے۔ اقبالؔ کی ایک نظم دردِ عشق کا بھی نقش اول العصر میں مل جاتا ہے۔ زبانِ اردو اورا کابر ہندوستان کے بارے میں منظومات کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی نادرؔ کاکوروی اور حالؔی کی دو نادر نظمیں بھی منتخب کر لی گئی ہیں۔ معاً بعد زبان اور  صحت زبان کے مسائل پر تبصروں کے ذیل میں' یا عام مضمون کے طور پر جو تحریریں قابل توجہ نظر آئیں انہیں لے لیا گیا ہے۔ پھر اسلام، ہندو مت اور پارسیت کے بارے میں چند علمی دلچسپی کے حامل مضامین کے ساتھ تحریر، جادو اور ہندسہ کی تاریخ پر مضامین منتخب کئے گئے ہیں۔ تین مضمون تاریخ ہند کے بارے میں ہیں۔ پانچ تحریریں ایسے[4] کے طور  سے ہیں۔ پھر حکمت و اخلاق (مذہبی افکار) اور اس کے بعد فلسفہ و سائنس  پر سب سے بھاری بھرکم حصۂ مضامین ہے جو صنعت و حرفت پر ختم ہوتا ہے۔ آخر میں تمام مجلدات کی فہرست مضامین بھی تمام و کمال دی گئی ہے۔

لکھنے میں کچھ تو معروف نام ہیں: فضل حق آزاد، ابوالکلام آزاد، حالی،شرر، بشیر الدین احمد دہلوی (نذیر احمد کے لڑکے)، جے آر راے( لاہور کے جر نلسٹ)، قاضی احمد میاں جونا گڈھی، رشید احمد صدیقی، عبدالماجد دریا بادی، سید جالب دہلوی، تیرتھ رام فیروز پوری، حکیم حبیب الرحمان (ڈھاکہ)، سید برنی (صاحب البرونی)، آغا رفیق بلند شہری، شمس اللہ قادری،، ضیاءالدین احمد برنی(عظمت رفتہ وغیرہ کے مصنف) سید محمد قیصر بھوپالی، شفق عماد پوری، مانی جائسی، نادر کاکوروی، ندرت میرٹھی، نواب ذوالقدر جنگ، رشید احمد ارشد تھانوی، فیروز الدین مراد (علی گڈھ یونیورسٹی کے طبیعات کے پروفیسر)، مرزا سلطان احمد (مرزا غلام احمد قادیانی کے بھائی)۔ موہن لال فہم لکھنوی (ناول نگار)، آر سی دت(مشہور مورخ)، رام رچھپال سنگھ شیداؔ  دہلوی (دہلی سے ایک گلدستہ نکالتے تھے)۔

کچھ لکھنے والے وہ ہیں جو عام طور سے تو معروف نہیں، لیکن ادیبؔ، زمانہؔ اور العصر میں مستقلاً لکھتے تھے۔، یعنی عبدالخالق خلیق دہلوی، سید محمدفاروق شاہ ہودی، قطب الدین خاں راتی، لطافت حسین خاں، محمد ابراہیم خان تجلی۔

کچھ نام بالکل غیر معروف ہیں یعنی سید منگرولی، خوشتر منگرولی، عشقی، قمر، ولی الدین چشتی، کیول سنگھ، سید ابراہیم محب، محفوظ الحق احسن، یوسف قریشی، ضیا عباس بدایونی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناظر ، سخن دوست، نقاد سخن اور سید القلم غالباً عبدالماجد دریا بادی اور نظر لکھنوی کے قلمی نام ہیں۔

اس انتخاب کی اشاعت اردو علوم و ادبیات کے ارتقا میں ایک بھولی بسری کڑی کی بازیافت ہے۔ ایسی باز یافتوں سے ماضی میں بھراؤ آجاتا ہے اور مستقبل کے لیے اعتماد اور حوصلہ مندی۔

                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عابد رضا بیدار

[1]  شاکر کی شادی رابندر ناتھ ٹیگور کے بھائی کی بیٹی سے ہوئی تھی، جو مذہباً ہندو تھیں۔

[2]   ماسٹر علی بخش موسیقار تھے اور انکی زوجہ پربھا وتی کی  ایک شادی اس سے پہلے بھی ہوئی تھی۔ خورشید انکے پہلے شوہر کی اولاد تھیں، اداکارہ مینا کماری اور مدھو ماسٹرعلی بخش کی بیٹیاں تھیں۔