پچیس سال پہلے کی وہ سرد راتیں اور جیل یاترا ! (چوتھی قسط ۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

02:29PM Fri 19 Jan, 2018
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  haneefshabab@gmail.com اللہ کا بڑا احسان یہ ہوا تھاکہ ہمیں دیگر عادی مجرموں اورقیدیوں کے ساتھ کمروں میں بند نہیں کیا گیا تھا بلکہ ہم 22قیدیوں کو بہت وسیع و عریض علاحدہ ہال میں ایک ساتھ رہنے کی سہولت فراہم کردی گئی تھی۔جہاں ہم پاک و صاف رہنے اور نمازیں وغیرہ پڑھنے کے لئے بالکل آزاد تھے۔ہم نے سب سے پہلے ڈاکٹر چترنجن اور ان کے ساتھیو ں کی طرف سے عنایت کردہ ناشتے (اڈلی او رچٹنی) پر ہاتھ صاف کیا،جو کہ اس وقت بڑی نعمت ثابت ہوئی۔پھر ڈاکٹر چترنجن کی طرف سے دئے گئے دوائی کے ڈبے کا جائزہ لیا تو اس میں کافی مقدار میں درد اور سوجن کم کرنے والی گولیاں موجودتھیں۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ پولیس نے گرفتاری کے بعدغیر مسلم نوجوانوں کی خوب پیٹائی کی تھی، جس کی وجہ سے انہیں یہ دوائیاں باہر سے منگوانی پڑی ہونگی۔اور استعمال کے بعد جو گولیاں باقی بچی تھیں، وہ انہوں نے ہمارے حوالے کی تھی۔ الحمدللہ ہمارے کسی ساتھی کے ساتھ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی کہ اسے ان گولیوں کی ضرورت پڑتی۔ دھاک بٹھانے کی کوشش: پھرہم جیل کی طرف سے فراہم کی گئی چادریں بچھا کرذرا سستانے لگے کہ رات بھر آڑے ٹیڑھے بیٹھ کر کیے گئے سفر کی تھکان کچھ دور ہو۔ لیکن نئے قیدیوں کی جانکاری لینے کے لئے جیل کے دیگر قیدیوں کا ہمارے کمرے میں آنا جانا شروع ہوگیا۔جو بھی ملنے آتا وہ ہم سے ہمارے جرم کے بارے میں پوچھتا۔ ہم فسادات کا پس منظر بتاتے ہوئے چھوٹے موٹے کیس کا ذکر کرتے اور ان کے بارے میں پوچھتے تو وہ اپنے جرائم بڑھا چڑھا کر بولتے تھے۔ کچھ تو واقعی چھٹے ہوئے مجرم تھے۔ کچھ قتل جیسے سنگین جرم میں سزایافتہ بھی تھے۔ لیکن نئے قیدیوں پر دھاک جمانے کے لئے جسے دیکھوہر کوئی اپنے آپ کو بڑا زبردست مجرم بتاتااور قتل یا عمد قتل (ہاف اور فُل)سے کم والے جرم کی بات ہی نہیں کرتا تھا۔ مثلاً ہمارے کمرے میں سب سے پہلے آنے والوں میں ایک نوجوان تھا۔اس سے جب پوچھا تو کہا کہ تین ہاف اور ایک فُل کا کیس ہے۔ یعنی ایک مکمل قتل اور تین نامکمل قتل ۔دوسرے دن کسی او رسے معلوم ہوا کہ وہ ایک چور اوراُچکا ہے اور کسی ٹرک سے مال چرانے کے الزام میں زیر سماعت قیدی ہے ۔ کمرے سے باہر نکل کرمیدان میں موجود پانی اپنے لئے نیچے سے اوپر لے جانے اور کھانے پینے کے دوران چند ایک پرانے قیدیوں سے جان پہچان ہوگئی جو در اصل اندر کی دنیا پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے۔پہلا دن روکھی سوکھی روٹیاں، چاول،پانی جیسی پتلی دال اور چھاچھ(مجگی)پر گزرگیا اور شام ہوتے ہوتے جیل کے عملے نے ہماری گنتی کرنے کے بعد ہمیں کمرے میں بند کرکے سیل پر بڑا ساتالا لگادیااور اپنی راہ لی۔ ہڈیوں کو برف کرنے والی سر د راتیں: جیل کی دنیا میں ہماری پہلی رات انتہائی جان لیواتھی۔ پورے جیل کے احاطے پر ایک پراسرار خاموشی اور سناٹے کا عالم تھا کیونکہ ہمارا ٹھکانہ دیگر قیدیوں کے بیرکوں سے کافی دور تھا۔ ہمیں وہاں کی کوئی ہلچل یا آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ہمارے پاس بچھانے اور اوڑھنے کے نام پر جو کچھ تھاوہ ایک ایک چادر تھی۔ اور ٹھنڈ ایسی تھی کہ ہڈیوں کو بھی برف بنادے۔ بڑے بڑے سِل کے ٹکڑوں سے بنا ہوا فرش جیسے برف میں بدل گیا ہو۔ بغیرپاٹوں والی کھڑکیوں اور دروازوں کی سلاخوں سے گزر کر اندر آنے والی سرد ہوا کے جھونکے رگوں میں خون جمائے جارہے تھے۔پیٹھ کے بل لیٹو تو ریڑھ کی ہڈی میں ٹھنڈ محسوس ہوتی اورپیٹ کے بل لیٹنے کی کوشش کرو تو آنتوں میں برف کا ساعالم ہوتا۔پوری رات ٹھٹھرتے اور پہلو بدلتے ہوئے گزارنی پڑی، ایسے لگایاکہ گویا ہمیں بطور سزا برف کی سِلوں پر لیٹنے پر مجبور کردیا گیا ہو۔اور ہم اپنے دل کو یہ سمجھاتے رہے کہ: دل نا امید تو نہیں ، نا کام ہی تو ہے لمبی ہے غم کی شام ، مگر شام ہی تو ہے دوسرے دن ہمارے ہمدرد پہنچ گئے: دوسرے دن غالباً دوپہر سے ذرا پہلے جیل کے عملے نے ہمارے سیل میں پہنچ کر آواز دی کہ آپ لوگوں کے ملاقاتی آئے ہوئے ہیں، تو ہماری جان میں جان آئی۔ہماری نوجوان قیادت کے کچھ ذمہ دار ساتھیوں کا ایک وفد ہم سے ملنے کے لئے آیا ہوا تھا۔جو اپنے ساتھ ہمارے لئے کھانے پینے کی چیزیں ، ہمارے گھروالوں کی طرف سے فراہم کردہ کپڑے اور چادریں وغیرہ لے آیا تھا۔ اس وقت مجھے ان ساتھیوں کے نام یاد نہیں آرہے ہیں، البتہ ایک چہرہ جومیرے ذہن میں اس وقت نقش ہوکر رہ گیا تھا وہ تنظیم کے موجودہ جنرل سکریٹری الطاف کھروری کا تھا، کیونکہ ہمیں سلاخوں کے پیچھے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں چھلکتے ہوئے آنسو میں نے صاف طور پر دیکھے تھے۔سلاخوں کے آر پار سے تھوڑی دیر کی ملاقات اوردلجوئی کے بعدیہ وفد ہماری ضمانت کے لئے کوششیں کرنے(جس کی ذمہ داری جناب قاسمجی پرویز کے سپرد تھی) اور بیلگام میں واقع ہماری برادری کے معروف کاروباری اور ہمارے ساتھی جناب ایس ایم سید عبدالقادر کے رشتے داروں کے توسط سے ہمارے لئے ناشتے اور طعام کا بندوبست کروانے کا یقین دلاکر ہم سے رخصت ہوگیا۔ اور ہم بھاری دلوں کے ساتھ واپس اپنے بیرک کی طرف چل پڑے۔ جیل کے کھانے سے چھٹکارہ: ہماری ٹیم کی کوشش اور ہمارے کرم فرما کی عنایت سے اس کے بعدہمیں دن میں ایک مرتبہ ہوٹل سے کھانے اور ناشتے کا پارسل پہنچ جاتاتھاجو کہ دو وقت کے لئے کافی ہوتا تھا۔جیل کے اندر سردی کے ماحول کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دوسرے دن دوپہر تک بھی ہم یہ کھانابڑے آرام سے استعمال کرسکتے تھے جیسے کہ فرڈج سے نکال کر استعمال کیا جاتا ہے۔اس طرح ہم کو جیل کی روکھی سوکھی روٹیوں اورپانی جیسی بے مزہ دال سے نجات مل گئی اور ہماری مرغوب ہمیں میسر ہونے لگی۔ البتہ جیل میں ملنے والی چھاچھ جی بھر کر ہم استعمال کرتے رہے۔اس کے علاوہ ہمارے لئے گھروں سے پہنچائی گئی چادریں ، لنگیاں ، تولیے وغیرہ نے بھی ہمیں جذباتی اور جسمانی طور پر راحت پہنچانے کاکام کیا۔اور ہم سب ضمانت ملنے کی خبر کا انتظار کرنے میں لگ گئے۔ ہم سے بدترحالت میں ہمارے بھائی: الحمدللہ ہم بھٹکلی مسلمانوں میں جو آپسی الفت اور اتحادہے اس کی مثال دوسرے مقامات پر کم ہی نظر آتی ہے۔مثلاً ہمارے جیل پہنچنے کے دوسرے یا تیسرے دن ہمیں پتہ چلا کہ داونگیرے سے کچھ مسلم نوجوانوں کا ایک گروپ جیل پہنچ گیا ہے۔ چھ دسمبر کے دن بابری مسجد کی مسماری کے خلاف احتجاج کرنے پر ان لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔آدھی آدھی رات کو چھاپے مارکر پولیس انہیں اٹھا لائی تھی۔ نہ ڈھنگ کے کپڑے تھے اور نہ پیروں میں چپلیں تھیں۔اور سب سے افسوسناک پہلو یہ تھا کہ جماعتی سطح پر ان کا پرسان حال کوئی نہیں تھا۔ وہ اتنی بدتر حالت میں تھے کہ انہیں دیکھ کر ہمارے دل دکھی ہورہے تھے۔ان سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ اجتماعی طور پر ان کی رہائی کروانے یا خبر گیری کرنے کاہمارے جیسا کوئی نظام ان کے یہاں موجود نہیں تھا۔ جیل سے جو مقررہ مقدار میں کھانا ملتا تھا، وہ ا ن کے لئے ناکافی ہوتاتھا، اس لئے ہم اپنے حصے کا کھانا بھی انہیں دیا کرتے تھے، کیونکہ ہمارے پاس ہوٹل سے کھانا پہنچ رہاتھا اور ضرورت سے کچھ زیادہ مقدار میں ہی پہنچتا تھا۔ اس وقت صحیح معنوں میں ہمیں اپنی اجتماعیت اورآپسی یگانگت کی اہمیت کا شدید احساس ہوا۔ جیل کے اندر چلتی پھرتی دکانیں!: جیل کے اندرسزایافتہ اور پرانے قیدیوں کا جو راج چلتا ہے ، اور ان کی بہت ساری مصروفیات جو ہماری نظروں سے گزریں ویسے تو بڑی دلچسپ اور تعجب خیز باتیں ہیں، مگر اس کا بیان یہاں بعض وجوہات کی بنا پر نامناسب ہوگا۔ البتہ ایک ادھ جھلک قارئین کی دلچسپی کا سبب بن سکتی ہے۔ مثلاً جیل کے مستقل قیدیوں کے اپنے اپنے گروہ اور ان کے سربراہ ہوتے ہیں ۔ ان کے علاقے یا نئے قیدیوں پر کنٹرول کے زمرے بھی مخصوص ہوتے ہیں۔ کچھ قیدی چلتی پھرتی دکانوں جیسے ہوتے ہیں۔ ان کے یونیفارم کی مختلف جیبوں میں ضرورت کی مختلف چیزیں جیسے پان، بیڑی ،سگریٹ ، پوسٹ کے لفافے اور اسٹامپس، نشہ آور اشیاء وغیرہ تھوڑی تھوڑی مقدار میں موجود ہوتی ہیں۔ڈاکٹر چترنجن نے کچھ نقدرقم دیتے ہوئے جو کہا تھا کہ اندر اس کی ضرورت پڑتی ہے تو اس کا مطلب یہی تھا کہ اگر نقد ی موجود ہوتو زائد قیمت پر باہر کی چیز اندر دستیاب ہوسکتی ہے۔ہاں اس وقت موبائل فون کا زمانہ نہیں تھااس لئے اس سروس کو چھوڑ کر باقی سب کچھ وہاں دستیاب تھا۔ نقدی کے بھروسے پر ادھارکاروبار!: جیسے کہ میں نے اس سے پہلی قسط میں بتایا تھاکہ ہمیں جیل میں بند کرنے سے پہلے ہمارے پاس موجود تمام رقم کاونٹر پر جمع کرلی گئی تھی،جو غالباًتیس چالیس ہزار روپوں کے قریب تھی۔ ہمارے ایک ساتھی نے ان پرانے قیدیوں کے سامنے شیخی بگھارتے ہوئے یہ اعلان کردیا کہ ہم لوگ وہ رقم واپس لے جانے والے نہیں ہیں، بلکہ جو بھی قیدی ہمارے کام آئیں گے اور ہمارے ساتھ تعاون کریں گے ، وہ رقم ہم ان میں بخشش کے طور پربانٹ دیں گے۔ بس پھر کیاتھا اس امید پر دو چار’با اختیار‘ قیدی ہماری ضروریات پوری کرنے اور بہت زیادہ خیال رکھنے میں لگ گئے۔ یہاں تک کہ مجھے نہانے کے لئے گرم پانی کی ضرورت محسوس ہوئی تو چوری چھپے اس کابھی انتظام کردیا گیا۔ہماے پاس موجود تھوڑی سے نقدی ختم ہوگئی تو ادھار پر ضرورت کی چیزیں فراہم کرنے لگے ۔مثال کے طور پر ہمارے ایک ساتھی کومسلسل سگریٹ نوشی کی لت لگی ہوئی تھی۔ دوسرے ہی دن سے اس کی ضرورت ان قیدیوں کے ذریعے پوری ہونی شروع گئی۔ کچھ پھل فروٹ کھانے کا من ہواتو اس کا انتظام بھی باہر سے کردیا گیا، یہ الگ بات ہے کہ باہر سے خرید اہوا دو کیلو فروٹ ، جیل کے برآمدے سے گزر کر ہمارے بیرک تک پہنچتے پہنچتے ایک کیلو کے آس پاس رہ گیا تھا۔ وقت گزاری اور زندہ دلی کے مظاہرے: بہرحال ہم نے جیل کے ماحول سے اپنے آپ کو بڑی حد تک ہم آہنگ کرلیا تھا مگردوچار دن میں ہی ایسا محسوس ہونے لگاکہ قیدیوں کے پاس سے ادھار پر خریداری کی فہرست طویل اورجیل میں ہمارے قیام کا عرصہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ عدالتی حراست والے قیدیوں کو دئے جانے والے کچھ چھوٹے موٹے کاموں پر ہمیں بھی لگایا جاتاتھا اور اسے انجام دینے کے بعدبقیہ اوقات میں ہمارے ساتھی وقت گزاری اور زندہ دلی کے مظاہروں کے لئے بھی موقع نکال لیتے تھے۔ چندساتھیوں نے کچھ ایسی جرأت مندانہ حرکتیں اورشرارتیں بھی کیں جس سے وقتی طور پر گھروں سے دور ہونے کااحساس کم ہوگیااور کبھی ایسابھی ہواکہ گویا جیل میں قید رہنے کے بجائے پکنک منانے کا لطف آگیا، مگر اس کی تفصیل تحریری کی شکل میں بیان کرنا مناسب نہیں لگتاہے۔بس یوں سمجھ لیجیے کہ:

خاک پر زیست سے مخمور ہوائیں جاگیں صحنِ زنداں میں رفیقوں کے کھِلے پھر چہرے

آدھی رات اور گردے کا درد: شاید جیل میں ہماری تیسری یا چوتھی رات تھی ۔مجھے اس ساتھی کا نام تو یاد نہیں پڑتا،مگر وہ دھبلی فیمیلی سے تھا، جسے اچانک آدھی رات کو شدید پیٹ کا درد اور الٹیاں شروع ہوگئیں۔چارو ں طرف سناٹاتھا۔ کوئی ہماری آواز سننے والا نہیں تھا۔دروازے پر بڑا سا تالا لگاہوا ہے۔ مریض بے چارہ تڑپ رہا ہے۔ میں نے ڈاکٹر ہونے کے ناطے اپنے تجربے کی روشنی میں بتادیا کہ یہ گردے میں پتھری والا درد ہے او راسے فوری طور پر اسپتال لے جانے کی ضرورت ہے۔ مگر ہمارے کچھ ساتھی اسے گیس، اپینڈیکس اور نہ جانے کیا کیا قرار دینے پر تُل گئے تھے۔ بہرحال چونکہ اسے فوری طور پر ڈاکٹر کی ضرورت تھی، اس لئے ہم لوگوں نے کھڑکیوں کے پاس کھڑے ہوکر یوں ہی زور زور سے چلانا شروع کیا:’’جیلر صاحب! جلدی آؤ۔ ایک بندہ بیمار ہوگیا ہے‘‘ کئی بار اسی طرح آوازیں لگاتے رہے اورہماری آوازیں فضا میں گونجنے لگیں تو تھوڑی دیر بعد جیل اسٹاف کے دو لوگ ٹارچ ہاتھوں میں لے کر ہمارے کمرے تک پہنچے ۔ پھر جب مریض کی حالت باہر سے دیکھی تو جیلر کی اجازت سے کمرہ کھول کر مریض کوباہر لے جاتے ہوئے بیلگام کے کسی اسپتال میں منتقل کیا گیا۔ہماری آنکھوں سے نیند غائب ہوگئی تھی اورہم سب بھاری دلوں کے ساتھ اپنے ساتھی کی صحتیابی کی دعا اور ہم سب کی ضمانت پر رہائی کا انتظار کرتے رہے ۔

خیالِ وصل کو اب آرزو جھولا جھلاتی ہے قریب آنا دلِ مایوس کے پھر دور ہو جانا )

سلسلہ جاری ہے۔۔۔ پانچویں اور آخری قسط۔۔۔ آئندہ ملاحظہ کریں(   (نوٹ: مندرجہ بالا تحریر مضمون نگار کی ذاتی رائے اور تجربات کی عکاس ہے۔اس میں درج کسی بھی بات یا رائے سے ادارہ کا متفق رہنا ضروری نہیں۔ادارہ بھٹکلیس)