ٹی ایم سی دکانوں کا مسئلہ ......بھول کہاں ہوئی؟(تیسری قسط)۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

گزشتہ دو قسطوں میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ مقامی کاروباری حالات اور میونسپالٹی کی ملکیت والی دکانوں کے کرایہ داروں کا مسئلہ کیا ہے اوریہ کس طرح دھیرے دھیرے ایک تصادم اور سنگھر ش کی راہ پر چل پڑا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ نئے چیف افیسر نے کرایہ داروں کے ساتھ جو ٹکراؤ کی راہ اپنائی اس کے پیچھے بھی ایک بنیادی سبب اس کا اپنا مفاد تھا۔اور سارے مسئلے کو پیچیدہ بنانے میں اسی عنصر کا بڑا رول رہا۔
چیف افیسر کو اپنے ریکارڈ کی فکر تھی: چونکہ میونسپل کاونسل کے افسران کی طرف سے دکانداروں کے خلاف گمراہ کن رپورٹ ڈپٹی کمشنر کو بھیجی گئی تھی اس کی بنیاد پر ڈی سی نے واضح احکامات دئے تھے کہ سابقہ کرایہ داروں سے دکانوں کو کاونسل اپنے قبضے میں لے اور پھر ا س کی عام نیلامی کردے ،جس میں سابقہ کرایہ داروں کو اسی صورت میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے جب کہ وہ "بقایاجات "ادا کرکے دکانیں ٹی ایم سی کے حوالے کریں۔دراصل یہاں جو چیف افیسر تھا اس کی اپنی مجبوری یہ تھی کہ اس کی ریٹائرمنٹ کے دن قریب تھے۔اور یٹائرمنٹ سے قبل اسے اپنا ریکارڈ صاف رکھنا اور اعلیٰ افسر کی طرف سے شاندار کارکردگی کی رپورٹ حاصل کرنا اس کے لئے ضروری تھا۔ ڈی کے پاس رپورٹ یہ تھی کہ کرایہ داروں پر"بقایاجات'کی شکل میں میونسپالٹی کے لاکھوں روپے واجب الادا ہیں۔ اور ڈی سی کا دباؤ تھا کہ چیف افیسر کسی بھی طرح اس رقم کو وصول کرے۔یہی سبب تھا کہ چیف افیسر کی طر ف سے باربار ڈی سی کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے دکانداروں کو نوٹسیں جاری کی گئیں اور ہر حال میں دکانیں خالی کرکے اپنے قبضے میں لینے کے لئے طاقت کا استعمال کرنے تک کی دھمکی دی گئی۔
بقایا جات کا چکرکیا ہے؟: چیف افیسر نے تقریباً آٹھ دس مہینے قبل 150کے قریب کے دکانداروں کو جو پہلی نوٹس بھیجی اس میں ہر دکان پر پانچ ہزار روپوں سے لے کر پچاس ساٹھ ہزار روپے کرایہ "باقی"ہونے کی بات کہتے ہوئے ایک مہینے کے اندر اسے ادا کرنے اور دکانیں خالی کرکے ٹی ایم سی کے حوالے کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ دکاندار حیران تھے کہ ہر مہینہ مقررہ کرایہ اداکرنے کے بعد پھر یہ "بقایا جات"کہاں سے آگئے ؟ نوٹس کا تحریری جواب دینے اور وضاحت طلب کرنے پر دکان داروں کوزبانی بتایا گیا کہ گشتہ تین سال قبل کرایہ میں اضافہ کیا گیا تھا اور اس حساب سے ان پر مذکورہ رقم واجب الادا ہوجاتی ہے۔ چونکہ اس سے قبل کبھی بھی اس طرح کے اضافے کے بارے میں کاونسل نے اطلاع یا کوئی نوٹس بھی دکانداروں کو نہیں دی تھی اور یہ بتایا بھی نہیں جارہا تھا کہ کس حساب سے کرایہ بڑھایاگیا اور کس طرح یہ رقم جوڑی گئی ہے۔ اس لئے قانونی پہلو سے جائزہ لینے اور اقدام کرنے کا فیصلہ دکانداروں نے کیا۔اسی دوران دوسری نوٹس ٹی ایم سی چیف افیسر نے دی کہ چونکہ مذکورہ بالا "بقایا جات" متعینہ مدت میں ادا نہیں کیے گئے ہیں اس لیے دکانداراب "defaulters" ہوگئے ہیں اور انہیں بزور طاقت دکانوں سے باہر کردیا جائے گا۔یہ دکانداروں کے لئے ایک سنگین صورتحال تھی۔
دکانداروں کے حقوق کے لئے کمیٹی کی تشکیل: جیسے ہی ٹی ایم سی کے ساتھ دکانداروں کے مسائل نے رنگ بدلا تو اپنے حقوق کے تحفظ اور قانونی کارروائی کے لئے مسلم اور غیر مسلم دکانداروں نے ایک مشترکہ کمیٹی بنائی۔ اس کمیٹی نے قانونی پہلو پر غور کرنے کے ساتھ مفاہمت اور مصالحت کے ساتھ دکانداروں کو اس بحران سے نکالنے کی کوششیں شروع کیں۔ سیاسی قائدین کے ساتھ بیوروکریٹس اور سماجی اداروں کے اہم ذمہ داران سے ملنے اور دکانداروں کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں اس بحران سے نکالنے میں تعاون کرنے کی اپیل کی گئی۔ خاص بات یہ ہے اس کمیٹی کی ابتدائی نشست کے بعد کمیٹی کے غیر مسلم ذمہ داران نے خود اپنے طور پر ایک پالیسی یہ اپنائی کہ اس میں 'کنول'کی سیاست کو داخل ہونے نہ دیا جائے ۔ حالانکہ دکانداروں اور کمیٹی میں بھی 'کنول' سے وابستہ افراد موجود ہیں۔وہ لوگ اس معاملے میں براہ راست ایم پی سے مداخلت کروانے کی خواہش بھی رکھتے تھے ،لیکن سوچ سمجھ کر اس گروپ کے لیڈران کو اس جد وجہد سے دور رکھا گیا۔جس کی شکایت بعد میں پانی سر سے اونچا ہوجانے کے بعد ان کنول کے لیڈروں نے برسرعام کی اور لتاڑ سنائی کہ ہم کو حاشیہ پر رکھ کر 'دوسروں'پر اعتماد کرنے کا نتیجہ اب بھگتو!
ہمارے قائداور مرکزی ادارے سے رابطہ : دکانداروں کی اس کمیٹی نے ڈپٹی کمشنر،ضلع انچارج وزیر، ایم ایل اے، میونسپال صدر اور نائب صدر ، کاونسلرس وغیرہ سے ملنے کے ساتھ ہمارے مرکزی ادارے کے صدرسے بھی ملاقات کی جو خیر سے اس وقت سرکاری عہدے پر بھی فائز تھے، اور ان کا سمّان بھی کیا۔ موصوف نے وفد کو یقین دلایا کہ دکانیں خالی کرواکے ان کے ساتھ زیادتی کرنے نہیں دیا جائے گااور حسب سابق ایسا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا کہ وہ دکانیں سابقہ کرایہ داروں کو ہی مل جائیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے وفد کی موجودگی میں ہی نائب صدر بلدیہ کو اس ضمن میں ہی ہدایت کردی کہ ٹی ایم سی کاونسلرس سابقہ دکانداروں کو ہی دکانیں کرایہ بڑھا کر دینے کے لئے اپنا ایک ریزولیوشن پاس کریں۔اس کے بعدکیا کرنا ہے وہ سمجھا دیں گے۔ مرکزی ادارے کے دیگر کلیدی عہدیداران سے بھی وفد نے ملاقات کی اور یہاں بھی ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہارکرتے ہوئے بھرپور تعاون کا وعدہ کیاگیا۔مقامی ایم ایل اے سے بھی یہی سگنل ملا تھاکہ کاونسل میں اس طرح کا ریزولیوشن پاس ہوجائے۔تب تک چیف افیسر اور ڈی سی دونوں کا تبادلہ ہوجائے گا تو پھر کوئی نہ کوئی راہ نکالی جائے گی۔جہاں تک خود کاونسلرس کا تعلق ہے ان میں سے بعض کاونسلرس اس پر کھلے دل سے تیار تھے اور بعض کچھ پس وپیش کررہے تھے۔
ٹی ایم سی کا ریزولیوشن: اس طرح کی ملاقاتوں کے بعددکانداروں کو یگ گونہ اطمینان ہوگیا کہ کاونسل پر مضبوط گرفت رکھنے والے ادارے نے ہی جب تعاون کا وعدہ کیا ہے تو پھر یہ مسئلہ بغیر پیچیدگی کے افہام و تفہیم کے ساتھ حل ہوجائے گا۔اس کا اظہار خود ہمارے مرکزی ادارے کے قائد کی یقین دہانی پر ایک کنول والے نے کیا اور کہا کہ :"ہمارے مسائل حل کرنے کے لئے ہمارا اپنا آدمی یہاں پر موجود ہے اور ہم دوسروں کے دروازوں پر ٹھوکریں کھا تے پھر رہے ہیں۔"
اسی دوران مرکزی ادارے میں اس مسئلہ پر بحث و گفتگوبھی ہوئی ااور اسی پس منظر میں کاونسلرس نے اپنا موقف درست کرلیا اورکاونسل کی میٹنگ ہوئی تو باقاعدہ ایجنڈے پر لا کر یہ ریزولیو شن پاس کردیا گیا کہ دکانیں اضافی کرایے کے ساتھ سابقہ کرایہ داروں کوہی دی جائیں۔ حالانکہ توقع پہلے سے تھی کہ ڈی سی کی طرف سے اس ریزولیوشن کو نامنظور کردیا جائے گا۔ اور ایسا ہوا بھی۔ لیکن مرکزی مسلم ادارے اور شخصیات کے تعلق سے غیر مسلم دکانداروں کے جذبات بہت مثبت اور احترام کا رخ اختیار کرگئے۔ اور مستقبل میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے ایک خوشگوار فضا کا احساس ہونے لگا۔لیکن کیا کریں ! چچا غالبؔ نے یہ جو کہا ہے نا!:
ترے وعدے پہ جیئے ہم ، تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا!
(۔۔۔جاری۔۔۔۔ چوتھی اور آخری قسط ملاحظہ کیجیے) haneefshabab@gmail.com