آج معروف شاعر اور ادیب محسنؔ زیدی کا یوم پیدائش ہے

Bhatkallys

Published in - Other

08:11PM Sun 9 Jul, 2017

از : ابو الحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محسن زیدی اردو زبان کے معروف شاعر تھے ان کا مکمل نام سید محسن رضا زیدی تھا ۔ محسن ان کا قلمی نام ھے ۔ آپ اترپردیش کے علاقے بہرائچ میں 10 جولائی 1935ء کو پیدا ھوئے ۔ آپ کے والد کا نام سید علی رضا زیدی اور والدہ محترمہ کا نام صغریٰ بیگم تھا ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم پرتاپ گڑھ کے سکول سے حاصل کی ۔ آپ نے بی اے اور ایم اے معاشیات لکھنؤ یونیورسٹی سے کیا اور اکنامکس مین ماسٹر زکی ڈگری الہ آباد یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ اس کے بعد آپ نے اکنامکس کے شعبے میں گونمنٹ کی جاب اختیار کی ۔ اور 1993 میں ریٹائر ھوئے ۔ آپ ایک سینئیر اکنامکسٹ تھے اور جائنٹ سیکرٹری کے عہدے تک خدمات انجام دیں گورنمنٹ کی طرف سے وہ مختلف ممالک کے دوروں پر بھی جاتے رھے جن میں جاپان ، سنگا پور ، تھائی لینڈ ، تائیوان ، انڈونیشیا ، ملائشیا اور الجیریا کے علاوہ اور بھی ممالک شامل ھیں ۔ آپ کو شاعری کا شوق بچپن ھی سے تھا ۔ جب آپ صرف 15 سال کے تھے اور پرتاپ گڑھ کے ھائی سکول میں پڑھتے تھے ۔ آپ ابتدا مین نازش پرتاپ گڑھی سے بہت متاثر تھے جو اس وقت علاقے کے نوجوان شاعرون میں بیحد مقبول تھے ۔ لیکن اس کے بعد آپ کو کلاسیکل اساتذہ کو پڑھنے کا موقع ملا اورکلاسیکل اساتذہ کے گرویدہ ھو گئے ۔ اس وقت جدید شعرا ء میں علامہ اقبال ، فراق گورکھپوری ، فیض احمد فیض اور جگر مراد آبادی نے انہین بیحد متاثر کیا ۔ محسن زیدی کا زیادہ کلام غزل میں اور انہوں نے اپنے تخیل کے اظہار کیلئے سادہ الفاظ کا چناؤ کیا جو کہ پڑھنے والے کے دلوں کو چھو جاتے ھین ۔ فراق گورکھپوری جو کہ الہ آباد یونیورسٹی مین ان کے استاد بھی تھے نے محسن زیدی کی پہلی کتاب مین ان کی شاعری پر بہت حوصلہ افزائی فرمائی اور ان کے اشعار کی بیحد داد دی ۔ آپ کے کلام پر بہت سی اردو اکیڈمیز نے آپ کو ادبی ایوارڈز سے بھی نوازا ۔ آپ کا زیادہ تر قیام دہلی میں رھا لیکن ریٹائر منٹ کے بعد آپ لکھنؤ منتقل ھو گئے اور وھیں 03 سپتمبر 2003ء کو آپ کا انتقال ھوا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتابیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہرِ دل ۔ 1961ء رشتۂ کلام ۔ 1978ء متاعِ آخرِ شب ۔ 1990 ء باب سکون ۔ 2000ء جنبشِ نوک قلم ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منتخب کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی پیکر ہے نہ خوشبو ہے نہ آواز ہے وہ ہاتھ لگتا ہی نہیں ایسا کوئی راز ہے وہ ایک صورت ہے جو مٹتی ہے بنا کرتی ہے کبھی انجام ہے میرا کبھی آغاز ہے وہ اس کو دنیا میں میری طرح ضرر کیوں پہنچے میں زمانے کا مخالف ہوں جہاں ساز ہے وہ لوگ اس کے ہی اشاروں پہ اڑے پھرتے ہیں بال و پر دیکھے کے ہیں قوت پرواز ہے وہ پتھروں پر بھی جو قدموں کے نشاں ثبت کرے صاحب کشف ہے وہ صاحب اعجاز ہے وہ سوچ کر اس سے ملو وہ میرا ہمزاد سہی سحر کر دیتا ہے ذہنوں پہ فزوں ساز ہے وہ اک کھنڈر جس سے کوئی اب تو گزرتا بھی نہیں اپنے ماضی کے حسیں دور کا غماز ہے وہ کیوں نہ محسنؔ اسے سینے سے لگاۓ رکھوں میرے ہی ٹوٹے ہوۓ ساز کی آواز ہے وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دل کو دھڑکا ہے!کہ اس کا بھی پتا کوئی نہیں اب کے پسپائی میں سنتے ہیں بچا کوئی نہیں رُو بہ رُو الفاظ کے رکھے ہیں عریاں آئینے جسم پر آواز کے بند قبا کوئی نہیں اس کے زخمی دست و پا پر رکھتا مرہم رک کے کون راستے میں ایک پل کو بھی رکا کوئی نہیں خواب میں لگتا تھا جیسے کوئی میرے پاس ہو جاگتی آنکھوں نے ڈھونڈا تو ملا کوئی نہیں کون منزل کی بشارت دے گا اب اس کی طرح رہنما تو ہیں کئی معجز نما کوئی نہیں ڈھیر ہیں اب ٹوٹ کر اک دوسرے کے سامنے میرے اس کے درمیاں اب فاصلہ کوئی نہیں دور تک پھیلی ہوئی ہے محسنؔ اک بے منظری چہرہ اب پیش نظر اچھا برا کوئی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری طرح رات کو غزلیں کہا کرو تنہائیوں میں آپ سے باتیں کیا کرو جتنا بھی دل ہو چاک سویرے سے شام تک تار ِنفس سے رات گۓ سی لیا کرو دیوار و در کے بیچ ہی گُھٹ گُھٹ کے رہ نہ جاؤ گھر سے نکل کے دشت میں گھوما پھرا کرو کیا جا کے پتھروں کو سناؤ گے اپنی بات جو بات بھی ہو خود سے ہی کہہ سن لیا کرو بے چہرگی کے دشت میں پہچان کیا بتاؤں جیسے ملے ہوا سے ہوا،آ ملا کرو یا پھینک دو اتار کے شیشے کا پیرہن یا پتھروں سے سوچ سمجھ کے ملا کرو محسنؔ کبھی جو لفظوں سے اڑنے لگیں شرار کچھ شعلہء خیال کو نم کر لیا کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھوڑتے پھرتے ہیں ہر سنگ سے ہم سر اپنا پھینک لو تم بھی بڑے شوق سے پتھر اپنا خود کو ہم چھوڑ کے نکلے ہیں سفر پر یہ کہاں تہہ کیا رکھا ہے کس دیس میں بستر اپنا تم نے بار بھی خود سے نہیں پوچھا ہم کو ہم نے بھیجا کیے حال برابر اپنا جب تک امید تھی دھڑکا سا لگا رہتا تھا عالم یاس میں کچھ حال ہے بہتر اپنا پڑ گۓ مانند کہ روشن ہیں ستارے اپنے ہم بھی دیکھیں تو ذرا ہاتھ دکھا کر اپنا وہ برا وقت نہ اب لوٹ کے شاید آۓ رکھ گیا ہے مگر احساس پہ نشتر اپنا آج تک نہر ہے جس دشت کے سینے پہ رواں پیاس میں قتل ہوا تھا وہیں لشکر اپنا تاک میں اس کے بھی ہے گرد زمانہ محسنؔ رہ گیا ہے جو کوئی نقش اجاگر اپنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔