جواب نہیں وضاحت

Bhatkallys

Published in - Other

02:13PM Sat 7 May, 2016
حفیظ نعمانی میرے محترم چودھری شرف الدین بھائی نے اپنے مراسلہ میں دو باتیں میرے بارے میں لکھی ہیں۔ میں اپنے تعلقات کی نزاکت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جواب کے بارے میں تو سوچ بھی نہیں سکتا۔ البتہ اس کی وضاحت ضرور کردینا چاہتا ہوں۔ 30 اپریل کو بحث کا دروازہ کھولنے کا مجرم مجھے نہ ٹھہرایا جائے۔ میں نے یہ عرض کیا تھا کہ حضرت عمرؓ نے جب یہ فیصلہ کیا تو اکابر صحابہ میں کسی نے مخالفت نہیں کی میری مراد یہ تھی کہ حضرت علی کرم اللہ وجہٗ نے بھی اسے نامناسب نہیں قرار دیا۔ شرف الدین بھائی نے فرمایا ہے کہ شیعہ امامیہ نے تو اسے کبھی نہیں مانا۔ اللہ گواہ ہے کہ میں سمجھ نہیں سکا۔ میں نے تو صحابہ کرامؓ کے بارے میں عرض کیا تھا کہ ان میں سے کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ کیا شیعہ امامیہ کا زمانہ وہی تھا۔ اور صحابہ کرام میں ہی وہ شمار کئے جاتے ہیں؟ یہ واقعی مجھے یاد نہیں۔ میری اسی بات پر لندن سے بڑے بھائی مولانا عتیق سنبھلی نے بھی ایک ہوائی خط بھیج دیا۔ فرماتے ہیں: برادرم سلام مسنون! ’’دو چار ایسی باتیں پھر‘‘۔ تم نے تین طلاق کے لئے حضرت عمرؓ کی بات کہاں سے لی؟ کیا اس موقع پر ہماری کتاب طلاق ثلاثہ دیکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی؟ اسے دیکھتے تو پتہ چلتا کہ یہ روایت قطعی ناقابل قبول ہے۔ اور جو لوگ تین برابر ایک کے قائل ہیں جیسے اہل حدیث وہ اس روایت کا سہارا پکڑتے ہیں کہ یہ مسئلہ رسول اللہؐ کے زمانہ میں نہیں تھا یہ حضرت عمرؓ کی بدعت تھی۔ بہرحال ہماری کتاب ضرور پڑھ لو۔ طاہر محمود صاحب جو تین طلاق کے زبردست مخالف ہیں۔ انہوں نے ہماری کتاب پڑھ کر کہا تھا کہ آپ نے تو جڑ ہی اکھاڑ دی! نیز اہل حدیث مسلک کے ماہنامہ ’’صراط مستقیم‘‘ کو تبصرہ کے لئے بھیجی تو وہ تبصرہ سے جان چھڑا گئے۔ والسلام عتیق سنبھلی کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ شرف الدین بھائی بھی الفرقان سے کتاب طلاق ثلاثہ منگوالیں پھر اس مسئلہ پر ضروری ہو تو مزید لکھیں؟ میں نے اس مضمون میں یہ عرض کیا تھا کہ قرآن عظیم میں طلاق کا ہی مسئلہ نہیں ہے اور بہت سے احکام ہیں۔ ان پر کوئی بات نہیں کرتا۔ جیسے سود۔ ’’حلِّ اللہ البیع و حرّمہ الرّباء‘‘ خرید و فروخت حلال ہے اور سود حرام۔ کے بعد کیا کوئی گنجائش ہے کہ اس پر کسی عالم کا حوالہ دیا جائے؟ بیشک مولانا مناظر احسن گیلانی بہت بڑے عالم تھے لیکن انہوں نے ہی نہیں ان سے بھی بہت بڑوں نے اگر سود لینے اور دینے کو یا قرآن نے جسے حرام قرار دیا ہے اسے حلال ثابت کرنے کی کوشش کی ہے تو کیا وہ قرآن سے بڑھ جائیں گے؟ وضاحت کے ساتھ حرام کی گئی چیزوں میں۔ مردہ جانور، خون، خنزیر کا گوشت اور بلی چڑھائے گئے جانور کے گوشت کو کیا کوئی حلال کرسکتا ہے؟ سود ایک تو وہ ہے جو سودخوروں اور ضرورتمندوں کے درمیان ہے۔ اور ایک بینک کا سود ہے۔ عالمی فقہ اکیڈمی کے سیمینار کے ہزار ہزار صفحات کے سونیئر والد کے پاس آتے تھے۔ اکثر انہیں پڑھنے کا موقع ملا اس میں بھی بعض علماء نے بینک سے سود لینے کو جائز اور دینے کو ناجائز کہا ہے۔ لیکن اکثریت نے اسے حرام ہی مانا ہے۔ محترم مقبول احمد لاری نے اپنی اہلیہ مرحومہ کے نام سے ایک ٹرسٹ بنایا تھا۔ کافی دنوں کے بعد ایک ضرورتمند ضعیفہ نے ہم سے سفارش لکھوائی۔ وہ یہ جواب لے کر آئیں کہ وہ آپ سے بات کرنے کے بعد جواب دیں گے۔ شام کو ان کا پیغام ملا کہ کبھی فرصت ملے تو زحمت کرلیں۔ ملاقات ہوئی تو لاری صاحب نے فرمایا کہ ہم ایک رقم بینک میں جمع کردیتے ہیں۔ اس کا جو نفع ملتا ہے اس سے مدد کرتے ہیں۔ اس سے رقم تو باقی رہتی ہے اور دوسروں کی مدد ہوجاتی ہے۔ ہم نے کہا کہ وہ تو سود ہے۔ لاری صاحب نے کہا کہ ایک دن اسی جگہ جہاں آپ بیٹھے ہیں مفتی رضا انصاری صاحب بیٹھے تھے۔ میں نے ٹرسٹ کی بات چھیڑی اور معلوم کیا تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ بینک سے نفع لینا سود نہیں نفع ہے۔ ظاہر ہے میرے پاس جواب نہیں تھا۔ لیکن سود دینا تو بہرحال نفع نہیں ہوسکتا؟ اتفاق سے دو سال پہلے میرے نواسوں کو ایک دُکان خریدنے کے لئے رقم کی ضرورت تھی۔ انہوں نے ذکر کیا کہ بینک سے لے لیں؟ گھر میں مشورہ دیا گیا کہ اپنے نانا مولانا زکریا سنبھلی سے معلوم کرلیا جائے جو ندوہ حدیث کے بڑے استاذ ہیں؟ ان کا جواب تھا کہ لینا دینا تو دور کی بات ہے زبان پر بھی سود کا لفظ نہ لاؤ۔ اور ہر نماز کے بعد اللہ سے مانگو۔ شرف الدین بھائی نے کہیں پڑھی ہوئی ایک حدیث رقم فرمائی ہے کہ حضور رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ جب قرض واپس کرو تو کچھ بڑھاکر واپس کرو۔ ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو۔ لیکن اسے سود کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ سود کی تو شرط بھی ہوتی ہے اور حد بھی ہوتی ہے۔ شاید بینک کا قرض اور سود 1500 پہلے نہ ہو۔ اور جس معاشرہ میں حضور اکرمؐ تشریف لائے وہاں سود تو تھا۔ بینک کا ذکر سیرت کی کسی کتاب میں نہیں پڑھا۔ اور وہ سود وہی ہے جس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے مہاراشٹر میں کسان خودکشی کررہے ہیں۔ اس لئے کہ بینک کے قرض کو تو حکومت معاف بھی کردیتی ہے ساہوکار کے قرض کو کون معاف کرے؟ رہا قرض کی رقم بڑھاکر واپس کرنا تو یہ تو احسان کا بدلہ ہے جس کی نہ شرط ہے نہ حد؟ جسے ’’ہل جزاء الاحسان الااللحسان‘‘ کے خانہ میں تو رکھا جاسکتا ہے سود کے خانہ میں کون رکھ سکتا ہے؟ رب کریم کا احسان ہے کہ شرف الدین بھائی نے برسوں کے بعد قلم میں روشنائی بھری۔ ہم تو اکثر کہا کرتے تھے کہ ہر ہفتہ میں ایک یا دو مضامین والے بھائی نے قلم کیوں پھینک دیا؟ رہی دانشوری تو وہ کوئی بھی کہے قبول نہ کریں اس لئے کہ نہ اس کا طول معلوم ہے نہ عرض۔ بہت پڑھے لکھے بھی دانشور کہے جارہے ہیں اور بہت بڑے گدھے بھی اپنے کو دانشور کہلانا چاہتے ہیں۔ سب سے اچھی ڈگری ’’پڑھے لکھے‘‘ کی ہے وہ کسی کالج سے نہیں ملتی اور نہ کسی کجریوال کو اس کی ضرورت ہوگی کہ وہ اس کی تحقیق کرے۔ ایک بات ذہن میں یہ رہنا چاہئے کہ اسلامی قانون سال دو سال میں نہیں دسیوں برس میں مکمل ہوا ہے۔ ابتدا میں جو عرب میں رائج تھا اس کو اپنا لیا۔ اس میں سے بت پرستی اور شرک کو نکال دیا گیا اور آخرت کا اضافہ کیا۔ اس کے بعد جن باتوں کو غلط سمجھا انہیں واضح الفاظ میں حرام بتایا اور چوری اور زنا کی سزا بتائی ابتدا میں شراب بھی مسلمان پیتے رہے۔ ’’لاتقربالصلوٰۃ و انتم سکارا‘‘ اسی زمانہ کی آیت ہے۔ شراب کو نجس بعد میں قرار دیا گیا ہے۔ اور بعد میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ کیا کیا حرام ہے؟ سورۂ انعام میں 25 پیغمبروں کا نام لے کر فرمایا گیا ہے کہ ان کی بھی پیروی کی جائے۔ شادی شدہ مرد و عورت کے زنا کرنے کی سزا ’’رجم‘‘ سنگسار کرنا قرآن میں نہیں ہے۔ لیکن وہ اسلام کا قانون ہے کیونکہ توریت اور انجیل میں ہے۔ اسلامی فقہ قرآن حدیث کے بعد اجماع ہے اور یہی اجتہاد ہے۔ جو ان مسائل کے لئے ہے جس کے لئے کوئی ہدایت نہ ہو۔ اس کا فیصلہ دانشور یا ملک کے قانون داں نہیں مفتیان کرام کریں گے کہ کیا طلاق کا مسئلہ بھی ان مسائل میں ہے جس کے لئے اجتہاد کیا جائے؟