سچی باتیں (۲؍اکتوبر ۱۹۳۱ء)۔۔۔ حمیت دینی۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

07:09PM Sun 12 Mar, 2023

آج (خدانخواستہ )کوئی آپ کے خاندان کو براکہتاہے، توآپ اُس سے لڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں، کوئی آپ کے والد ماجد کی شان میں گستاخی کرتاہے، توآپ کا جی چاہنے لگتاہے، کہ اپنی جان اور اس کی جان ایک کردیں، کوئی آپ کے پیرومرشد کے حق میں کوئی نازیبا کلمہ زبان سے نکالتاہے، تو آپ چاہتے ہیں کہ اس کی زبان پکڑ کر کھینچ لیں، کوئی انگریز ، آپ کے ملک پر، قوم پر، معاشرت پر، کوئی اعتراض کرتاہے، تو آپ غصہ سے تِلملا جاتے ہیں۔ یہ سب عین فطرتِ بشری کے موافق ہے، اور شریعت نے بھی اِس طبعی انتقام کو جائز رکھاہے۔ شرافت نے اس جذبہ کو غیرت سے تعبیر کیاہے، اور جس کی یہ حس مردہ ہوچکی ہے، وہ غیر وحمیت، اور شرافت کی آبادی کے حلقے سے خارج ہوچکاہے، ایسے ہر موقع پر خاموشی اور جمود کا صحیح نام، تحمل ورواداری نہیں، بے حسی و بے غیرتی ہے۔ یہ کیاہے، کہ اللہ اور اُس کے دین پر، اللہ کے رسول اور اُس رسول کی شریعت پر حملے ہوتے ہوئے آپ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، گندے سے گندے جملے، سخیف سے سخیف عبارت میں ہوتے ہوئے آپ دیکھتے ہیں، اور خاموشی کے ساتھ درگزر کرجاتے ہیں۔ رسولؐ کے مقدس صحابیوں کو آپ کے سامنے معاذ اللہ خائن، غدّار، بددیانت، خدّاع، کذّاب، مفتری بتایاجارہاہو، پیمبر برحق حضرت مسیح علیہ السلام کی جی بھر کر توہین کی جارہی ہے، سرورکائنات کے اسم مبارک کو بغیر ادنیٰ لقب تعظیمی کے، محض ’’محمد‘‘ لکھ لکھ کرچھاپا جارہاہے، نماز پرمضحکہ کیاجارہاہے، عبادت تالیاں بج رہی ہیں، جنت وجہنم کے نام پر قہقہے لگ رہے ہیں، حوروملائکہ ، رضوان ومالک سے تمسخر جاری ہے، خود ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ توہین کا کوئی دقیقہ اُٹھ نہیں رہاہے۔ یہ سب کچھ آپ دیکھ رہے ہیں، اور اپنی ’’رواداری‘‘، ’’مصالحت جوئی‘‘ اور ’’آشتی پسندی‘‘ کا ثبوت اپنے سکوت محض دے رہے ہیں! ’’بے زبانی، اچھی چیز ہے، مگر کیا اُس وقت بھی جب آپ کے محبوبوں اور سرداروں کے خلاف ’بدزبانی‘ کا طوفان پھیل رہاہو؟ اسلام پر ، بزرگان دین پر، صالحین امت پر، انبیائے برحق پر، ارکان دین پر، شریعتِ اسلام پر، خدائے اسلام پر، یہ کھلے ہوئے لائبل چھَپ چھَپ کر شائع ہورہے ہیں اور آپ کی غیرت وحمیت ایک بار بھی حرمت میں نہیں آتی! جیل جانے کا سوال نہیں، جان دے دینے کا مذکور نہیں، کوئی یہ نہیں کہتا کہ آپ فوجداری پر آمادہ ہوجائیں، یہ بھی ضروری نہیں، کہ آپ ہتکِ عزت اور جذبات مذہبی کے مجروح ہونے کی بناپر عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں، لیکن اقل مرتبہ، یہ تو آپ بغیر کسی زحمت ودشواری کے، کرسکتے ہیں، کہ اس کفر نوازی اور الحاد پروری سے علانیہ اپنی علٰیحدگی ، بے تعلقی، تبرّی، وبیزاری کا اظہار کردیں، اور ان گندگیوں کے نشرواشاعت کو جوامانت وامداد براہِ راست یا بالواسطہ آپ سے، آپ کے عزیزوں سے، آپ کے دوستوں سے، آپ کی برادری والوں سے، آپ کی بستی والوں سے پہونچ رہی ہے، اُس سے قطعی اور یکسر دست برداری اختیار کرہی لی جائے!ارشاد ربّانی، لا تعاونوا علی الاثم والعدوان (گناہ اور سرکشی کی مدد نہ کرو) صاف اور صریح ہے، اور اعانت کی ہرصورت کو حاوی۔ ( (مولانا دریابادی کی ادارت میں سنہ ۱۹۲۵ء تا ۱۹۷۷ئ جاری سچ، صدق، صدق جدید لکھنؤ کے ادارتی کالم سچی باتیں سے انتخاب ) http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/