مغرب میں اسلام کی مقبولیت اور ہماری ذمہ داریاں

Bhatkallys

Published in - Other

04:51PM Tue 16 Jun, 2015
مولانا اسرار الحق قاسمی (آئی این ایس انڈیا) ایک حالیہ سروے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اسلا م برطانیہ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والامذہب ہے ۔ اس سے قبل امریکہ کے ایک تھنک ٹینک ادارے پیو ریسرچ سینٹر نے اپنی تحقیقات کی بنیاد پر بتایا تھا کہ اسلام دنیا کی آبادی میں تیزی سے اضافے کی شرح رکھنے والا عالمی مذہب ہے اور اس لحاظ سے 2070تک دنیا میں مسلمانوں کی تعداد اول نمبر پر ہوگی۔ اس نوعیت کے سروے اکثر و بیشتر اخبارات اور رسائل کی شہ سرخیاں بنتے رہتے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ اسلام اس صدی کا سب سے مقبول اور سب سے تیزی سے فروغ پانے والا مذہب ہے اور خاص طور پر یوروپ اور امریکہ میں دیگر مذاہب ترک کر کے بڑی تعداد میں لوگ مذہب اسلام کے گوشۂ عافیت میں پناہ لے رہے ہیں۔ مجھے متعدد بار برطانیہ کا دورہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ خاص کر ان شہروں میں میرا قیام زیادہ رہا ہے جہاں ہندوستان سمیت برصغیر سے ہجرت کر کے مستقل سکونت اختیار کر لینے والے مسلمانوں کی خاطر خواہ آبادی ہے۔ وہ ملازمت سے لیکر تجارت تک مختلف پیشوں سے وابستہ ہیں اوراللہ کی نوازشوں کی بدولت خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن آس پاس کے مغرب زدہ ماحول کے بیچ رہتے ہوئے انکی واحد فکراور کوشش یہ رہتی ہے کہ وہ اپنے مذہب اسلام کی ڈور کو کس طرح زیادہ سے زیادہ مضبوطی سے تھامے رہیں۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ۔اسکے لئے خاص کر مخالف ماحول میں سخت محنت اور جانفشانی اور استحکام اور پائیداری کے ساتھ راہ راست پر چلنا پڑتاہے۔مساجد قریب نہیں بلکہ کئی کلومیٹر کی دوری پر واقع ہوتی ہیں۔مسلم آبادی بھی یکجا اور آس پاس نہیں ہوتی۔ اسلامی تعلیمات حاصل کرنے کیلئے بہی اضافی مشقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ آسانیاں دستیاب نہیں ہوتیں جو برصغیر خاص کر ہندوستان کے مسلمانوں کو فراہم ہیں۔ ان حالات کے باوجود برطانیہ کے مسلمانوں کی مذہب کو عملاُاختیارکر نے کی کوششیں جار ی ہیں اور الحمد اللہ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ہیں۔مساجد آباد ہیں‘ گھروں میں دینی ماحول ہے‘ بچوں اور بچے اور بچیاں اسکولوں‘ کالجوں اور معاشرے میں بالکل متضاد ماحول ملنے کے باوجواسلامی لباس اور طرز زندگی پر عمل پیرا ہیں۔ وہاں آباد مسلمانوں میں دین سے رغبت انکی اپنی ذات اور فیملی تک ہی محدود نہیں ‘انکے دلوں میں دور دراز کے دیگر ملکوں میں ان مسلمانوں کیلئے بھی تڑپ ہے جومفلوک الحال اور خانماں برباد ہیں۔ظاہر ہیکہ یہ کوششیں رائیگاں نہیں جاتیں ۔دین اور دنیا دونوں میں اس کا اجر عظیم ملتا ہے۔ اسکے علاوہ اگر آپ ایک مثالی زندگی گزار رہے ہیں تو اس کا اثر دوسروں پر بھی ہوتا ہے۔وہ آپکی اچھائیوں کو قبول کرتے ہیں اور انہیں اپنی زندگیوں میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عام طور پر مسلمان بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر جیسے ریلوے اسٹیشن‘ ایئر پورٹ‘ یا سفر کے دوران نماز کی ادائیگی سے گریز کرتے ہیں لیکن جو اس کا اہتمام کرتے ہیں وہ غیر مسلموں کی نظر میں مقابلتاُ زیادہ محترم ہوتے ہیں۔ آج اگر ہمارا مذہب اسلام یوروپ اور امریکہ میں غیرمذاہب کے لوگوں میں قبولیت حاصل کر رہا ہے اور سب سے تیزی سے فروغ پانے والے مذہب کے بطور میڈیا کی شہ سرخیوں میں جگہ پا رہا ہے تو ہمارے دین کی صداقت اور اسکی تعلیمات کی ہمہ گیریت اور آفاقیت کے ساتھ ساتھ وہاں آباد مسلمانوں کی دین اسلام کی پیروی‘ ان کا حسن اخلاق‘ انکی پوشاک‘ انکا رہن سہن‘ انکے گھروں کا ماحو ل وغیرہ کا بھی بڑا دخل ہے۔ اور یہ سب کچھ ایسے وقت اور دور میں ہو رہا ہے جب دنیا بھر میں خاص طور سے امریکہ اور یوروپ میں اسلام کے خلاف بغض و عداوت‘ تنگ نظری‘ تعصب اورحسد کا عنصر پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ کارفرما نظر آتا ہے اور اسلام کے خلاف منظم سازشوں کا ایک لامتناہی سلسلہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ لندن کے بعض اسکولوں میں‘ جہاں مسلم طلبا کی قابل لحاظ تعدادبتائی جاتی ہے‘ طلبا کے روزے رکھنے پر پابندی کا حالیہ فیصلہ اسلام کے فروغ سے بوکھلائے ہوئے لوگوں کی اسلام سے عداوت اور سازش کا تازہ ترین ثبوت ہے۔ اس پابندی سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہیکہ انگلینڈ میں مسلم بچوں اور بچیوں میں اسلامی احکام کی پابندی پائی جاتی ہے جسکا مشاہدہ میں نے وہاں قیام کے دوران کیااور جسکا ذکر بالائی سطور میں ہو چکاہے۔ آئر لینڈ میں واقع کوئین یونیورسٹی میں مسلم طلبا کے ذریعہ نماز کیلئے جگہ مختص کرنے کی جاریہ مہم بھی مسلم نوجوانوں میں اسلام کی پیروی کے رجحان کو ظاہر کرتی ہے۔ ا س کے ساتھ ہیحکومت برطانیہ کے ذریعہ انتہا پسندی سے نمٹنے کے نام پرمسلمانوں کو غلط طریقے سے نشانہ بنانے کے روز افزوں معاملات اسلام کی ترویج و اشاعت روکنے کی حکومتی سازش کو بے نقاب کرتی ہے۔ ایک تازہ واقعہ یہ روشنی میں آیا ہیکہ ایسٹ لندن کالج نے کیمپس میں اسلام فوبیا کے واقعات میں اضافہ کی شکایت کرنے پر تین مسلم طالبات کو ہی کالج سے نکال دیاجبکہ سزا کے مستحق وہ لوگ تھے جو تعلیمی ادارہ میں مسلم مخالف ماحول قائم کر رہے ہیں۔ یہ بھی قدرت کا ہی کرشمہ ہیکہ اسلام کو یہ فروغ ایسے وقت میں حاصل ہو رہا ہے جب عالم اسلام خود باہم دست گریباں ہے اور اسلام غیر مسلموں کی نظر میں نعوذ باللہ امن و آشتی کا نہیں بلکہ جنگ و جدال کا مذہب ہے۔مسلم ملکوں کی صورتحالکسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ہر جگہ قتل و غارتگری کا ماحول ہے۔کہیں مسلک کا جھگڑا ہے تو کہیں نسلی اور لسانی تنازعات ہیں اور مسلمان بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔ کہیں یرغمالیوں کوآہنی پنجرے میں قید کرکے زندہ جلایا جا رہا ہے تو کہیں انہیں کیمرے کے سامنے چاقو سے ریت ریت کر قتل کیا جا رہاہے۔ کہیں عدل و انصاف کا یہ پیمانہ ہو گیا ہے کہ نام نہاد الزامات کی بنیاد پر یکمشت سیکڑوں لوگوں کو تختۂ دار پر لٹکانے کی سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔خود اسلامی ملکوں میں اسلام پسندوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور ظلم و جبرکے الم بردارعنان اقتدار اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے ہیں۔افسوسناک بات ہیکہیہ ظلم و زیادتی‘ دہشت گردی‘ قتل و غارتگری کا یہ کھیل اس مذہب اسلام کے نام پر کھیلا جا رہا ہے جو حقوق انسانی تو چھوڑئے‘ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کی بھی ضمانت دیتا ہے اور ہر آدمی کو ایک دوسرے کیلئے بلا لحاظ مذہب‘ مسلک‘ نسل‘ علاقہ قابل احترام اور لائق عزت قرار دیتا ہے۔ ہر مسلمان کو اپنی زندگی میں اسلامی تعلیمات اور احکامات کو کما حقہ طور پر عملی شکل میں داخل کرنا چاہئے۔ یہ اسکا دینی فریضہ ہے اور معاشرتی ذمہ داری بھی۔ اگر ہم نے اس فرض اور ذمہ دا ری کو نبھا لیا تو یقین مانئے کہ اس سے دنیا میں ایک پرامن انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔اس وقت پوری دنیا امن کی متلاشی ہے۔ہر شخص نجات کا راستہ تلاش کر رہا ہے۔ایک ایسے دین کی آغوش میں سما جانا چاہتا جو امن و آشتی کی ضمانت دے۔ایسے نازک دور میں ہمیں اپنے کردار و عمل سے صرف یہ دکھانا ہیکہ اسلام کا امن و سلامتی کا پیغام کوئی من گھڑت نہیں بلکہ خالق کائنات کی جانب سے نازل شدہ اسلوب حیات ہے۔ اسلام کے خلاف سازشیں کوئی نئی بات نہیں۔یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔آج یوروپ اور امریکہ میں جو لوگ مذہب اسلام میں داخل ہو رہے ہیں وہ موجودہ دور کے مسلمانوں میں در آئیں خرابیوں کے باوجود صرف اسلام کی اچھائیوں سے متاثر ہوکر ایسا کررہے ہیں۔ اگر ہم اپنی اصلاح بھی کرلیں تو اس سے نہ صرف ہمارا بلکہ ہمارے دین کا بھی فائدہ ہوگا اورغیر قومیں اسلام کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی خوبیوں سے بھی متاثر ہوکر ہمارے سچے دین کی آغوش میں پناہ لیں گی۔غیر مذاہب کے دانشور اسلام کو بہترین مذہب قرار دیتے رہے ہیں۔ان کی اس رائے میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے اور نہ انشا اللہ ہوگی ۔لیکن مسلمانوں کے تعلق سے انکی رائے اچھی نہیں رہی ہے۔ وہ مسلمانو ں کو بدترین قوم قرار دیتے ہیں۔اس نظریہ کو تبدیل کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ کیا ہم اس پر غور و فکر کرنے کیلئے تیار ہیں؟ رمضان کی آمد آمد ہے۔ اس مقدس اور بابرکت ماہ کے آغاز کے ساتھ ہم ایک باعمل مسلمان بننے کی بھی شروعات کر یں تو اللہ تعالی کی مدد یقیناُ ہمارے ساتھ ہوگی۔*** (مضمون نگار ممبر پارلیمنٹ اور آل انڈیاتعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے صدرہیں)