ہندی اور انگریزی کا جھگڑا

از: کلدیپ نیئر
پہلے یہ کام اس وقت کے وزیر داخلہ گلزاری لال نندہ نے کیا تھا جب انھوں نے ہندی زبان کو خصوصی اہمیت دینے کا سوال اٹھایا تھا۔ اب مرکزی وزیر مملکت برائے امور داخلہ کرن ریجی جو نے وہی بات کی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گلزاری لال نندہ کے اعلان پر تامل ناڈو کے بہت سے لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے خود کو آگ لگا لی تھی۔ مگر شکر ہے کہ اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔ نندہ نے مرکزی حکومت کے اداروں کو ہدایت کی تھی کہ فائلوں پر نوٹ ہندی زبان میں لکھے جائیں اور افسر لوگ اپنا مؤقف بھی ہندی زبان میں بیان کریں۔
اب ’’ڈی ایم کے‘‘ کے لیڈر ایم کے اسٹالن نے مرکزی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ ہندی نہ بولنے والوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانا چاہتی ہے یا انھیں ملک بدر کرنا چاہتی ہے اور وہ ملک کو انڈیا کے بجائے ہندیا بنانا چاہتی ہے۔ یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب صدر پرناب مکھرجی نے سرکاری زبان کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات منظورکر لیں کہ صدر اور وزیروں، مشیروں سمیت تمام اہم عہدیداروں کو بالخصوص جو ہندی زبان پڑھ اور بول سکتے ہیں، ان سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اپنی تقریر صرف ہندی زبان میں کریں اور بیان بھی اسی زبان میں دیں۔
صدر مملکت نے بہت سی دیگر سفارشات بھی منظور کر لی ہیں جن میں یہ بھی ہے کہ ہوائی اڈوں پر طیاروں کی پرواز اور اترنے کے اعلانات انگریزی کے ساتھ ہندی میں بھی اعلان کیے جائیں۔ بہرحال مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات ایم وینکیا نائڈو نے کہا ہے کہ یہ الزام کہ ہندی کو زبردستی نافذ کیا جا رہا ہے بالکل غلط ہے۔ حکومت کی ہر گز یہ نیت نہیں کہ کسی بھی زبان کو ہندی سمیت زبردستی نافذ کرے۔
اسٹالن سمیت دیگر رہنماؤں کی طرف سے بڑے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے اور کم از کم تامل ناڈو تو ہرگز نہیں چاہتا کہ اس کے اس صوبے پر کوئی اور زبان زبردستی ٹھونسی جائے۔ یہ مسئلہ کئی عشرے پرانا ہے جس کا ابھی تک کوئی حل تلاش نہیں کیا جا سکا۔ وہ ریاستیں جہاں ہندی نہیں بولی جاتی وہ ملک کے اولین وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی اس یقین دہانی کا حوالہ دیتے ہیں کہ انگریزی کی جگہ ہندی صرف اس صورت میں نافذ کی جائے گی جب وہ لوگ اس نفاذ کے لیے دلی اور ذہنی طور پر تیار ہوجائیں گے۔
پنڈت نہرو کے اسقدر دو ٹوک بیان نے ہندی کے جنونی پیروکاروں کو مایوس کر دیا ہے لیکن مجموعی طور پر قوم نے سکھ کا سانس لیا ہے کہ بھارت اس گڑھے میں گرنے سے بچ گیا ہے۔ 1965ء میں مدراس میں ہندی کے خلاف کالج کے طلبہ نے ایک تحریک چلائی تھی جس کے نتیجے میں وہاں فسادات شروع ہو گئے جوکہ پوری ریاست میں پھیل گئے اور کئی مہینے جاری رہے۔ اس دوران تشدد کے واقعات عمل میں آئے۔ گھیراؤ، جلاؤ، لوٹ مار اور پولیس کا لاٹھی چارج حتیٰ کہ گولی تک چل گئی۔
اس وقت ریاست میں کانگریس کی حکومت تھی جسے فسادات پر قابو پانے کے لیے نیم فوجی دستے طلب کرنے پڑے لیکن اس کے باوجود کم از کم 70 افراد جان کی بازی ہار گئے جن میں پولیس والے بھی شامل تھے۔ صورت حال کو معمول پر لانے کے لیے اس وقت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری کو یقین دہانی کرانی پڑی کہ پنڈت نہرو کے اس بیان پر عمل کیا جائے گا کہ اس وقت تک انگریزی بدستور سرکاری زبان رہے گی جب تک ہندی نہ بولنے والی ریاستیں اس کا تقاضا کریں گی۔ یہ فسادات شاستری کی طرف سے وعدہ کرنے کے بعد ختم ہوگئے۔ اسی طرح طلبہ کا احتجاج بھی ختم ہوگیا لیکن اس احتجاج کے نتیجے میں ریاست میں بڑی سیاسی تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔
ڈی ایم کے نے 1967ء میں اقتدار پر قبضہ کر لیا جس کے بعد کانگریس آج تک وہاں اقتدار میں نہیں آ سکی اور نہ ہی تامل ناڈو میں اسے اقتدار ملا۔ اسی سال یعنی 1967ء میں سرکاری زبنوں کے ایکٹ میں بھی ترمیم کی گئی اور وزیراعظم اندرا گاندھی نے ضمانت دی کہ انگریزی کے ساتھ ہندی بھی سرکاری زبان کے طور پر استعمال ہوتی رہے گی اور اسی وجہ سے ابھی تک ملک میں دونوں زبانیں بیک وقت رائج ہیں۔ 1968ء اور 1986ء میں دو نسبتاً کم درجے کے فسادات ہوئے جنھیں محدود کامیابی حاصل ہوئی۔
درحقیقت وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے پہلے پندھروارے میں مرکزی حکومت کے دفاتر میں ایک گشتی مراسلہ موصول ہوا کہ سوشل میڈیا میں ہندی استعمال کی جائے۔ یہ گویا عقبی دروازے سے داخل ہونے کی ایک کوشش تھی لیکن ہندی نہ بولنے والی ریاستوں کو اس کے مقصد کا پتہ چل گیا اور انھوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا لیکن حکومت نے فوری طور پر اپنا یہ اقدام واپس لے لیا اور وضاحت کی کہ یہ صرف ہندی بولنے والی ریاستوں کے لیے تھا۔ وزیر داخلہ ری جیجو کے بیان سے ہندی نہ بولنے والے عوام کا خوف دوبارہ عود آیا ہے۔ اور اس خوف میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ آنے والے وقت میں نجانے ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جائے۔
مجھے یقین ہے کہ مودی کی حکومت کو کوئی کٹر ہندی پرست قسم کے لوگ پیچھے سے دھکیل رہے ہیں۔ اگرچہ بی جے پی میں کچھ اعتدال پسند لوگ بھی یقیناً شامل ہونگے لیکن لگتا ہے کہ ان کی بات نہیں سنی جا رہی۔ آزاد خیال رہنماؤں کو احساس ہے کہ زبان کی تبدیلی کے معاملے پر بہت دھیرے دھیرے عمل کیا جانا چاہیے۔ آج کا بھارت 50سال پہلے کے بھارت سے بہت مختلف ہے۔ اس وقت ہر لسانی گروپ اپنی شناخت نمایاں کرنے کے لیے زور لگا رہا ہے۔ ریاستوں کی تشکیل نو کے عمل کو ایک انتباہ سمجھنا چاہیے۔ بھارت کی یکجہتی کا مقصد ناکام ہو سکتا ہے۔
اگر عوام کے حساس جذبات کو مدنظر نہ رکھا گیا تب ملک میں زبردست انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔ آخر ہندی کے نفاذ کے لیے اتنی جلدی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ چند اور دہائیاں گزر جانے دیجیے اور صبر و تحمل سے کام لیا جانا چاہیے ورنہ معاملات ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔ 1950ء اور 1960ء کے عشروں میں بھارت بہت خون ریز لسانی فسادات سے گزر چکا ہے، جب وزارت داخلہ نے مختلف محکموںکو ہدایت کی کہ ملکی آئین کے مطابق اپنے کاروبار کو انگریزی سے ہندی میں منتقل کردیا جائے۔
میری خواہش ہے کہ دونوں زبانوں کو اس وقت تک برقرار رکھا جائے جب تک ہندی نہ بولنے والے ہندی کے استعمال پر آمادہ ہو جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ انگریزی کا استعمال صرف مخصوص شعبوں کے لیے ہی جاری رکھے۔ اب ان کو اندازہ ہوجانا چاہیے کہ جلد بازی میں ملک کی یکجہتی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ہندی نہ بولنے والی ریاستیں بالخصوص تامل ناڈو نے اس آئینی شق کو قبول کر لیا ہے کہ بھارتی حکومت کی مرکزی زبان ہندی ہو گی لیکن وہ ہندی سیکھنے کے لیے وقت چاہتے ہیں تا کہ اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور راجستھان کے لوگوں کی طرح انھیں بھی ہندی لکھنا پڑھنا اور بولنا آ جائے۔
اس بات میں شک نہیں کہ مودی کو ہندی میں بڑی سہولت محسوس ہوتی ہے اور انھوں نے اپنی انتخابی مہم بھی ہندی ہی میں چلائی تھی۔ جب کہ شمالی ہند کے لوگوں کے لیے جو ہندی استعمال کی گئی اس میں سنسکرت کی آمیزش شامل تھی لیکن مودی کو نہرو کا وہ وعدہ یاد رکھنا چاہیے جو انھوں نے 1963ء میں کیا تھا کہ ملک بھر میں انتظامیہ کی زبان انگریزی اور ہندی دونوں ہوں گی اور انھوں نے صرف ہندی کے استعمال کے لیے کوئی خاص مدت بھی متعین نہیں کی۔
قومی ورثے کے لیے زبانوں کا استعمال ناگزیر ہے لہٰذا ملک بھر کے لیڈروں کو ہندی کے استعمال کے راستے تلاش کرنا ہوں گے اور اس مقصد کے لیے انھیں علاقائی زبانوں کو بھی اہمیت دینی ہوگی تاکہ وہ زبانیں بھی زندہ رہ سکیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)