’’آخ  تٗھوآپ کی شاعری پر۔۔۔ آخ تٗھو!‘‘

Bhatkallys

Published in - Other

09:48AM Sun 17 Jul, 2016
 مُمبئی میں اُردو کے ایک ممتاز شاعر  وادیب اور   بالخصوص زبان و فن کے منتہی  محمد اظہر حسین نقوی   معروف بہ پرتوؔ لکھنوی تھے۔ ان سے ایک انٹرویو میں ہم نے پوچھا کہ حضرت آپ کون کون سی زبان جانتے ہیں؟ جواب ملا : میاں    اُردو، فارسی، ہندی کچھ انگریزی اور عبرانی۔ عبرانی کا نام سنتے ہی ہم نے ان کی طرف تجسس بھری نظروں سے دیکھا  اور پوچھا کہ حضور والا ! عبرانی سیکھنے کی کیا ضرورت آن  پڑی؟ اب ان کا جواب جو سنا تو پھر حیرت  کے ساتھ ہم  ایک عجب کیفیت سے  دوچار  ہوئے۔ انہوں نے کہا تھا : میاں جوانی میں مجھے شوق ہوا کہ   توریت مقدس کا  مطالعہ کیا جائے، سو    میں نے  عبرانی سیکھی۔ ۔۔۔ اب ذرا سنیے کہ اُنہوں نے کس سے اور کیسے عبرانی سیکھی۔  روایت ہے کہ اسی شہر میں ایک  بزرگ گزرے ہیں سید علی صفدر وہ موصوف ریاضی اور فلسفے کے ماہر تھے۔ ریاضی کے با قاعدہ اُستاد تھے مگر  فلسفہ ان کا  محبوب موضوع تھا اور اس میں ان کو خاصا درک تھا اور  دوسری بلکہ تیسری صفت  یہ تھی کہ وہ  عبرانی اس درجہ جانتے تھے کہ انہوں نے پرتو لکھنوی کو صرف تین ماہ میں عبرانی  اس  طرح  پڑھا دی کہ وہ (پرتوؔ) باقاعدہ توریت مقدس پڑھنے ہی نہیں لگے بلکہ اس کی تفہیم پر بھی قادر ہوگئے۔۔۔۔ اُس وقت بھی یہ سوچ رہے تھے  اور آج بھی  یہ بات ذہن میں ہے کہ ہم تو اس   زبان کو بھی جیسا جاننا چاہیے نہیں  جانتے   جسےاپنی مادری زبان کہتے نہیں تھکتے۔ بلکہ اسی زبان کی روٹی ہم  توڑ رہے ہیں۔ سید علی صفدر کس درجے کے عالم تھے اس کا اندازہ تو آپ کو ہو ہی گیا مگر  یہاں یہ بتانا غیر ضروری نہیں کہ سید علی صفدر  اپنے زمانے  میں بھی مشہور نہیں تھے اور نہ ہی انھیں شہرت کی طلب تھی بلکہ یہ کہا جائے تو  زیادہ صحیح ہوگا کہ وہ بے نیاز انسان تھے۔ البتہ ان کے فرزند کو تمام دُنیا جانتی ہے بلکہ  اس  کالم کے اکثر قاری بھی  ان کے بیٹے کے نام سے واقف ہیں وہ تھے فلم رائٹر علی رضا۔ پرتو لکھنوی کے بارے میں اس شہر کے پرانے لوگوں میں کئی حضرات ایسے مل جائیں گے جو اُن کی زبا ندانی اور علم و فن کے تئیں ان کے اخلاص و عمل کے   شاہد ہی نہیں بلکہ  ان کے قائل بھی ہیں۔ ۔۔۔ وہ نہ تو کوئی لفظ غلط سن سکتے تھے اور غلط  بولنے  یا لکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔  ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ کسی ایک لفظ پر مشہور فلم رائٹر اور ادیب آغا جانی کاشمیری اور ڈاکٹر ظ انصاری کے درمیان  اختلاف  ہو ا ۔ آغا جانی مصر تھے یہ لفظ  یوں ہی ہے اور  ظ انصاری بضد تھے کہ جیسا میں کہہ رہا ہوں  یہ  لفظ یوں ہی  ہے۔ حسنِ اتفاق تھا کہ آغا جانی کوسا منے سے پرتوؔ لکھنوی آتے ہوئے نظر آئے، تو انہوں نے کہا : ارے واہ، ظؔ صاحب! لیجیے پرتو صاحب آرہے ہیں  اس لفظ کا ابھی فیصلہ ہوجائے گا۔ اب جیسے  ہی پرتو صاحب  سے سامنا ہوا تو  آداب  کے بعد آغا جانی  نے اپنا مدعا  بیان کیا۔ پرتو صاحب  نے آغا جانی  کے موقف کی  برجستہ تائید کردی۔ ظ انصاری کو جو لوگ جانتے ہیں  انہیں اچھی طرح یاد ہوگا کہ ظ انصاری بھی کسی بات کو  بہ آسانی تسلیم نہیں کرتے تھے۔  پرتو  صاحب نے  جیسے ہی اپنی بات تمام کی تو   ظ  انصاری نے  پرتو صاحب کی بات پر اپنی دلیل کو سوال بنا کر پیش کیا ۔ پرتو صاحب  نے ان کی طرف ایک نظر دیکھا اور کہا : کہ  جناب ! میں نے  جو عرض کیا  میرے نزدیک و ہی صحیح ہے۔ تو آغا جانی نے   مداخلت کی اور کہا : ’’  پرتو صاحب!  آپ  شایداِنہیں نہیں جانتے یہ ظ انصاری صاحب ہیں ڈاکٹر ظ انصاری۔ ‘‘ اب حضرت ِپرتو  کے ماتھے پر  بل پڑے اور انہوں نے  ظ انصاری کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا اور فوراً یہ کہہ کر   نہایت سرعت کے ساتھ آگے بڑھ گئے کہ ’’ الف سے لے کر  یے تک   یہ کوئی بھی انصاری ہوں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ،جو میں صحیح  سمجھ رہا ہوں  وہ میں نے  عرض کردِیا۔‘‘ پرتو  صاحب خالص لکھنوی ادب و آداب  کے پروردہ ہی نہیں    بلکہ زبان و ادب  کے معاملے میں’’ لکھنؤ‘‘ کو واحد مرکز مانتے  ہی نہیں تھے بلکہ اس کو وہ  ایمان و  عقائد کی طرح حرزِ جاں سمجھتےتھے ۔  ایک بار ہم نے ان سے پوچھ لیا کہ حضرت کیسے مزاج ہیں؟  بس  اُنہوں نے گھورتے ہوئے ہمیں دیکھا اور کہا کہ میاں بتاؤں!   کیسے مزاج ہیں،  سَر کی طرف  اشارہ کیا کہ میاں یہاں در د ہے، پھر سینے کی طرف  اشارہ کیا کہ یہاں بھی  درد ہے اور پھر پیٹ کی طرف اشارہ کیا کہ یہاں بھی۔۔۔ اور پھر کہنے لگے کہ  چوتھے کا حال بتاؤں۔۔؟ ہم چپ سادھے اپنی  زبان کھولنے کی سزا بھگت رہے تھے۔ اُن کا کچھ  مزاج ہلکاہوا تو قریب آنے کو کہا، جب ہم قریب ہوئے تو   ہمارا ایک شانہ انہوں نے زور دیکر دبایا اور بولے: میاں  صاحبزادے ایک آدمی کا ایک ہی مزاج ہوتا ہے۔ لہٰذا  آپ کا یہ پوچھنا کہ مزاج کیسے ہیں۔ کیا مطلب!   آپ کو  پوچھنا چاہیے تھا کہ مزاج کیسا ہے ؟۔۔۔ اس واقعے کو  تیس بر س سے زائد مدت گزر رہی ہے۔ پرتو لکھنوی کی تنبیہ کے بعد  ہمارے منہ  سے پھر کبھی ’’۔۔۔ مزاج کیسے ہیں ؟‘‘ نہیں نکلا۔۔۔ لفظوں کے بارے میں کسی بزرگ کا یہ قول پڑھا تھا کہ ’’لفظ  ایک زندہ    اور  نہایت قوی حیثیت کو کہتے ہیں اگر آپ اس سے بے پروا ہوئے تو  یہ چند حرفی لفظ آپ کو بھی  بے معنی کرنے پر قادر ہے۔‘‘۔۔۔۔ ہم نے   اپنے اس کالم میں  پرتو لکھنوی ، آغا جانی کاشمیری اور  ظ انصاری ہی کا ذکر کیا  ہے اور آئندہ دوسری شخصیات بھی  یہاں مذکور ہونگی۔ ہم  اہل کتاب ہیں اور کتاب  نہایت وسیع اور بلیغ استعارہ بھی ہے۔  جب کتاب کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے تو لفظ کا سامنے آنا بھی  لازمی ہے۔ ہمارے تصورات و خیالات کی تجسیم کا نام ہی   ’’ لفظ‘‘ ہے۔  باقر مہدی کا یہ مصرع اکثر ہمارا تعاقب کرتا  رہتا ہے کہ ذرا سنبھال کے لفظوں کو جوڑیے صاحب!۔۔۔ پرتو لکھنوی کے ذکر میں ان کے مزاج کا جو خاکہ سامنے آیا ہے  وہ یقیناً آج کے ’’صاحبان ِعلم ‘‘ کےلئے  تمسخر کا سبب بن سکتا ہے مگر اس کے بر عکس ان کا یہ کردار بھی ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ اُن کے  نہایت بے تکلف دوست ، مشہور شاعر و ادیب اور ہندو  مذہب کے  اپنے وقت میں جید عالِم،وِدوان ڈاکٹر صفدر آہ سیتا پوری کے ساتھ پرتو لکھنوی  اپنی رہائش (امام باڑہ ببر علی) میں بیٹھے محو گفتگو ہیں کہ اچانک صفدر صاحب   کا موڈ بدلتا ہے اور وہ  پرتو صاحب کی طرف گھورتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ’’ پرتو ،پرتو! آپ شاعر ہیں؟،  اور پھر نہایت جارح انداز ہی نہیں بلکہ تمسخر کے ساتھ  بلند آواز سے کہتے ہیں:’’ آخ  تھوآپ کی شاعری پر آخ  تھو۔‘‘ اس جملے کا آخری  ٹکڑا انہوں نے تین چار بار ادا کیا ہوگا اور پرتو  صاحب  نیم تبسم خموشی کے ساتھ سنتے رہے جب  پرتو صاحب نے  صفدر  صاحب کی  بات پر’’ آہ‘‘ تک نہ کی تو  صفدر صاحب ایک بار پھر آخ تھو کہتے  ہوئے،  وہاں  سے اُٹھ گئے، یہ بات ابھی ختم نہیں ہوئی،  سنیے  یہ دونوں حضرات اس  واقعے کے بعد بھی کئی  برس  زندہ رہے اور  تعلقات میں ذرا بھی دراڑ نہیں پڑی۔ جب بھی ملتے ویسے ہی تپاک سے ایک دوسرے کا خیر مقدم کرتے تھے۔ ہمیں آج بھی جب جب یہ دونوں یاد آتے ہیں تو اپنا محاسبہ کر تے  ہوئے ایک شرم دامن گیر  ہوتی ہے کہ ہم اور ہمارا کردار کیا  ہے اور ہمارے بزرگ اپنی تمامتر کمزوریوں کے باوجود کتنے قوی تھے، اسی سبب تو وہ مر کر بھی ذہن میں زندہ  و تابندہ ہیں۔ ندیم صدیقی