کیا کرناٹکامیں لسانی اورصوبائی جنون ،نئے طوفان کا پیش خیمہ ہے ؟! ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

01:04PM Fri 4 Aug, 2017
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... 
ہندوستان کی جنوبی ریاستوں میں لسانی اور صوبائی عصبیت اور شمالی ریاستوں سے اورخاص کر ہندی زبان سے چِڑ کوئی نئی بات نہیں ہے۔کرناٹکا، کیرالہ، آندھرا پردیش اور تملناڈوکے علاوہ بنگال، آسام، بہار، مہاراشٹرا جیسی ریاستیں بھی کسی نہ کسی مسئلے پر شمال کے ساتھ برسرپیکارہیں۔مگر غیر ہندی داں بیلٹ کے طور پر اپنی پہچان رکھنے والی ریاستوں میں ہندی زبان کی شدید مخالفت تملناڈو کی طرف سے شروع ہوئی جس کا سلسلہ ملک کی آزادی سے پہلے کت زمانے سے جاملتا ہے۔ تب سے ہندی مخالف قیادت کامورچہ ریاست تملناڈو نے سنبھال رکھا ہے اور کنڑا، ملیالم، تیلگو وغیرہ زبانوں کے حامی دیگر مختلف دستوں کی صورت میں محاذ پر بنے ہوئے ہیں۔ مگر لگتا ہے کہ اب ریاست کرناٹکا سے لسانی اور صوبائی عصبیت یا انتہاپسندی کانیا طوفان سر اٹھانے والا ہے۔ جس کا محورہندی زبان ہی بننے والی ہے۔
صوبائی اور لسانی عصبیت کا یہ جنون: اس وقت ملک فرقہ وارانہ عصبیت اور تشدد کے انتہائی خطرناک موڑ کی طرف آگے بڑھ رہا ہے اور عملاً جمہوری نظام کی جگہ تاناشاہی دور حکومت کی آمد آمد ہے۔اور فضاؤں میں ایسی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں کہ مختلف صوبوں اورسینکڑوں زبانوں و ثقافتوں سے بھرے اس وسیع ملک میں ایک خاص مذہب اور ثقافت کوہر قیمت اور ہر حال میں رائج کرنے کی جو فسطائی مہم چل پڑی ہے اس کے خلاف ایک طویل جنگ آزادی کی شروعات کرنا اب ضروری ہوگیا ہے۔ ایسے میں اگر صوبائی سطح پر علاقائی اورلسانی عصبیت کا آسیب جاگ پڑتا ہے تو پھر ملکی سلامتی اور امن و آشتی کے لئے سنگین خطرہ اور تباہی وبربادی یقینی ہے۔جس کے بارے میں سوچ کر ہر امن پسند شہری پر لرزہ طاری ہونا فطری بات ہے۔بقول کلیم عاجزؔ :
دل کہتا ہے فصلِ جنوں کے آنے میں کچھ دیر نہیں اب یہ ہوا چلنے کو ہی ہے ، صبح چلے یا شام چلے
جنوبی ریاستوں کی آپسی رنجشیں: حالانکہ ہندی مخالف محاذ پر جنوبی اور غیر ہندی داں ریاستیں مشترکہ بنیادوں پر ایک دوسرے کے ساتھ پوری طرح تعاون کررہی ہیں، لیکن ان ریاستوں کے مابین بھی علاقائی اور لسانی بنیادوں پر اختلاف اور آپسی رنجشیں اپنی جگہ موجود ہیں۔ جیسے ہم ریاست کرناٹکا کوہی لیں تو اس کے اپنے پڑوسی صوبوں جیسے مہاراشٹرا، گوا، کیرالہ آندھرااور تمل ناڈوکے ساتھ سرحدی تنازعات ، صوبائی کنڑی زبان کے اطلاق اور ندیوں کے پانی کی فراہمی کو لے کر شدید اختلافات موجود ہیں۔مہاراشٹرا کے ساتھ بیلگام کے علاقے نیپانی و اطراف کاسرحدی تنازعہ جہاں پر کنڑا اور مرہٹی زبان کے استعمال پر اختلاف ہے ۔ گوا کے ساتھ کاروارکے ماجالی سرحدی علاقے کا مسئلہ اوروہاں کنڑی و کونکنی زبان کے استعمال میں پر اختلاف ہے۔کیرالہ میں منگلورو کے سرحدی علاقے کاسرگوڈ کا مسئلہ اور وہاں پر کنڑا اور ملیالم زبان کے استعمال کا تنازعہ ہے۔جبکہ تمل ناڈو کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ کاویری ندی کے پانی کا ہے جو ہمیشہ گرمیوں کے موسم میں اور زیادہ گرم ہوجاتاہے۔اسی طرح آندھرا پردیش کے ساتھ بھی تنگ بھدرا ندی کے پانی کا مسئلہ بھی تنازعہ بنا ہوا ہے۔اس کے علاوہ کرشناندی سے پانی حاصل کرنے کے مسئلے پر آندھرا، کرناٹکا اور مہاراشٹرا کے درمیان چپقلش سر اٹھاتی رہتی ہے۔
شیو سینا اور جنوبی باشندے : جنوبی ریاستوں میں علاقے اور زبان کے مسئلے پر جنونی ردعمل کوئی تازہ واردات نہیں ہے۔ اگرہم ماضی کی بات کریں تو ہندی زبان کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا آغاز 1938میں اس وقت کی مدراس اسٹیٹ اور مدراس پراونسMadras Provice یعنی موجودہ تملناڈو سے ہواتھا۔ اس کے بعد جنوبی ریاستوں کی زبان، کلچر اور افرادکے خلاف بہت بڑی اور منظم تحریک سن60کی دہائی میں مہاراشٹرا میں بال ٹھاکرے نے شیو سینا نے چلائی تھی جس کا مرکز عروس البلاد ممبئی تھا۔اس کے تحت کنڑیگاس، ملیالی اور تمل باشندوں اور ان کے کاروباری اداروں کے خلاف عوامی تحریک چل پڑی تھی۔ منشاء سرکاری، نیم سرکاری ، نجی ملازمتوں اور کاروباری اداروں سے "بیرونی افراد "(ساوتھ انڈین)کو ہٹانا اور مقامی مراٹھا طبقے کو مواقع فراہم کرنابتایا گیا تھا ۔" امچی ممبئی" شلوگن کے ذریعے یہ دعویٰ کیا گیا کہ ممبئی کے وسائل سے استفادہ کرنے کاحق سب سے پہلے "ممبئی کر"کا ہے۔ اس احتجاج کے دوران کنڑیگاس کے اڈپی ہوٹلوں کو خاص طور پرتوڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔اس وقت مذکورہ تینوں جنوبی ریاست کے باشندوں کو مرہٹہ قوم پرست جنونی "مدراسی" یا "ملباری "کے نام سے پکارتے تھے اس لئے اس تحریک کو مدراسی مخالفanti Madraseeتحریک کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے جو غیر مراٹھی ہندوستانی بھائیوں کے ساتھ مراٹھی غیرت Marathi Prideکے نام پر شیوسینا کی طرف سے چھیڑی گئی ایک سماجی و ثقافتی جنگ تھی۔آج کے زمانے میں اسی رجحان کے تحت شیوسینا اور مہاراشٹرا نونرمان سینا کے نشانے پرشمالی ہندوستان کی یوپی، بہار، آسام اور بنگال جیسی ریاستوں کے باشندے ہیں۔
اس قدر عام ہے یہ پیشہ کہ اب ممکن ہے شرم قاتل کو بھی ہونے لگے قاتل ہوتے
کنڑا کا جنون اور اردو نیوزبلیٹین: کرناٹکا میں صوبائی مسائل کے ساتھ لسانی طور پر کنڑا کاجنون پہلے سے موجود تھالیکن حالیہ دنوں میں یہ جادو سر چڑھ کر بولنے لگاہے۔مہاراشٹرا کےMarathi Prideکے طرز پر یہاں پرKannada Prideکا جن بھی اپنی کارستانی دکھانے لگا ہے۔ ماضی میں کنڑا زبان کے حامیوں کا بڑا اور پرتشدد جنونی ردعمل اکتوبر 1994میں دور درشن بنگلوروسے اردو بلیٹین کا ٹیلی کاسٹ شروع کرنے پر سامنے آیا تھا۔ اردو ٹیلی کاسٹ کے لئے روزانہ صرف دس منٹ الاٹ کیے جانے پرکنڑا کی حمایت کے نام پر بھڑکائے گئے اس فساد میں تین دن کے اندر تقریباً25 جانیں تلف ہوگئی تھیں۔درجنوں سرکاری اور نجی بسوں اور موٹر گاڑیوں کو نذر آتش کردیا گیاتھا۔لوٹ مار میں کروڑوں روپوں کا مالی نقصان جو ہوا سو الگ رہا۔سرکاری ادبی ادارہ کنڑا ساہتیہ پریشداور دیگر50سے زائد کنڑا حامی اداروں نے ریاست گیر احتجاج شروع کرنے کی دھمکی دے ڈالی اور حکومت نے تین دن کے اندر اردو بلیٹین جاری کرنے کے احکامات واپس لیے تھے ۔ اس وقت یعنی 10اکتوبر1994 کومعروف انگریزی اخبار "دی ہندو"نیکنڑا حامیوں کی طرف سے اردو پرمسلمانوں کی زبان کا لیبل لگانے کی مذمت کرتے ہوئے اس فرقہ وارانہ فساد کے پس منظر میں بہت ہی سخت ایڈیٹوریل شائع کرتے ہوئے بڑے نامور غیر مسلم اردو ادیبوں کا ذکر کیا تھا اور لکھاتھا کہ:" بے شک یہ ایک دکھ کا دن ہوگا جبکہ اردو کی قدر وقیمت گھٹا کر اسے پوری طرح فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ دیا جائے ۔"
یہ ایک سیاسی کھیل تھا: سیاسی و سماجی تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ اردو نیوز بلیٹین کی مخالفت کا جھنڈا بلند کرکے کرناٹکا میں کنڑا پرائڈ کا کارڈ کھیلنے کے پیچھے بھارتیہ جنتا پارٹی کا ہاتھ تھا اوریہ کھیل اس وقت کرناٹکا میں ویرپّا موئیلی کی قیادت میں قائم کانگریسی حکومت کو نقصان پہنچانے کے لئے کھیلا گیاتھا ۔ اتفاق کی بات یہ بھی تھی کہ ویرپا موئیلی کی حکومت نے اردو نیوز بلیٹین جاری کرنے کے احکامات2اکتوبر کوگاندھی جینتی کے حوالے سے اس وقت جاری کیے تھے جبکہ 26نومبر اور یکم دسمبرکو اسمبلی کے انتخابات ہونے والے تھے۔ لہٰذا اپوزیشن پارٹی بی جے پی اور انڈین پیوپلس پارٹی نے اردو نیوز بلیٹین جاری کرنے کے فیصلے کو کانگریس کا انتخابی ہتھکنڈہ اور مسلم ووٹ بینک کو خوش کرنے کافیصلہ قرار دیتے ہوئے کنڑا پرائڈ والے جذبات کو ہوا دینے میں کامیابی حاصل کی۔اس طرح بی جے پی کے لئے جنوب میں اپنا وجود ثابت کرنے اور انتخابی چالیں چلنے کے لیے یہ ایک سنہرا موقع ثابت ہوا۔
مُکدّر چمن کی فضا ہو گئی ہے ، الگ ہیں سیاست کی چالیں یہاں کی میں خاروں سے دامن بچاتا ہوں لیکن ، مجھے پھول کی پتّیاں ڈس رہی ہیں(۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔کرناٹکا میں علاقائی اور لسانی تعصب اور و شدت پسندی کی نئی ہوا۔۔۔ اگلی قسط میں ملاحظہ کریں)