سچی باتیں۔۔۔ خود احتسابی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

06:27PM Fri 18 Dec, 2020

1925-12-04

اگرآپ خود صاحب اولاد ہیں، یا آپ کے خاندان میں کوئی کمسن بچہ موجود ہے، توآپ نے بارہا اس بچہ کو نصیحت کی ہوگی، کبھی بیجا شرارتوں پر ڈانٹاہوگا، کبھی لکھنے پڑھنے کی تاکید کی ہوگی، کبھی تعلیمی بدشوقی پر ملامت کی ہوگی، کبھی سردی میں گرم کپڑے نہ پہننے پر ٹوکا ہوگا، کبھی حالت بیماری میں بدپرہیزی کرنے پر روک ٹوک کی ہوگی، کبھی بُری صحبتوں سے بچنے کی ہدایت کی ہوگی، غرض اسی طرح سیکڑوں موقعوں پر آپ نے کم عمر بچوں کو اُن کی نادانی ، ناعاقبت اندیشی، اور بے راہ روی پر نصیحتیں اور ملامتیں کی ہوں گی، لیکن کیا خود اپنے متعلق کبھی آپ کو ان نصیحتوں اور ملامتوں کی ضرورت نہیںمحسوس ہوئی؟ کیا اپنی دانائی، عاقبت اندیشی، اور راست روی پر آپ کو پورا بھروسہ ہے؟ کیا خود اپنے طرز زندگی سے متعلق آپ کے دل میں کوئی بے اطمینانی نہیں پیدا ہوتی؟ آپ جس ذوق وشوق کے ساتھ اپنی جائداد کے انتظام میں مصروف ہیں، جس چاؤ کے ساتھ آپ روپیہ کمانے اوراُس کے اُڑانے میں لگے ہوئے ہیں، جس محویت کے ساتھ گھر گرستی کا سازوسامان درست کررہے ہیں، جس دلچسپی کے ساتھ آپ روپیہ بٹورنے میں مشغول ہیں، جس انہماک کے ساتھ آپ اپنی آمدنی بڑھانے کی فکر میں پڑے ہوئے ہیں، جس بیدردی کے ساتھ آپ اپنی تن آسانیوں پر وقت وزر صرف کررہے ہیں، جس شغف کے ساتھ اپنے مکان کی تعمیر کرارہے ہیں، جس حوصلہ مندی کے ساتھ نئے نئے کپڑے بنوارہے ہیں، جس بے فکری کے ساتھ آپ اپنی زندگی کے دن گزار رہے ہیں، جس بے خوفی کے ساتھ آپ اپنے نفس کو ہر طرح کی عیش وعشرت بہم پہونچارہے ہیں، جس بے جگری کے ساتھ آپ اپنے بھائی بندوں کے حق تلف کررہے ہیں، جس بے احتیاطی کے ساتھ آپ اللہ کے احکام کو ٹال رہے ہیں، جس آزادی کے ساتھ آپ شریعت کو پس پشت ڈالے ہوئے ہیں، جس بے پروائی کے ساتھ آپ مَوت کا نام لیتے ہیں، جس بے تعلقی کے ساتھ آپ آخرت کے ذکر کو سُنتے ہیں، جس شانِ بے نیازی کے ساتھ آپ خدا اوراُس کے رسولؐ کے پیاموں کو سُن رہے ہیں، جس خدا فراموشی کے ساتھ آپ اپنی بیوی بچوں کے دھندے میں لگے ہوئے ہیں، کیا یہ چیزیں آپ کے نزدیک بالکل دُرست ومناسب ہیں؟ کیاآپ کو اپنی زندگی اسی طرز پر گزار دینی چاہئے؟ کیا اس طرز زندگی میں آپ کو اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں نظرآتی؟ ایک مرتبہ دل کو مضبوط کرکے خوب اچھی طرح سوچ لیجئے، کہ اس موجودہ زندگی کے بعد، کسی دوسری زندگی سے سابقہ پڑناہے یا نہیں؟ اگرآپ کے خیال میںنہیں پڑناہے، توا س صحبت میں روئے سخن آپ کی جانب نہیں۔ لیکن اگر آپ کا عقیدہ آخرت پر ہے، اگرآپ کو یقین ہے، کہ آیندہ زندگی میں اپنی موجودہ زندگی کے ایک ایک جزئیہ کا، وقت کے ایک ایک لمحہ کا ، حساب دیناہے، تو خدارا اپنی حالت پر نظر کرکے خود فیصلہ کیجئے، کہ آپ کا عمل کہاں تک آپ کے عقیدہ کا ساتھ دے رہا ہے؟ اور آپ جو کچھ زبان سے کہہ رہے ہیں، دل کہاں تک اُس کی موافقت کررہاہے؟ جو شے سب سے زیادہ یقینی، سب سے زیادہ قطعی، سب سے زیادہ اہم ہے، اُسیہ کو نظر انداز کردینا، اُسی کو بھلا دڈالنا، اُسی کو دل سے مٹادینا، اوراُس کے بجائے عارضی وفانی، بیکار ولاحاصل، مُضِر ونقصان رساں، کان نہ آنے والے اور دُکھ دینے والے، مشغلوں اور کاموں میں، دن رات لگے رہنا، کیا یہی آپ کی دانائی، یہی آپ کی عاقبت اندیشی، یہی آپ کی پختہ کاری ہے؟ کیا اِن ہی کی بنیادپر، آپ بچّوں کواُن کی نادانی ، کم فہمی، وخام کاری پر نصیحت اور فضیحت کرتے رہتے ہیں؟ کیا آپ کو معصوم بچوں کے مقابلہ میں، اپنے تئیں، بہتر وبرتر، دانا وعاقل تر، فاضل تر وکامل تر ، زیادہ سمجھدار اور زیادہ باہوش، زیادہ دوراندیش اور زیادہ پختہ مغز سمجھنے کا کچھ بھی حق ہے؟ http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/