وہ رات۔۔۔ جب رکن اسمبلی ڈاکٹر چترنجن کا قتل ہوا! (پہلی قسط)۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
وہ سن 1996کے پارلیمانی انتخابات کی گہماگہمی زمانہ تھا۔ 1993کے بھٹکل فسادات کے پس منظر میں ہندوتوا لابی پوری طرح ساحلی علاقے میں سرگرم ہو چکی تھی۔ فسادات کے بعد ہونے والے اسمبلی الیکشن میں بھٹکل حلقے سے تنظیم کی تائیدکردہ کانگریسی امیدوارلکشمی بائی کو شکست دے کر ڈاکٹر چترنجن رکن اسمبلی بن گئے تھے ۔ اور اب پارلیمانی انتخاب میں اننت کمار ہیگڈے کو بطور بی جے پی امیدوارمیدان میں اتاراگیا تھا۔ابھی انتخابی مہم اپنا زور پکڑ رہی تھی اور بی جے پی پارلیمانی سیٹ بھی کانگریس سے چھین لینے کے درپے تھی کہ انتخابی مہم کے دوران ہی ڈاکٹر چترنجن کے قتل نے سنسنی پھیلادی۔ جس کے بعد فطری طور پرجو ہونا تھا وہ ہوا اورمسٹر اننت کمار ہیگڈے کوجو کہ اس وقت بی جے پی کا رکن بھی نہیں تھا، ایم پی بننے کا موقع آسانی سے مل گیا۔اگر یوں کہیں کہ فسادات اور اس کے بعد چترنجن کے قتل نے یہاں کے سیاسی اور سماجی حلقوں کا منظر نامہ اور تانابانا ہی بدل کر رکھ دیا تو بے جا نہ ہوگا ۔
ہندوجاگرن ویدیکے اور اننت کمار ہیگڈے : دیگر بڑی ہندوتووادی تنظیموں کے علاوہ غالباً1986میں علاقائی طور پر ہندو جاگرن ویدیکے نامی سنگھ پریوار کی ایک تنظیم وجود میں آچکی تھی۔اس تنظیم کی ریاستی قیادت اپنی مسلم دشمنی اور اشتعال انگیزی کے لئے معروف جگدیش کارنتھ جیسے کٹر ہندوتووادی لیڈرکے پاس ہے۔ 90ء کی دہائی میں ضلع شمالی کینرا اور خاص کر بھٹکل میں اس تنظیم کی عملی قیادت موجودہ مرکزی وزیر اننت کمار ہیگڈے کے ہاتھو ں میں تھی۔بھٹکل فسادات کے دوران بھی اسی تنظیم کے بینرتلے ہندونوجوانوں کی لگام اننت کمارنے سنبھال رکھی تھی ۔اس کے علاوہ 1994میں ہبلی عیدگاہ تنازعہ کے دوران کرفیو لگے رہنے اور تمام تر پولیس بندوبست کے باوجود ایک اور کٹر پنتھی سنگھ پریوار کے لیڈر ستیہ جیت سورتکل کے ساتھ مل کر خفیہ سازش کے تحت اچانک عید گاہ میں گھس کر ترنگالہرانے کی وجہ سے اننت کمار انتہا پسند ہندونوجوانوں کا رول ماڈل اور daredevil ہیرو بن کر ابھرا۔جس کے نتیجے میں بی جے پی کا باقاعدہ رکن نہ ہونے کے باوجود آر ایس ایس کے اس کم عمر جوشیلے لیڈر اننت کمار ہیگڈے کوپارٹی نے1996میں براہ راست پارلیمانی امیدوار بناکر پیش کیا۔اورآج زعفرانی بریگیڈ والے اسے کرناٹک کے لئے یوگی آدتیہ ناتھ کے روپ میں دیکھ رہے ہیں،اور اسی انداز میں اسے آگے بڑھایا جارہا ہے۔
آنکھیں جو کچھ دیکھ رہی ہیں ، اس سے دھوکا کھائیں کیا دل تو عاجزؔ دیکھ رہا ہے ، حدّ نظر سے آگے بھی
فسادات سے کھلابی جے پی کا کنول : 93کے بھٹکل فسادات کے پس منظر میں غیر مسلم ووٹوں کی فرقہ وارانہ بنیاد پر polarization تقطیب اور consolidationاس طرح ہوچکا تھا کہ 1994کے اسمبلی کے انتخاب میں اکثریتی نامدھاری طبقے سے تعلق رکھنے والی کانگریسی امیدوار لکشمی بائی (جے ڈی نائک کی ساس) کو تنظیم کی حمایت سے میدان میں اتارنے کے باوجود چار پانچ ہزار غیر مسلم ووٹ بھی اسے نہیں مل سکے اور ہمارے تمام تر ووٹ اس کے حق میں پو ل ہونیکے بعد بھی اسے شکت ہوگئی اور ڈاکٹر یو چترنجن الیکشن جیت گئے۔اس کے علاوہ ساحلی علاقے کی دیگر سیٹوں پر بھی بی جے پی کا قبضہ ہوگیا۔ اس وقت اگرچہ کہ جنتا دل کو 115سیٹوں کے ساتھ حکومت بنانے کا موقع مل گیا تھا، لیکن بی جے پی نے 40سیٹیں حاصل کرکے بڑا زوردار کھاتہ کھولا تھا اور اپنے قدم کرناٹکا کی سیاست میں جمالیے تھے جبکہ کانگریس کومحض 34سیٹوں پر محدود رہنا پڑا تھا۔ ڈاکٹر چترنجن کی آمد اور مقبولیت: ڈاکٹر چترنجن کو 70کی دہائی میں بھٹکل میں موجود آر ایس ایس کے ایک’ گرو ‘کی طرف سے بھٹکل میں بظاہر جنرل پریکٹشنر لایاگیا تھا، مگردر پردہ آر ایس ایس کی فکر اور پالیسی کو عوام کے دلوں اور ذہنوں میں بٹھانے کا مشن سونپ کر انہیںیہاں پلانٹ کیا گیا تھا۔ شخصی طور پر وہ ایک نہایت شریف، باکردار، ملنسار اور بہت ہی روادار انسان تھے۔اسی کے ساتھ آر ایس ایس کے مقاصد حاصل کرنے کے اپنے مشن کے تعلق سے بھی وہ پورے خلوص کے ساتھ سرگرم عمل تھے ۔ ایک طرف ڈاکٹر کے طور پرانہوں نے شہر اور مضافات کے غریب عوام میں بڑی مقبولیت پائی تو دوسری طرف بی جے پی کے لیڈر کے طور بھی سراٹھانا شروع کیا۔ اس زمانے میں بھٹکل تعلقہ میں علاج و معالجے کے لئے نوائط مسلم برادری کے ایم بی بی ایس پاس ہونے والے سب سے پہلے اور واحد ڈاکٹر سید احمد صاحب برماور کاشہرہ تھا۔دوسرے ہومیوپیتھی کے ماہر ڈاکٹرمحمد حنیف کولا(المعروف حنیف مالیکا)کا طوطی بولتا تھا۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر شیٹی ، ڈاکٹر مڈی اور ڈاکٹر پنڈت وغیرہ بھی طبی تعلیم کی دوسری اسناد کے ساتھ شہر میں پریکٹس کررہے تھے۔ڈاکٹر جلال الدین کی بھٹکل میں آمد سرکاری اسپتال کے میڈیکل افیسر کے طور پر بہت بعد میں ہوئی تھی ۔ اس وقت بھٹکل کے دوردراز قصبہ جات،پہاڑی اورجنگلاتی مضافات سے سب سے زیادہ مریض ڈاکٹر سید احمد برماورکے دواخانے پر قطار درقطار موجود رہتے تھے۔ کیا چترنجن کی آمد سے دلوں میں دراڑ آئی ؟: لیکن جب ڈاکٹر چترنجن نے اس زمانے میں رائج جی سی آئی ایم کا کورس کرکے بطور ڈاکٹربھٹکل میں قدم جمایا تو اطراف کے گاؤں اور قصبوں میں بھی اپنا مشن جاری رکھا اورسماج سدھار و فلاح و بہبودکے منصوبوں پر عمل کرتے ہوئے دیہی عوام کے دلوں میں نفوذ کرلیا۔ دھیرے دھیرے ڈاکٹر برماور کے نصف سے زیادہ غیر مسلم دیہی مریض ڈاکٹر چترنجن کی کلینک میں دکھائی دینے لگے جو برماور کلینک سے بس چند گز کی دوری پر ہنومان مندر کے احاطے میں واقع تھا۔اس کے ساتھ ہی بھٹکل و اطراف کے مسلم مریضوں کا بھی ان کے یہاں تانتا لگا رہتاتھا۔ ڈاکٹر چترنجن کی اس مقبولیت کو اگر ایک دوسرے زاویے سے دیکھیں تو یہیں سے ہندو ؤں اور مسلمانوں کے دلوں میں دراڑیں پڑنے اور آپسی خلش اور خلیج پیداہونے کے تار بھی جڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ بھٹکل کی قدیم سماجی اور ثقافتی صورتحال غیر مسلموں کے ساتھ یگانگت کا علم رکھنے والوں کا تجزیہ یہی ہے کہ ڈاکٹر چترنجن کی یہاں آمد کے بعد آر ایس ایس کے نظریات کو زیادہ فروغ ملا اور اسی بنیاد پر مسلمانوں کے ہاتھ میں اس علاقے کی جو سیاسی قیادت تھی ، اس کے بالمقابل بی جے پی کے سایے میں غیر مسلم قیادت کو ابھارنے کی اسکیمیں بننے لگیں اور پھر وہ براہ راست جناب ایس ایم یحییٰ کے مدمقابل بی جے پی امیدوار بن کر کھڑے ہوگئے ۔یعنی مری طرف سے تو ٹوٹا نہیں کوئی رشتہ کسی نے توڑ دیا ، اعتبار ٹوٹ گیا
1994کا الیکشن اور ایچ جے وی کارول: دو ایک ناکام کوششوں کے بعد،جیسا کہ ابتدا میں کہا گیا 1993کے منصوبہ بند فساد کے نتیجے میں 1994کا الیکشن جیتنے میں ڈاکٹر چترنجن کامیاب رہے۔اس الیکشن میں فسادات کو بڑا اہم ایشو بناکراننت کمار ہیگڈے کی ایچ جے وی نے پورے ضلع میں ماحول گرمایا تھا ۔ ہندوؤں کو اس بات کا قائل کردیا گیا تھا کہ اب اگر سیاسی قیادت ان کے ہاتھ میں نہیں آئی تو پھر ان کا وجود ہی خطرے میں پڑجائے گا۔ ایک بہت ہی خطرناک افواہ یہ پھیلائی جارہی تھی کہ بھٹکل میں پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی(انٹر سروس انٹلی جنس) کے ایجنٹس موجود ہیں اور فسادات انہیں کی سازش کا نتیجہ تھے۔پوری ہندو قوم کو تباہ وبرباد کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں اس لئے بی جے پی کی جیت کو یقینی بنانا ہندوؤں کی بقا کے لئے لازمی ہے۔فسادات کے دوران ایچ جے وی کی جانب سے جس قسم کے پمفلیٹس تقسیم کیے گئے تھے اس میں کھل کر ایسی باتیں کہی گئی تھیں کہ مسلمانوں کے تعاون سے آئی ایس آئی بھٹکل کو پاکستان اور کشمیربنانے کے منصوبوں پر عمل کررہی ہے۔ اسی لائن پر الیکشن کی پوری مہم چلائی گئی، اور بھاری اکثریت سے ڈاکٹر چترنجن نے جیت درج کی ۔ جب چترنجن کی جیت ہوئی!: مگر جیسا کہ میں نے شروع میں کہا ہے کہ ڈاکٹر چترنجن ایک شریف النفس انسان تھے، تو اس کا تجربہ بھی مجھے ان کی جیت کے وقت ہوگیا۔ چونکہ نامدھاری سماج کے کانگریسی امیدوار کی تائید مجلس اصلاح وتنظیم نے کی تھی اور اسے جتانے کے لئے پوری قوم نے اپنی تمام ترطاقت اور وسائل لگادیے تھے، اس لئے توقع تھی کہ ’کنول ‘کھل نہیں پائے گا اور کانگریس کا ’ہاتھ‘ اوپر رہے گا۔اسی امید کے ساتھ نتیجے کے دن میں خود کمٹہ میں واقع کاونٹنگ سنٹر میں موجود تھا۔ لیکن جیسے جیسے بیلٹ باکس کھلتے گئے، صرف ہمارے علاقوں کے صندوقوں میں کانگریس کے ووٹ تھے ، بقیہ علاقوں سے ہر طرف کنول کی پنکھڑیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ اورکانگریسی لیڈران جو وہاں موجود تھے وہ اپنے ہاتھ مل رہے تھے۔ پھر جیسے ہی ڈاکٹر چترنجن کی جیت یقینی ہوگئی تو ہم کاونٹنگ ہال سے باہر نکلنے لگے۔ اسی وقت ڈاکٹر چترنجن میرے قریب آئے اور میر ا ہاتھ تھام کر کہا، دیکھو مخالفت اور پروپگنڈے کی جو مہم تھی، وہ الیکشن کے ساتھ ختم ہوگئی۔ آج سے میں بھٹکل کے عوام کا ایم ایل اے ہوں۔ مجھے چونکہ ضروری کارروائیاں مکمل کرنی ہیں اس لئے بھٹکل پہنچنے میں کچھ تاخیر ہوگی ۔ تم لوگ جلدی شہر پہنچو گے ۔ہوسکتا ہے کہ ہمارے نوجوان جشن منانے کے جوش میں کچھ ایسی حرکتیں کرجائیں جو جذبات کومشتعل کرنے والی ہوں۔ اس لئے پلیز میرا پیغام اپنے لوگوں تک پہنچانا کہ کسی بھی بات سے مشتعل نہ ہوں اور امن وامان کو بگڑنے نہ دیں۔ اور جیسے ہی ہم کاونٹنگ سینٹر سے باہر نکلے تو دیکھا کہ چاروں طرف سے بی جے پی کے حامیوں کا ہجوم تھا جس نے ہمیں دیکھ کر طنزیہ فقرے کسنا شروع کردیا تھا۔ہم ان کے طنز و طعنوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس علاقے سے بخیر وعافیت جلد ازجلد باہر نکل آنے میں الحمدللہ میاب ہوگئے۔غضب کی دھار تھی اک سائباں ثابت نہ رہ پایا ہمیں یہ زعم تھا بارش میں اپنا سر نہ بھیگے گا
(...... وہ رات!...... جب چترنجن کاقتل ہوا.....اور ہمیں پولیس تحویل میں لیا گیا!...... اگلی قسط ملاحظہ کریں) haneefshabab@gmail.com (وضاحت: مندرجہ بالا مضمون میں درج تمام مواد مضمون نگار کی ذاتی آراء اور ان کے اپنے خیالات پر مشتمل ہے،اس میں درج کسی بھی بات یا خیال سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں)