کربلا اور اسلام۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

02:24PM Sat 29 Aug, 2020

کربلااوراسلام یہ تقریر لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے 5 دسمبر 1946(مطابق 10محرم) کی شام کو نشرہوئی۔ اس میں مولانا دریا بادی ؒ نے بڑے بلیغ اورحکیمانہ اندازمیں واقعۂ کربلا اور اس کے اثرات پر روشنی ڈالی ہے نیز اس کے پس منظر اور نتائج کو عام فہم انداز میں پیش کیا ہے، جس سے حضرت حسینؓ کی بے مثال قربانی اور صبر و ہمت کی تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ ڈاکڑ زبیر احمد صدیقی ------------------------------------------------------ "چشم تصوّر کے سامنے تاریخ عرب کے ایک قدیم بہت قدیم دور کو لائیے، تاریخ اسلام سے بھی قدیم تر، اسمٰعیلؑ پیمبر کی نسل میں ایک زبردست مرکزی شخصیت عبدالمناف کی ہے۔ چار بیٹوں کے باپ۔ ان چار میں دو کے درمیان نفاق اورشقاق کی بنیاد پڑی۔ بڑے کا نام عبدشمس چھوٹے کانام ہاشم، اور باپ کی وفات کے بعد مخالفت کی آگ اور بڑھتی اور پھیلتی ہی گئی۔ بھائی بھائی کی مخالفت معاذاللہ! عبدشمس نے کہنا چاہیے کہ قابیل کی سنگ دلی کی داستان زندہ کردی! ضد یہ تھی کہ ہاشم نے چھوٹے ہوکر اپنی صلاحیت سے اور اپنی بے پناہ داد و دہش سے قوم کی سرداری اور پیشوائی کیسے حاصل کرلی۔ فرد جرم کی دوسری دفعہ یہ تھی کہ ہاشم نے روم کے قیصر اور حبشہ کے نجاشی سے مل ملا کر اور ان کے درباروں میں رسوخ پیدا کرکے تجارتی مراعات عربوں کے لیے کیوں حاصل کرلیں۔ اورتیسرا عنوان یہ تھا کہ خانہ کعبہ کے انتظامات قوم نے اس کے سپردکیسے کردیے ۔ عرب کا کینہ ” شترکینہ“ کی طرح ضرب المثل کی شہرت و اہمیت رکھتا ہے ۔ جب چھڑتی تو بس نسلوں تک چھڑی ہی رہتی ۔ عبدشمس کی وفات پر جب ان کے دلبند امیّہ جانشین ہوئے تو ہاشم کے ساتھ یہ عداوت بھی ورثہ میں پائی۔ نوبت یہ پہونچی کہ ایک دن بھتیجے نے چچا کو چیلنج ہی دے دیا۔ اور با قاعدہ مناظرہ ومقابلہ کی ٹھہرگئی۔ جج یا ثالث قبیلۂ خزاعہ کے ایک کاہن تھے۔ فیصلہ امیّہ کے خلاف ہوا۔ چلیے اس دن سے عداوت کی جڑ اورمضبوط ہوگئی، اور امیّہ کو شرائط کے مطابق نہ صرف پچاس اعلیٰ درجہ کے اونٹ ہارنے پڑے بلکہ خود بھی دس سال کے لیے جلا وطن ہوکرشام کو جانا پڑا۔ ان ہی ہاشم کی چوتھی پشت میں ولادت با سعادت ہمارے اورعرب کے سردار، سرورکائناتﷺ کی ہوئی، اور امیّہ کے صلب سے جو سلسلہ چلا اس میں دو پشتوں کے بعدتیسری پشت میں امیرمعاویہؓ پیدا ہوئے۔ رنجشیں اور عداوتیں ختم نہیں ہوئیں چلتی رہیں اور بڑھتی رہیں۔ رسول ہاشمیﷺ کی شخصیت کا یہ اعجاز تھا کہ یہ طوفان زری کی زری رُکا اور بنی ہاشم سب نے آپ کی سرداری و پیشوائی کے آگے گردن جھکادی، بنی ہاشم نے عموماً اول اول اور بہ شوق، اور بنی امیہ نے عموماً رک رک کر اور آپﷺ کی فتوحات مشاہدہ کرلینے کے بعد۔ اس آفتاب عالمتابﷺ کا افق شہود سے غائب ہونا تھا کہ وہی تاریکیاں پھر بڑھیں اور ابھریں اور اب اور زیادہ شد و مد سے، تاریخ کے راوی کابیان ہے کہ آں حضرت ﷺ کی زندگی ہی میں خاندان ہاشم کے ایک زبردست حریف نے کھلم کھلا کہہ ڈال اتھا کہ ”بنی ہاشم نے تجارت میں ہم سے بڑھنا چاہا ہم نے مقابلہ کیا۔ شجاعت میں نام پیدا کرنا چاہا ہم نے اپنی جانوں کی بازی لگادی۔ اب یہ محمدﷺ نے نبوت کا جو دعویٰ شروع کر دیا ہے اس کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔“ خلافت یا جانشینیٔ رسول کے وقت قریب تھا کہ دبے دبائے فتنے پھر سے بھڑک اٹھیں، بزرگان قریش کی حکمت و دانائی کام آئی اورخلافت اول و دوم دونوں کے موقع پر انتخاب ایسے حضرات کا ہوا، جو قریشی ہونے کے باوجود نہ ہاشمی تھے نہ اموی ۔ تیسری خلافت کے موقع پر میدان انتخاب تنگ ہوکر ایک ہاشمی اور ایک اموی کے درمیان رہ گیا، اور دونوں کے تعلقات قرابت بھی رسول اللہ ﷺ سے تقریباً یکساں ۔ رسولﷺکے عہد سے اب بُعد بھی ۱۳سال کا ہو چکا تھا۔ لیکن علی مرتضیٰ ؓکے صبر وتحمل تسلیم و رضا نے اب کی بھی جو بات بگڑ چلی تھی اسے بنائے رکھا، اس پربھی جو واقعات اور حادثات پے در پے خلافت راشدہ کے دور سوم و چہارم میں پیش آتے رہے خواہ ان کے اسباب کچھ بھی ہوں اور ذمہ داری جس حدتک جس فریق پربھی آتی ہو بہر حال ان سے یہ فتنہ خوب اچھی طرح پرورش پاتا رہا اور اس عہد کے بعد تو یہ قابو سے بالکل ہی باہر ہوگیا۔ اب ہجرت کے سنہ ۲۰ و ۲۱ میں آجائیے ۔ حکومت و حاکمیت کو خاندان امیّہ کے ہاتھ میں آئے ہوئے سالہا سال ہوچکے ہیں۔ اور وسیع وعریض دنیائے اسلام اب دومستقل کیمپوں میں بٹ چکی ہے۔ ایک کا مرکز عراق اور اس کاشہر کوفہ، دوسرے کا مستقر شام اور اس کا شہر دمشق۔ صوبۂ حجاز اور ارض حرمین بین بین میں۔ تخت حکومت پر قابض ایک ایسا شخص جس کا ماضی جو کچھ بھی رہا ہو حال ومستقبل دونوں اخلاقی اعتبار سے دوست و دشمن سب کے نزدیک ایک نا قابل اطمینان، اور جس کی زندگی کو ایک معیاری جانشینِ رسول کی زندگی سے نسبت دور کی بھی نہیں۔ عین اسی فضا اور اسی ماحول میں ایک قافلہ ارض حجاز سے سر زمین عراق کی طرف سفر کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ سالار قافلہ بنی ہاشم کے سردار اعظم، رسولﷺ کے محبوب نواسہ اور نور عین۔ خود سے نہیں آرہے ہیں، اہل عراق کی مسلسل درخواستوں پر متواتر عرض داشتوں پر تشریف لا رہے ہیں۔ قافلہ فوجیوں کا لشکر نہیں اور نہ ساتھ سامانِ جنگ ۔ افراد قافلہ سالارقافلہ کے خاندان کی بیویاں، کچھ قریب کے اعزاء اور کچھ مخلص رفیق اور جانثار خادم ۔ مرد چھوٹے بڑے سب ملاکر ۷۲۔ حکمرانِ وقت کے پیادے اور سوار راہ میں راستہ روک کرکھڑے ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تک عہد اطاعت نہ کروگے آگے قدم اٹھانے کی اجازت نہیں۔ رسول کے نواسہ جواب دیتے ہیں کہ ”جنگ و محاربہ میرا ہرگز مقصود نہیں۔ کوئی جنگجو حریف بھلا اس بے سر و سامانی کے ساتھ بھی گھرسے نکلتاہے؟ میں تو صرف اس غیر عادلہ اور فاسقانہ نظام حکومت کی اطاعت اور تسلیم و قبول سے معذور ہوں۔ اب ممکن تین صورتیں ہیں۔ یا تو اپنے بادشاہ کے پاس لے چلو کہ میں اس سے سوال و جواب کرلوں گا۔ یہ نہیں منظور ہے تو مجھے ارض حجاز واپس جانے دو، میں سیاست سے الگ گوشہ نشین ہوکرعبادت اور دینی مشغلوں میں مصروف رہوں گا۔ اور یہ بھی گوارہ نہ ہو تو مجھے مملکت اسلامی کی سرحدوں سے چلا جانے دو، میں منکروں اور کافروں سے مقابلہ و جہاد کرتا رہوں گا۔“ دنیا کی تاریخ میں اس سے زیادہ مصالحانہ و منصفانہ پیام کسی ایک فریق نے کسی دوسرے فریق کو کیوں دیا ہوگا؟ حکومت کے ایک نمائندہ، صوبہ عراق کے اموی گورنر نے (جو اپنی بد ذاتی کے لیے ہی مشہور تھا) شریفانہ شرائط کو یکلخت ٹھکرا دیا۔ قوت کا نشہ بھی سخت نشہ ہوتا ہے اور پھر یہاں تو نسلی عصبیت اور خاندانی منافرت کا جذبہ بھی پوری طرح کار فرما تھا۔ ان بے بصیرتوں نے حق و باطل کے سوال پر خالی الذہن ہوکرغور ہی کب کیا؟ انھوں نے تو صرف یہ دیکھا کہ پشتینی دشمنوں ہاشمیوں کا مٹھی بھرگروہ اتفاق سے ہاتھ لگ گیاہے اور ان کا سب سے بڑا لیڈر بھی ان کے ساتھ ہے۔ چلو موقع اچھا ہے خطرہ کو ہمیشہ کے لیے ختم نہ کردو۔ بہر حال جنگ کا اگر اسے جنگ کہا جا سکے نتیجہ وہی نکلا جوسیکڑوں ہزاروں کے مجمع میں گنتی کے چند افراد کے گِھر جانے کا ہمیشہ ہی اس آب و گِل کی دنیا میں نکلا کرتا ہے ۔ واقعات، دردناک واقعات، آپ سب کے علم میں ہیں۔ نہ ان کے دہرانے کی حاجت نہ وقت میں اتنی گنجائش ۔ کام کی بات ہمارے آپ کے سب کے لیے تیرہ سوسال کی طویل مدت گزر جانے کے بعد بھی یہ ہے کہ (۱) مومنین متقین کے اس سردار نے جنگ و محاربہ میں اپنی طرف سے کوئی پیش قدمی یا عجلت ہرگز نہیں کی، بلکہ ہرممکن کوشش اس کی کی کہ اپنی خود داری کے تحفظ کے ساتھ فضا امن و آشتی ہی کی قائم رہے۔ سیاسی گوشہ نشینی وطن سے ہجرت یہ سب چیزیں گوارا کرلیں پرحتی الامکان کشت و خون کی راہ کو قبول نہ کیا۔ صحیح و اصلی شجاعت کے معنی بھی یہی ہیں۔ (۲)جب جنگ کے سوا چارہ نہ رہا اور شمشیر زنی نا گزیر ہوگئی تو پھر وہ داد شجاعت دی کہ دوست تو دوست دشمن اور مخالف بھی اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے، حق پر جان دینا گوارہ کرلیا پر حکومتِ غیر عادلہ کی اطاعت کوقبول نہ کیا۔ تو کل ایثار استقامت کے صحیح سبق دینے والی درس گاہ میدان کربلاہے۔ حادثہ نے تاریخ امت پر جو جو اثرات ڈالے ان کی تفصیل تو ایک لمبے وقت کی محتاج ہے، مختصرلفظوں میں بس اتنا سن لیجیے کہ بنی امیّہ کی حکومت جن کی بنیادیں یوں بھی اپنی زیادتیوں کے باعث چند روز بعد ہل جانے والی تھیں اس کے زوال و فنا کی رفتار اس حادثہ سے اور زیادہ تیز ہوگئی۔ اور دنیائے اسلام پر یہ روشن ہوگیا کہ کوئی کلمہ گو اگر کسی طریقہ سے تخت حکومت تک پہونچ جائے تو یہ لازم نہیں آتا کہ وہ حق پر ہے اور اس کی حکومت واجب الاطاعت بھی ہے۔ سیدنا حضرت حسینؓ نے اگر از خود کہیں حملہ کردیا ہوتا تو مخالفین کویقینا یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ فوج کشی ملک گیری اورحصول سلطنت کے اغراض سے ہوئی، اور اگر کہیں حکومت فاسقہ کے مطالبۂ بیعت کو مان لیا ہوتا تو دوسری طرف امت کے لیے ایک سند اور نظیر قائم ہوجاتی کہ مردحق پرست کے لیے باطل کی اطاعت اورفسق سے مفاہمت جائز و درست ہے۔ حسینؓ نے افراط وتفریط دونوں سے بچ کر وہ راستہ اختیار کیا جو عین عدل و اعتدال کی راہ تھا، اسوئہ حسینی ہمیشہ کے لیے امت کے حق میں دلیل راہ بن گیا۔ اورسنہ اسلامی کے پہلے عشرہ نے تقویم امت میں رُشد و ہدایت کے نمونہ کے طور پر ایک مستقل مقام حاصل کرلیا۔ ایک کہنے والے نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ حسنؓ اورحسینؓ دونوں جوانانِ جنّت کے سردارہوں گے اور اس کہنے والے کی زبان ہمیشہ سچ ہی کھلتی تھی۔ پھر جوانانِ جنّت کی سرداری کیا بغیر اتنی عظیم الشان قربانی کے اتنے بڑے جہاد نفس کے بے مثال ایثار و بے نفسی کے کیا یوں ہی مل جاتی؟" (منقول: نشریات ماجدی، ترتیب جدید مع تخریج و تحشیہ، مرتبہ زبیر احمد صدیقی،۲۰۱۶ء)