ملک کو ضرورت اپنے اور نئے دستور کی ہے۔۔۔از: حفیظ نعمانی

مسلمانوں کے آنے سے پہلے ہندوستان ایک ملک نہیں رجواڑوں میں بٹا ہوا تھا۔ وہ بھی ایک سماج تھا۔ ایک راجہ کے بیٹے کی شادی دوسرے راجہ کی بیٹی سے ہوجایا کرتی تھی۔ رجواڑہ میں دوستی بھی ہوتی تھی اور اختلاف بھی، باتیں بڑی ہوں یا چھوٹی۔ بات بات پر تلوار نکل آتی تھی۔ لیکن وہ بھی ایک نظام تھا جو چل رہا تھا۔
ہندوستان میں ہر طرف سے مسلمان آتے رہے اور کچھ دنوں رہ کر واپس جاتے رہے۔ وہ آئے اور اپنی ایک یادگار چھوڑ گئے بالکل ایسے ہی جیسے آج کے نوجوان ملک کی تاریخی عمارتوں کو دیکھنے جاتے ہیں تو ان عمارتوں کے در و دیوار پر اپنا نام، فون نمبر اور شہر لکھ دیتے ہیں کہ بعد میں آنے والے پڑھیں اور جانیں۔ مسلمان بھی اس طرح ہندوستان آئے اور اپنی کوئی تاریخی عمارت یادگار کے طور پر بناکر چھوڑ گئے۔
بابر ہی ایک ایسا مسلمان تھا جو آیا اور اس نے ہندوستان کو اپنا گھر بنایا۔ بابر نے اور ان کی نسل نے اپنے گھر کو جتنا سجایا جاسکتا تھا سجایا اور ہر کام وہ کیا جس سے مقامی لوگوں کی نفرت ختم ہو۔ اور پھر حکومت کے اکثر کام مقامی ہندوؤں کے سپرد کردیئے گئے۔ دنیا کا کاروبار چلتا رہتا ہے اور تاریخ اپنے اوراق سیاہ کرتی رہتی ہے۔ آخرکار وہ وقت آیا کہ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر سے انگریزوں نے حکومت لے لی اور زبردست قتل و غارت کے بعد اپنی حکومت بنالی۔
انگریزوں کی حکومت کا طریقہ بالکل الگ تھا۔ کیونکہ بادشاہ کوئی نہیں تھا اس لئے قلعہ کی عمارت میں کسی بڑے افسر کو نہیں رکھا گیا۔ انگریزوں کی حکومت صرف برطانیہ میں نہیں دوسری جگہ بھی تھی پوری مملکت کا تاجدار لندن کے قصر بکنگھم میں رہتا تھا اور اس کا سکہ چلتا تھا۔ وہ ملکہ وکٹوریہ ہو یا جارج پنجم، جارج ششم ہو یا جارج ہفتم۔ ہندوستان میں ان کا نمائندہ گورنر جنرل اس محل میں رہتا تھا جس میں آج ہمارے ملک کے صدر رہتے ہیں اور یہ اس کی ہی نقل ہے۔
100 سال کے بعد جب انگریز دوسری جنگ عظیم میں اندر سے ٹوٹ گئے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ دنیا میں جہاں جہاں بھی حکومت ہے وہ ان کے سپرد کرو اور واپس آکر اپنے برطانیہ کو مضبوط بنانے میں ساری صلاحیتیں صرف کردو۔
کانگریس جو آزادی کی لڑائی لڑرہی تھی اس سے انگریزوں نے کہا کہ ملک کی حکومت سنبھالو۔ ہندوستان کے لیڈروں کے سامنے حکومت کا کوئی نقشہ نہیں تھا۔ وہ مغل حکومت کی نقل کرنہیں سکتے تھے کیونکہ گاندھی جی نے گھوڑے پر بیٹھ کر تلوار کے زور سے انگریز کو نہیں بھگایا تھا۔ بلکہ آزادی کی تحریک چلائی تھی۔ انگریزوں ہی میں جب تک دم رہا وہ مقابلہ کرتے رہے لیکن جب دوسری جنگ نے خود ان کو ہی فقیر بنا دیا تو انہوں نے ہر ملک سے جو اُن کے قبضہ میں تھا کہہ دیا کہ اپنا اپنا انتظام کرلو ہم جارہے ہیں۔
پنڈت نہرو نے انگریزوں کی حکومت کا رجسٹر لے لیا اور اس کی فوٹو کاپی کرلی پھر سب کو جمع کیا اور انگریزوں کا دستور اپنایا جس کی 75 فیصدی سے زیادہ باتوں کو جوں کا توں رہنے دیا اور 25 فیصدی معمولی معاملات میں ترمیم کردی۔ یہ بغیر اختیار کا صدر اور نام کا نائب صدر، چھوٹی اور بڑی عدالتوں میں ججوں اور وکیلوں کی پوشاک اور بحث کی زبان۔ پولیس کی وردی اس کا طریقہ کار اور اس کے اختیار اور مینول جیل کے افسروں اور اسٹاف اور جیل کی شکل اور اس میں ملنے والا کھانا پینا جوں کا توں انگریزوں سے لے لیا اور ثابت کردیا کہ ہمیں کچھ نہیں آتا۔
یوروپ اور ہندوستان میں صرف رسم، زبان، رنگ، روپ، کھان پان، لباس، رہن سہن، خشت و برخاست، ایک دوسرے سے بالکل الگ ہے۔ سرکاری طور پر اتوار کی چھٹی یا اسکولوں کے اوقات یا تعلیم کا طریقہ وہی ہے جو انگریز بنا گئے تھے۔ پنڈت نہرو نے جمہوریت کو رائج کرنا چاہا اور وزیراعظم ہوتے ہوئے ہر وزیر کو پورا اختیار دیا۔ لیکن وہ بھی ایسی جمہوریت برداشت نہ کرسکے جو اُن کے خلاف فیصلہ کردے۔ کانگریس کی صدارت کے الیکشن میں نہرو کی مخالفت کے باوجود پرشوتم داس ٹنڈن جیت گئے۔ اس کی تکلیف انہیں اتنی ہوئی کہ وہ کانگریس کو توڑنے پر آمادہ ہوگئے یہ تو مولانا آزاد تھے جو سامنے آئے اور ان کے حلق سے جمہوریت اتاری۔ اور جب اترپردیش میں سی بی گپتا صوبائی کانگریس کے صدر ہوگئے اور سمپورنانند اور پنڈت نہرو کے منیشور دت اُپادھیائے ہار گئے تو انہوں نے پارٹی کی داخلی جمہوریت ہی ختم کردی۔ اور پھر کسی کا الیکشن نہیں ہوا۔
اب ہندوستان میں ایسی جمہوریت ہے جیسی ان دکانوں پر ملتی ہے جن پر بورڈ لگا ہوتا ہے کہ یہاں ہر چیز دیسی گھی کی ملتی ہے اور زیادہ تر وہ چیزیں بکتی ہیں جن کا گھی سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ نہروکی بیٹی اندرا گاندھی نے پہلے تو اندرا از انڈیا۔ انڈیا از اندرا کہنے والوں کے منھ میں لڈو بھرے انہوں نے صرف یہ کارنامہ کیا تھا کہ ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں وزیر اعظم ہوتے ہوئے صدارت کے لئے نیلم سنجیوا ریڈی کا نام طے کیا اور باہر آکر کہہ دیا کہ صدر کے اُمیدوار سابق الیکشن کے چیف کمشنر وی وی گری ہوں گے۔ کانگریس کے صدر کے کامراج جو نہرو کے بنائے ہوئے تھے وہ آوازیں ہی دیتے رہ گئے اور اندرا گاندھی نے کانگریس کے دو ٹکڑے کرائے اس کا دو بیلوں کی جوڑی کا نشان ضبط ہوا اندرا گاندھی کی کانگریس کو دودھ پیتا بچھڑا ملا اور وہ گری کو لے کر نکل پڑیں۔
ان کی ایک ہی آواز تھی کہ ان بوڑھے کھلاڑیوں نے آپ کی بھلائی کا کوئی کام نہیں کرنے دیا۔ اور اب میں وہ سارے کام کروں گا جو نہرو جی کرنا چاہتے تھے۔ اور کانگریس کا بڑا حصہ پھٹ گیا 1967 ء کے الیکشن میں اندراجی نے الگ الیکشن لڑا اور اتنے ووٹ لے لئے کہ کانگریس کمزور ہوگئی اور پھر رفتہ رفتہ مرگئی اور کچھ دنوں دو کانگریس چلیں پھر سب نے اندرا کو دُرگا دیوی مان لیا۔ پنڈت نہرو کے زخموں سے چور جو جمہوریت اندرا گاندھی کو ملی انہوں نے اس کا انتم سنسکار کردیا اور پھر کانگریس کا صدر صوبوں کے صدر سکریٹری نام کے لئے چند چہرے رکھے اور پھر جس نے جہاں چاہا اسے وہاں بٹھایا اور جب چاہا اتار دیا۔
اقتدار سیڑھیاں اترتے اترتے اب مودی جی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہتے تو ملک کو جمہوری بنا دیتے جی چاہتا کسی اور قسم کی جمہوریت لاتے لیکن انہیں سب سے زیادہ اندرا کا طریقہ پسند آیا کہ صدر سے لے کر چپراسی تک ہر کسی کا تقرر وزیراعظم کریں۔ اور ملک میں کوئی شوشہ چھوڑنے سے پہلے دور بہت دور چلے جائیں۔ اب وہ کالے دھن کا شور یا نوٹ بندی کا فیصلہ یا جی ایس ٹی ہر فیصلہ اپنے بل پر اور اپنی عقل سے۔ انہیں یقین ہے کہ ان کے ہندو ووٹ ان کے ساتھ رہیں گے اور دلیل یہ ہے کہ جب چالیس برس کانگریسی حکومتوں کے زمانہ میں مسلمان کٹتے رہے مرتے رہے لٹتے رہے مگر کانگریس کو ہی ووٹ دیتے رہے۔ ایسے ہی ہندو بھوکے مریں یا فاقے کریں یا ننگے گھومیں کھلے آسمان کے نیچے سوئیں۔ چالیس برس مودی کو ووٹ دینے کے بعد سوچیں گے اب کیا کریں۔ وجہ وہی ہے کہ ہندوستان کے ہندوؤں کے پاس حکومت کا کوئی نقشہ نہیں ہے۔
مودی جی کے سامنے ایک طریقہ اٹل جی کا بھی تھا لیکن اس میں سیکولرازم صرف ہری پٹی کا نہیں تھا بلکہ وزیر اعظم بنتے ہی وہ ہندو لیڈر نہیں قومی لیڈر بنے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت کشمیر کی پکار ہے کہ وہ نہ نہرو کو یاد کرتے ہیں اور نہ اندرا کو صرف اٹل جی کی بات کرتے ہیں۔ اور اب بھی اگر اٹل جی کو کشمیر میں لے جاکر صرف لٹا دیا جائے تو وہ فضا کو بدل دیں گے۔ لیکن یہ بات مودی برداشت نہیں کریں گے جو بادشاہ نہ ہوتے ہوئے بھی بادشاہ ہیں اور اندرا گاندھی نے جو ڈکٹیٹری کی تھی مودی اسے بھی دفن کردینا چاہتے ہیں اور وہ ’سیرکر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں‘ پر عمل کررہے ہیں وہ ملک کی طرف سے بے نیاز ہیں صرف دنیا کے سربراہوں سے دوستی بڑھا رہے ہیں۔ اب تک انہوں نے 31 دورے کئے ہیں جن پر کروڑوں روپئے خرچ ہوئے ہوں گے۔ اربوں روپئے کے اسلحہ خریدے ہیں۔
ان کی زندگی سامنے ہے کہ وہ اپنا ایک گھر بناکر اسے نہ چلاسکے تو سواسو کروڑ کے ملک کو کیا چلا پائیں گے ؟ لیکن موقع شناسی کا حال یہ ہے کہ اس بار امریکہ کے سفر میں نئے صدر کی لڑکی کو تو بلاوا دے دیا براک اُبامہ جو ذاتی دوست بن گئے تھے ان سے ملاقات کی تفصیل نہیں آئی۔ وزیر اعظم نے نہ جانے ایسے کتنے برس گذارے ہیں کہ وہ امریکہ جانا چاہتے تھے اور ویزا نہیں ملتا تھا۔ وزیر اعظم بننے کے بعد ویزا ملا تو پانچ بار امریکہ ہو آئے اس پر کتنا خرچ ہوا؟ اس کا حساب تو مل سکتا ہے لیکن ہندوستان کو اس سے کیا ملا تو اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ سب کچھ توڑکر نیا ہندوستان بنایا جائے۔ یہ بہت غلط ہورہا ہے کہ کسی ملک میں کوئی نئی بات دیکھی اور اسے ملک والوں پر تھوپ دیا اور یہ نہ سوچا کہ دنیا کے ملکوں سے ہمارا ملک بالکل الگ ہے۔ ہر پارٹی کے سمجھدار لوگوں کی ایک کاؤنسل بنائی جائے جس میں ہر علاقہ اور ہر طبقہ کے لوگ ہوں اور وہ سب مل کر ایک نیا دستور بنائیں جس کے بعد کوئی نہ کہہ سکے ہمارا خیال نہ رکھا گیا اور جب تک حکومت کا خاکہ اور نقشہ و تفصیلات طے ہوں ملک کے لئے آل پارٹی کی ایک عارضی حکومت بنا دی جائے۔ لیکن ہر بات وہ مسلمانوں کی ہو یا انگریزوں یا اور جس کی بھی ہو سب بدل کر ایسا دستور بنایا جائے کہ ہر کوئی اسے اپنے دل کی آواز کہے۔ اور وزیراعظم مودی ہی رہیں لیکن سفر بند کردیں۔ موجودہ دستور نے ثابت کردیا ہے کہ وہ بناتے وقت انگریزوں کا رعب طاری تھا۔ موجودہ دستور اوپر سے نیچے کی طرح بنا ہے جبکہ اسے نیچے سے اوپر کی طرف بنایا جاتا۔ اور اب بھی کرنا پڑے گا۔
Mobile No. 9984247500