’’ اگر آج اقبالؔ ہوتے تو کیااُن کا بھی حشر امجدؔ صابری جیسا ہوتا؟

Bhatkallys

Published in - Other

08:58AM Sat 25 Jun, 2016
کراچی کا ایک فیشن ا یبل بازار طارق روڈ کے نام سے مشہور ہے۔ کراچی میں جہاں ہمارا قیام تھا وہاں سے یہ بازار سیدھا بہادر آباد سرکل تک چلا گیا ہے اس کا فاصلہ یوں سمجھیے ،جیسے ممبئی کے بھنڈی بازار کے جوہر چوک سے کرافورڈ مارکیٹ کے سرکل تک۔ طارق روڈ پر طرح طرح کی چیزوں کی بڑی بڑی دُکانیںہیں جن سے یہ علاقہ بار ونق ہے۔ ایک شام ہمیں اپنی پھوپھی کے گھر (واقع بہادر آباد سرکل) جانا تھا، ہم کوئی سواری نہ لیتے ہوئے پیدل چل پڑے۔ بازار کی رونق سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کوئی بیس پچیس منٹ میں ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ وہاں گپ شپ میں وقت کا خیال ہی نہیں رہا۔ جب احساس ہوا کہ وقت خاصا ہو چکا ہے چلنا چاہیے وہاں دادا، دادی پریشان ہونگے۔ ہم اُٹھے تو پھوپھی نے روکا کہ کھانا ہمارے ساتھ کھاؤ اور پھر چلے جانا ۔ ہم تکلف میں کچھ نہ کہہ سکے اور بیٹھ گئے۔ جب کھانے سے فراغت ہوگئی تو واپسی کا بھی وہی طریق اختیا رکیا۔ یعنی پیدل چل دِیے۔ چونکہ دو تین گھنٹے گزر چکے تھے۔ دادا، دادی کو فکر ہوئی، کوئی تین دہے قبل موبائیل کا تصور بھی نہیں تھا ۔ دادا نے اپنی بیٹی کو( بہادر آباد) فون لگایا کہ ندیمؔ کہاں ہے ۔؟ جواب ملا: یہاں سے نکل چکا ہے۔ ہوسکتا ہے راستے میں ہو ا ور کچھ دیر میں پہنچ جائے۔ پھر کچھ دیر میں دادا کا فون آیا کہ ندیم اب تک نہیں پہنچا۔ اس طرح کوئی تین چار بار اُنہوں نے فون کر ڈالا۔ اب ہم جب گھر پہنچے تو بہادر آباد سے فون کھڑ کھڑا رہا تھا، ہم نے رِیسور اٹھا یا تو ہماری پھوپھی تاسف کے انداز میں کہہ رہی تھیں ’’کہ دیکھو ، ابّا تمہیں تین چار سال کابچہ سمجھ رہے ہیں،چار بار فون کر چکے ہیں کہ ندیم اب تک گھر نہیں پہنچا، آخر کہاں رہ گیا، تم نے اسے اتنی دیر کیوں روک رکھا۔ ہم اور تمہاری ماں پریشان ہیں۔ ‘‘۔۔۔ ہم نے کہا کہ جانے دِیجیے۔ فون کا ریسیور رکھا تو دادا نے اپنی طرف بلایا اُن کے پاس پہنچے اور انہوں نے جو کچھ کہا ، وہ یہاں بیان کرنا مقصودہے۔ بزرگوار کہنے لگے کہ میاں یہاں کے حالات بہت خطر ناک ہیں کس وقت اور کس کے ساتھ یہاں کیا ہوجائےگا، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ہمارے علم میں ہے کہ ایک ہٹا کٹا نوجوان جو اپنے کسی عزیز کے ہاںمیرٹھ سے آیا تھا، اسے سرِ راہ اٹھا لیا گیا۔ یہاں اس کے تمام اعزہ اور میرٹھ میں اس کے والدین بری طرح پریشان تھے۔ اس کی قسمت نے یاوری کی کوئی ڈیڑھ ماہ بعد وہ کراچی سے بہت دور افغانستان سے قریب سرحدی علاقے میںپایا گیا ۔ ایک لمبی روداد ہے، مختصر یہ کہ جب اسے یہاں لایاگیا تو وہ بہت کمزور کیا، بالکل لاغر تھا ۔ ہسپتال لے جایا گیا جب پورا چیک اپ ہوا تو پتہ چلا کہ کوئی بیس پچیس دن قبل اس کا ایک گردہ نکال لیا گیا ہے۔ یہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ وہ مل گیا بعض لوگوں کا تو سراغ ہی نہیں لگا کہ وہ زِندہ بھی ہیں یا دُنیا سے اٹھا دِیے گئے۔ ایسے ایک دو نہیں نجانے کتنے واقعات ہیں۔ جو یہاں معمول بن چکے ہیں۔ ایسے میں اتنی دیر تک تمہارا گھر نہ پہنچنا ہمارے لئے بہت تکلیف دِہ تھا۔۔۔ اسی سفرِکراچی میں ہم مشہور شاعر اور جید عالم رئیس امروہوی سے بھی ملے تھے ۔ کوئی تین دہے قبل کی یہ باتیں ہیں۔ کراچی سے لوٹے ہوئے کوئی ماہ بھر گزرا ہوگا کہ خبر آئی کہ رئیس امروہوی کو کسی نے گولی مار دِی۔ مشہورِ زمانہ مجلے’’ تکبیر‘‘ کے مدیر صلاح الدین ، روزنامہ جنگ میں فتوے لکھنے والے ممتاز عالم ِدین مولانا یوسف لدھیانوی، مولانا سعید احمد جلال پوری، مشہور ذاکر ِ اہل بیت مولانا عرفان حیدر اور یاد آئے نہایت شریف اوردرد مند شخصیت کے حامل عالِم اور طبیب حکیم محمد سعید اور مشہورِ عالَم پینٹر اسماعیل گُل جی کو قتل کردِیا گیا۔ یہ تو چند نام ہیں جو اِس وقت یاد آگئے ورنہ اس طرح کے بہیمانہ قتل کے نجانے کتنے واقعات ہیں۔ مسجدوں اور امام بارگاہوں تک وہاں کوئی محفوظ نہیں۔ ایک نہایت دردناک واقعہ اوریاد آیا اگر ہمارا حافظہ خطا نہیں کرتا تو2006 میں بارہ ربیع الاوّل کا دن تھا اور رسول کریمؐ کے جشن ِ پیدائش کے جلوس میں عین نماز مغرب کے وقت کراچی کے نشتر پارک میں بم دھماکہ کیا گیا۔ کوئی پچاس انسان شہید اور سو سے زائد افراد بری طرح زخمی ہوئے تھے۔ ان تمام واقعات کو دہے گزر گئے ان کے حقیقی مجرمین گرفت میں نہیں آسکے۔ گزشتہ بدھ کو کراچی ہی میں مشہور قوال امجد ؔصابری کے قتل نے ہم جیسے نجانے کتنےدرد مندوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ امجد کی خطا اتنی تھی کہ وہ اکثر ایک نعت پڑھتے تھے جس میں یہ شعر بھی تھا:’’ مَیں قبر اندھیری میں، گھبراؤں گا جب تنہا ÷ امداد کو میری تم آجانا رسول اللہ۔‘‘ جس میں کسی کو توہین رسالت محسوس ہوئی ۔جو لوگ شعر و شاعری کی معمولی سی بھی فہم یا نعت وغیرہ کا شغف رکھتے ہیں۔ وہ سوچیں کہ ان لفظوں میں کیا کوئی ایک لفظ بھی ایسا ہے جس میں اُنﷺ کی توہین کا شائبہ بھی ہو۔ اس طرح کے تو نجانے کتنے اشعار ہمارے بزرگوں نے کہے ہیں اور اب بھی کہے جاتے ہیں۔۔۔ پاکستان میں علامہ اقبالؔ کو غیر معمولی عقیدت سے دیکھا جاتا ہے۔ یقیناً اقبال ؔاس کا حق بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے اُردو شاعری میں جس طرح اپنا مقام بنایا وہ بے مثال ہے۔ مگر آج امجدؔ صابری کےقتل کی جو وجہ بیان کی گئی ہے اس پس منظر میں ہم سوچ رہے ہیں کہ اقبالؔ کے ’’تصورِ پاکستان‘‘پر کوئی تبصرہ نہیں مگر اب جس پاکستان کا وجود ہے وہ کس قدر ’’ ظالم اورسفاک‘‘ ہے۔ !!۔۔۔اگر آج علامہ اقبال ہوتے تو عجب نہ ہوتا کہ’’ شکوہ‘‘ لکھنے کی پاداش میں انھیں بھی بم سے اُڑا دِیا جاتا یا گولیوں سے بھون دیا جاتا کہ’’ نعوذ باللہ اس شاعر نے ربِ کریم سے شکوے کی جرأت کی ہے، اسے فوراً سے پیشتر جہنم رسید کرو۔‘‘۔۔۔ قومِ مسلم پرکسی دوسرے کاایک تبصرہ بھی اس وقت ذہن میں کلبلا رہا ہے کہ۔۔۔’’ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دویہ آپس ہی میں ایک دوسرے کو جہنم رسید کرتے رہیں گے۔‘‘۔۔۔ ہم آدمی ہیں بقول مرزا غالبؔ پیالہ و ساغر نہیں۔ ایسے واقعات دِل کو خون کر دیتےہیں۔ دُنیا کہاں پہنچ رہی ہے اور ہم ہیں کہ ایک دوسرے کو جہنم رسید کرنے کے عمل میں سبقت لے جانے کی سعی میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسا کیا ’غسلِ ذہنی‘ کردیا گیا ہے کہ ہم یہ بھی بھول گئے ہیں کہ’’ جس نے کسی ایک انسان کا بھی قتل کیا تو یہ گویاایسا ہے جیسے پوری انسانیت کا قتل۔‘‘ ندیم صدیقی ممبئی اردو نیوز کے تازہ کالم " شب و روز " سے ماخوذ