سچی باتیں۔۔۔ روز قیامت کون کام آئے گا؟۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

05:52AM Fri 12 Nov, 2021

اگرآپ سرکاری عہدہ دار ہیں، توآپ کو سب سے زیادہ فکرکاہے کہ رہتی ہے؟ اسی کی، کہ آپ کے افسر آپ کی بابت بہترسے بہتر رائے قائم کریں۔ اگرآپ قومی کارکُن ہیں، تودھُن اس کی سوار رہتی ہے، کہ آپ کا استقبال ہر جگہ دھوم دھام سے کیاجائے، اور آپ کہ ہر تقریر کی داد میں تالیوں کا شوربلند ہو۔ اگر آپ کسی اخبار کے ایڈیٹر ہیں، توآپ کی نظر ہر لمحہ اسی پر رہتی ہے، کہ آپ کہ ہر رائے کی تائید سے مُلک گونج اُٹھے، اور جو لفظ آپ کے قلم سے نکلے، اُسے قوم وحی والہام سے بھی بڑھ کر قرار دے۔ اگرآپ کتابوں کے مصنف ہیں، تو دل کوتلاش ہروقت اس کی رہتی ہے ، کہ ہرزبان پرآپ کے علم وفضل اور آپ کی تحقیق ونکتہ سنجی کا چرچا رہے، اور اعتراض وتنقید کی کوئی ایک بھی آواز نہ اُٹھنے پائے۔ غرض، زندگی کے کسی شعبہ سے بھی آپ کا تعلق ہو، آپ کی نظر اورآپ کی فکر اسی کے لئے وقف رہتی ہے ، کہ فلاں اور فلاں کی نگاہوں میں آپ کی وقعت وعزت قائم رہے، اور ’’یہ ‘‘ اور ’’وہ‘‘ آپ کو اچھا کہتے رہیں؟

آپ کی طبیعت کایہ شوق، آپ کے مزاج کا یہ ذوق، اللہ کے کسی حُکم کی تعمیل ہے؟ رسولؐ کے عادتِ مبارک کی پیروی ہے؟ عقل سلیم کے کسی فتوے کے ماتحت ہے؟ کوشش اس کی ہونی چاہئے ، کہ آپ اچھے ہوجائیں، یا اس کی کہ اچھے سمجھے جائیں؟ فکر اس کی رہنی چاہئے ، کہ آپ خود اپنے تئیںکیسا سمجھتے ہیں، یا اس کی کہ دوسرے آپ کی بابت کیا کہتے ہیں؟ ہمت اِس پر صرف کرنی چاہئے ، کہ آپ کی نیکی آپ کی سرشت میں پیوست ہوجائے، یا اس پر کہ دوسروں کی زبانوں پر رہے؟ ڈرنا کس چیز سے چاہئے، بدی سے ، یا محض بدنامی سے؟ شرم کس سے آنا چاہئے، اپنے خالق سے ، یا اپنی ہی جیسی مخلوق سے؟ مطمئن کس پر ہونا چاہئے، اس پر کہ فلاں فلاں نیکیوں کی توفیق آپ کو عطا ہوئی ، یا اس پر ، کہ ’’اِس نے‘‘ اور’’اُس نے‘‘ آپ کی بابت نیک رائے قائم کی؟ آپ کا ’’کل‘‘ اس کے مطابق ہوگا ، جو آج آپ کے داہنے اور بائیں شانہ پر بیٹھنے والے لکھ رہے ہیں، یااس کے مطابق کہ آج آپ کے دوستوں کے حلقہ میں آپ کو داددی جارہی ہے؟

’’آج‘‘ آپ خوش ہورہے ہیں، کہ آپ کی رسائی لاٹؔ صاحب کے دربار تک ہے، وزیرؔصاحب آپ کے دوستوں میں ہیں، کلکٹر صاحب آپ کو چائے پر مدعو کرتے ہیں، حکیمؔصاحب اپنے مدرسۂ طیّبہ کے جلسوں کا صدر آپ ہی کو بناتے ہیں، مولوی ؔصاحب جمعہ کے وعظ میں آپ کی فیاضیوں کی تعریف کرچکے ہیں، شاہؔ صاحب اپنے حلقہ میں آپ کے صاحبدل ہونے کو تسلیم فرماچکے ہیں، ایڈیٹرؔ صاحب آپ کی قومی خدمات کا اعتراف کرچکے ہیں، شاعرؔصاحب اپنے قصیدوں میں، آپ کو حاتم دوران ورستمِ وقت، علّامۂ زمان ونوشیروانِ زمانہ، سب کچھ ایک ہی وقت میں بناچکے ہیں، ’’آج‘‘ آپ اِن سب باتوں سے خوش ہورہے ہیں، لیکن ’’کل‘‘ جب آپ کا معاملہ ، خَلق سے نہیں، خالق سے، اَنجان سے نہیں، جاننے والے سے، پڑے گا، اُس وقت اِن میں سے کسی سے بھی، آپ کی بابت، ووٹ طلب کئے جائیں گے؟ اُس وقت آپ کے رازدار دوست، آپ کے نوکر چاکر، آپ کے بیوی بچّے، بلکہ خود آپ کے دل ودماغ، ہاتھ پَیر، کان آنکھ، سب بجائے ’’اپنے‘‘ ہونے کے ’’پرائے‘‘ نظرآنے لگیں گے۔ اورآپ کے خدمتگزارنہیں، بلکہ فطرت کی جانب سے آپ پر جاسوس ثابت ہوں گے! اُس وقت پڑوس کی اندھی بیوائیں اور دُکھیاری رانڈیں، محلہ کے ننگے اور بھوکے یتیم، بستی کے گھناؤنے اپاہج اور کوڑھی، شاید ایسے حقیر وذلیل نہ نکلیں، جیسے آج معلوم ہورہے ہیں!۔