سچی باتیں۔۔۔ اسلامی جنتری کا آغاز۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

03:56PM Fri 14 Aug, 2020

اسلامی جنتری کاآغاز چاند کی سالانہ گردش ایک بار پھر اپنا دورہ تمام کرچکی۔ اسلامی جنتری میں ’’قربانی‘‘ کا مبارک مہینہ اور مبارک دن گذر چکا، اور ’’شہادت‘‘ کا مبارک مہینہ اور مبارک دن آپہونچا۔ عبد قربان کا مہینہ اگر اس لئے تھا، کہ آپ اپنا سب کچھ حق کی راہ میں لُٹادیں، تو محرم کا مہینہ یہ پیام لاتاہے، کہ آپ خود اپنے کو شہادت کے لئے پیش کردیں۔ پچھلا مہینہ ’’آپ سے‘‘ مانگ رہاتھا، اگلا مہینہ ’’آپ کو‘‘ مانگ رہاہے۔ دنیا کی ایک نہایت زبردست، متمدن وظالم حکومت کی کشتیِ حیات اسی مہینہ کی ۱۰؍تاریخ کو دریائے نیل میں غرق ہوئی ، موسیٰ علیہ السلام کی مظلوم قوم کو ربّ موسیٰ وہارونؑ نے اسی مبارک تاریخ کو آزادی دلائی، اور اللہ کے کلیمؑ نے اس ’’یوم آزادی‘‘ کی مستقل یادگار روزۂ عاشوراء کی شکل میں قائم کردی۔ دنیا کے سب سے بڑے ہادی، سب سے بڑے معلم، اور سب سے بڑے آزادی دلانے والے نے ، اس پاک دن کی پاک یادگار کویہی نہیں، کہ جائز رکھاہو۔ بلکہ خودبھی پابندی کے ساتھ روزہ رکھا، اور اپنی امت کو بھی اس کی تاکید فرمائی۔ ہجرت نبویؐ کے نصف صدی بعد تاریخ نے پھر اپنے تئیں دوہرایا۔ اسی مہینہ کی اسی تاریخ کو، سرزمین کربلا پر’حق وباطل‘ ملکوتیت وحیوانیت ، آزادی وملوکیت کے درمیان ایکبار پھر معرکہ آرائی ہوئی۔ ایک طرف دولت تھی، حکومت تھی، سلطنت تھی، مادی قوّت تھی، شاہی خزانہ تھا، شاہی فوج تھی، ہزارہا سپاہیوں کا لشکر جرارتھا، قوت کا نشہ تھا، حکومت قائم کرانے کی دھن تھی، دوسری طرف غربت تھی، مسکینیت تھی، فقر وفاقہ تھا، ادائے فرض کا احساس تھا،حق پرستی کے جوش سے بھرے ہوئے چند دل تھے، دلوں کے اندر، حق کی راہ میں مٹنے اور مٹ جانے کا بیتاب کردینے والا ولولہ تھا، باطل کے آگے نہ جھکنے والی چند گردنیں تھیں، گردنیں کٹیں، لاشیں تڑپیں، اور جس خون کا ایک ایک قطرہ پروردگار عالم کی نظر میں، دونوں جہانوں کے موجودات سے زیادہ قدر وقیمت رکھتاتھا، اس کی ندیاں بہیں! اللہ کے کلیمؑ کی امت نے سب کچھ جھیل کر عاشورۂ محرم کی اپنی آزادی حاصل کی تھی، اللہ کے حبیب ؐ کے نواسہؓ نے خود اپنی جان نذر کرکے ابدی آزادی وسرمدی مسرت حاصل کرلی۔ موسیٰ کلیمؑ نے مع اپنی ساری امت کے ، وطن سے بے وطن ہوکر عاشورۂ محرم کا استقبال کیاتھا، سرور عالم ﷺ روزہ وعبادت کے ساتھ اس تقریب کو مناتے تھے۔ حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے اپنے عزیزوں اور فرزندوں کے ساتھ خود اپنی جان نذر کرکے، اس روز سعید کی پیشوائی کی۔ اب ارشاد ہوا کہ آپ کس طریقہ پر ، اس تاریخ کی پیشوائی کے لئے آمادہ ہیں؟ آپ آزادی کی خاطر جلاوطنی کے تیار ہیں؟ آپ طاعت وعبادت، روزہ وریاضت کے خوگر ہیں؟ آپ فاسق حکومت کے ظلم وجبر کا مقابلہ اپنے گوشت اور پوست سے کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ اگر خدا نخواستہ یہ کچھ نہیں، تو یہ محرّم کس کا ہے؟ بانس کی تیلیوں پر خوشنما کاغذ منڈھنا، ان کاغذی عمارتوں پر تیل بتی جلانا، ڈھول تاشہ بجانا، کیا یہی سامان، عاشورۂ محرم کے استقبال ومدارات کاہے؟ یہ آپ کے دل کا گڑھا ہوا محرّم آخر کس کاہے؟ کیا ابراہیمؑ خلیل کا؟ کیا موسیٰ کلیمؑ کا، کیا خاتم النبیین ؐ کا؟ کیا ابو بکرؓ وعمرؓ، عثمانؓ وعلیؓ کا؟ کیا حسنؓ وحسینؓ، زین العابدینؓ وجعفر صادق ؓ کا؟ کیا ابو حنیفہ ؒ وشافعیؒ ، مالکؒ واحمدؒ کا؟ کیا حسن بصریؒوجنید، شیخ جیلانیؒ وخواجہ اجمیریؒ کا؟ آخر قرآن وحدیث، فقہ وتصوف، شریعت وطریقت، کہیں سے بھی آپ کو اس کی سند جوازملتی ہے، کہ تاریخ اسلام کی اتنی اہم تاریخ کو آپ اس بیدردی کے ساتھ اپنی خواہش نفس کے پورا کرنے میں صرف کردیں؟ 1926-06-02