سچی باتیں۔۔۔ حرام کی آمدنی۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

06:56PM Mon 21 Mar, 2022

1930-03-14

کسی شخص کے متعلق اگرآپ کو معلوم ہو، کہ وہ خود شراب پیتا اور پلاتاہے، اپنے نوکروں چاکروں سے شراب کشید کراتا اور بازار میں اسے کھُلے خزانے دن دہاڑے فروخت کراتاہے، اُس کی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ یہی شراب فروشی ہے، اور تنہا شراب ہی پر موقوف نہیں، تاڑی، بھنگ، افیون، گانجہ، کسی نشہ کے پینے، پلانے، اور تجارت کرنے میں اُسے ذرا عارنہیں، جُوئے کو وہ ایک حد تک بُرا کہتاہے، لیکن کلب میں جُوا کھیل لینا اُس کے نزدیک کوئی مضائقہ نہیں رکھتا، اور گھوڑدوڑ میں گھوڑوں پر تو وہ لاکھوں روپئے کی بازیاں برابر لگاتارہتاہے۔ روپیہ کو سود پر چلانے پر وہ خاص طور سے حریص ہے، چنانچہ بڑی بڑی کوٹھیاں اور بڑے بڑے بینک اسی غرض سے اُس نے کھول رکھے ہیں۔ اور عیاشی وبدچلنی اُس کے نزدیک کوئی جُرم نہیں، چنانچہ اپنے گھر میں اوراپنے پڑوس میں اُس نے عصمت فروشی کے بڑے بڑے چَکلے قائم کرررکھے ہیں۔ اور لباس کے ذریعہ سے ، گانے بجانے کے ذریعہ سے، تصویروں کے ذریعہ سے، اور طرح طرح کے کھیل تماشوں کے ذریعہ سے اُس نے اپنے گردوپیش کھُلم کھُلا بے حیائیوں کو خوب رواج دے رکھاہے، تواِن عادات اور اِن اخلاق، اس طبیعت اور اِس سیرت، والے شخص کی بابت آپ کیا رائے قائم کریں گے؟اسے کمینہ اور بدمعاش، شُہدا اور لُچّا قراردیں گے، یا اس کی بزرگی اور شرافت کے قائل ومعتقد ہوجائیں گے؟

اب فرض کیجئے، کہ یہ جو اوصاف ابھی بیان ہوئے، کسی فرد کے نہیں، ایک پوری جماعت کے ہیں۔ توکیا آپ کی رائے بدل جائے گی؟ کیا ان اوصاف والی جماعت آپ کی نظر میں معزز وبزرگ قرار پائے گی؟ کیا ایسی جماعت کے حُسن اخلاق کے آپ گرویدہ ہوجائیں گے، اس کے کمالات پر رشک کرنے لگیں گے، اور اس کے کارناموں کی داد دینی شروع کردیں گے؟ ’’جماعت‘‘ کا لفظ مبہم ہے، اس لئے آپ خاموش ہیں۔ ’’جماعت‘‘ کے بجائے اگرصاف صاف یہ کہہ دیا جائے ، کہ جس آئین حکومت اور جس نظام تمدن کے یہ اوصاف ہوں ، اُن کی بابت آپ کی کیا رائے ہے، توآپ کا کیا جواب ہوگا؟ جس حکومت کی رعایا ہونے پر آپ فخر کررہے ہیں، اور فخر نہ سہی، کم از کم مطمئن توآپ ضرور ہیں، اُس کے اوصاف کیا سارے کے سارے وہی نہیں، جواوپر بیان ہوچکے ہیں؟ جس تہذیب وتمدن پرآپ مٹے ہوئے ہیں، اور جس کے سانچے میں اپنے تئیں ڈھالنا آپ عین روشن خیالی اور کمال ترقی سمجھے ہوئے ہیں، کیا اُس کے خط وخال اُس تصویر سے کچھ مختلف ہیں، جو ابھی اوپر کھینچی جاچکی ہے؟

مواخذۂ حشر کو چھوڑئیے ۔ دین ومذہب کے احکام سے تھوڑی دیر کے لئے قطع نظر کیجئے۔ اسی ناسوتی دنیا میں، اِسی مادّی عقل وہوش کے ساتھ، کسی تاریخ میں اگرآپ کی نظر سے کسی ایسی قوم کا حال گزرے، جو کھُلے خزانے خوب شراب پیتی اور پلاتی تھی، اور شراب کی تجارت، اور افیون اور چرس کے ٹھیکہ سے کرورہا روپیہ کی سالانہ آمدنی رکھتی تھی، جو خوب سود لیتی اور دوسروں کو سود دلاتی تھی، جس کے قانون فوجداری میں حرام کاری مطلق کوئی جرم نہ ہوتی، اور جو اپنی عورتوں اور لڑکیوں کو ، اُن کا طرح طرح کا بناؤ سنگار کراکے، صرف کھُلے منہ ہی نہیں، بلکہ کھُلی ہوئی ٹانگوں، اور برہنہ بازو وشانہ کے ساتھ، بازاروں اور پارکوںمیں، تھیٹروں میں اورتماشہ گاہوں میں، ناچ گھروں اور تصویر گھروں میں، صبح وشام، رات اور دن، گھوماتی اور سَیر کراتی، تو تاریخ میں ایسی قوم کا تذکرہ پڑھ کر آپ کیا کرتے؟ اُس پر لعنت بھیجتے ، یا اُس کی عظمت اور اُس کی ترقیوں کے قائل ہوکر اپنی نجات اور اپنی فلاح اُسی کی تقلید وپس روی میں سمجھنے لگتے؟ اوراُس کی سی وضع بنانا، اُس کا سالباس پہننا ، اُس کی زبان سیکھنا، اُس کے علوم وفنون کی خاطر اپنی جان ہلکان کرڈالنا، اُس کے اسکولوں اور کالجوں میں داخل ہونے کے لئے جان توڑ کوشش کرنا، اُس کی چاکری اور اُسکےدئیے ہوئے خطابات پر فخر کرنا، اپنی ترقی وکامیابی کی دلیل قرار دیتے؟ آج ، آنکھوں پر غفلت کے پردے پڑے ہوئے ہیں، لیکن آخر کبھی تو یہ ’’حال‘‘ ’’ماضی‘‘ بن کر رہے گا، اور آپ کی آج کی کامیابیوں اور کامرانیوں کی داستان محض ’’تاریخی‘‘ ہوکر رہ جائے گی۔ اُس وقت تاریخ کی پڑھنے والی خود آپ ہی کی نسلیں، آپ کی بابت کیا رائے قائم کریں گی؟